Islam Times:
2025-06-13@14:20:33 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(3)

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(3)

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر کے علماء، مفتی جعفر حسین قبلہ کی سپریم کونسل اور نامزد کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے 10 فروری 1984ء کے دن بھکر کی سرزمین پر قائد ملت کے انتخاب کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے۔ بہت سے ناموں پر غور و خوض ہوا، بہت سے امیدوار بھی تھے، مگر قرعہ فال علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام کا نکلا، جو اسوقت ایک نوجوان عالم دین کے طور پر شریک تھے۔ یہ انتخاب ملت جعفریہ کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا، ایک ایسا دور جس میں نظریاتی و فکری اور انقلابی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ملک و بیرون ممالک میں نیٹ ورکنگ و توسیع اور روابط کا احیاء ہوا۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کا دور اور ملت جعفریہ کا عروج و ترقی نیز ملکی و عالمی سطح پر قومی قیادت کی پہچان و شناخت جسکے دوررس اثرات مرتب ہوئے، ہم زیر مطالعہ لائیں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

عراق پر صدام ملعون کی جابرانہ حکومت شیعہ مجتھدین، علماء و عوام پر جبر و ظلم کی نئی داستانیں رقم کر رہا تھا، 1980ء  میں اس نے عراق کے معروف انقلابی مجتھد آیت اللہ سید باقرالصدر اور ان کی مجتھدہ بہن آمنہ بنت الھدیٰ کو بے دردی سے شہید کر دیا تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس پر شدید احتجاج کیا گیا، امامیہ جوانان نے ملک کے کئی ایک ڈویژنز میں احتجاج کیا، احتجاج کو مزید موثر بنانے کیلئے کچھ علماء نے اسلام آباد میں مرکزی احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا، جسے امامیہ طلباء نے بھی کامیاب بنانے کیلئے پورا زور لگایا۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے شگوفے پھوٹتے نظر آئے اور فرقہ واریت، تعصب و استحصال پر مبنی اقدامات کے خلاف بالخصوص اسلامائزیشن کے نام پر مخصوص عقائد کے ٹھونسے جانے کے خدشہ اور امکان کے خلاف قائد ملت جعفریہ کی دور اندیش قیادت میں جو تحریک چل رہی تھی، اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے شہید باقر الصدر کی شہادت کے احتجاجی اجتماع کو شیعہ کنونشن میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کی توثیق امامیہ اسٹوڈنٹس کی عاملہ نے بھی کر دی، ناصرف توثیق کی بلکہ عملی کام کرتے ہوئے بھرپور مہم، پبلسٹی، اشتہارات، دورہ جات کے ذریعے کی، ملک بھر میں اس کنونشن کو کامیاب کرنے کیلئے چھوٹے بڑے اجتماعات کیے اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ وہ بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔ 4، 5 جولائی 1980ء کو ہونے والے اس عظیم شیعہ کنونشن کے وقت جناب غلام شبیر سبزواری مرکزی صدر تھے، مگر ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے دیگر ساتھی مکمل طور پر اس تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ابتدائی طور پر اثناء عشری مسجد میں پروگرام منعقد کرنے کا اعلان ہوا تھا، مگر جب امامیہ برادران نے ملک بھرمیں مہم چلائی اور دورہ جات کیے تو ان کا خیال تبدیل ہوگیا کہ عوام کی بھاری شرکت متوقع تھی، لہذا جیسے ہی مرکزی برادران نے اثناء عشری مسجد کا دورہ کیا تو انہیں جگہ کم و تنگ دکھائی دی، لہذا ہاکی گراءونڈ کا مشورہ دیا گیا، جو منتظمین کو قبول ہوگیا، پھر ایمرجنسی بنیادوں پر ہاکی گراءونڈ میں انتظامات کئے گئے۔

اسلام آباد پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا تھا، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، ایک ہی قائد ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر، کے پرجوش نعرے لگاتے، چار جولائی کی صبح ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ قائد ملت جعفریہ کی صدارت میں ہونے والے اجتماع میں تلاوت کے بعد مرکزی صدر جناب غلام شبیر سبزواری نے تقریر کی اور عراق میں شہید ہونے والے عظیم مجتھد باقر الصدر کو خراج عقیدت پیش کیا اور حکومت عراق سے شدید احتجاج کیا گیا، جبکہ دن بھر تقاریر کا سلسلہ جاری رہا، جن میں علماء کرام اپنے جائز مطالبات دہراتے رہے۔ ساڑھے دس بجے قائد ملت نے علماء کرام کو وزارت مذہبی امور کی جانب مارچ کرنے کا حکم جاری کیا۔ عوام کو پرامن رہنے کی تاکید کی گئی۔ پانچ سو علماء وزارت مذہبی امور کی جانب مارچ کرنے لگے، امامیہ برادران بشمول مرکزی صدر و کابینہ بھی مارچ میں شریک رہے۔

اس طرح وزیر مذہبی امور محمود اے ہارون وزیر مذہبی امور نے قائد ملت سے ملاقات کی۔ دو گھنٹے کے مذاکرات کے بعد کچھ وقت لے کر وزیر موصوف صدر مملکت سے ملنے چلے گئے۔ اس دوران قبلہ مفتی جعفر حسین واپس عوام میں تشریف لے آئے اور عوام کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔ کچھ وقت انتظار کے بعد جب حالات کشیدہ محسوس ہوئے تو مفتی صاحب نے عوام کو سیکریٹریٹ کی طرف پرامن مارچ کا حکم جاری کیا۔ تنظیمی برادران بھی ہراول دستہ کے طور پر موجود رہے۔ بالخصوص جب نوے  جوانان پر مشتمل ایک کفن پوش دستہ تشکیل پایا اور علم عباس (ع) کے سایہ میں یہ عہد دہرایا گیا کہ "جان جاتی ہے تو بے شک جائے مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئے گی" تو عوام نے بھی عہد کیا کہ ان کفن پوشوں سے پہلے ہم اپنی جانیں نچھاور کر دیں گے۔

یہ جوش، یہ ولولہ، یہ جذبات، یہ احساسات قیادت پر اعتماد آج کے قائدین کیلئے ایک روشن مثال ہیں کہ اگر وہ جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں، خلوص و تقویٰ اور بے غرض قیادت کا مظاہرہ کریں تو عوام اپنی جانیں نچھاور کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ پھر پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ کے راستے خود بخود کھل سکتے ہیں، برسوں سے مسنگ شیعہ جوانان بھی واپس لائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے بے گناہ شہداء کے قاتلوں کو بھی انجام سے دوچار کیا جا سکتا ہے اور سیاسی و عملی میدان میں کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ اے بسا کی آرزو۔۔ ظاہراً دیکھا جائے تو مفتی جعفر حسین قبلہ ایک نحیف و نزار، کمزور سے جسم و جان کے مالک، انتہائی سادہ، فرش محمدی کو بستر بنانے والے، عام بسز، تانگوں میں اکیلے سفر کرنے والی شخصیت تھے، مگر جو تاریخ انہوں نے رقم کی، وہ ایک روشن و زندہ مثال ہے، جو تشیع کا روشن چہرہ ہے، تابناک ہے، جبکہ ان کے مقابل آج کے وسائل، دستیاب نیٹ ورک اور ان گنت سہولیات کے باوجود ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، جو اپنے منشور، مقاصد اور پروگراموں میں اعلانات کرتے ہیں۔

قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین اگرچہ پیرانہ سالی اور بہ ظاہر مریض و کمزور و ناتواں دکھائی دیتے تھے، مگر ارادوں اور عزائم میں پختگی اور موقف پر ڈٹ کر کھڑے رہنا ان کا خاصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام تر سازشوں، رکاوٹوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور اپنے مطالبات معاہدہ اسلام آباد کی شکل میں منظور کروائے، جو ان کا بہت بڑا کام ہے۔ اس کیساتھ مفتی جعفر حسین قبلہ کا علمی و ادبی کام بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ وہ مجالس و خطابت بھی کرتے تھے، جبکہ گوجرانوالہ میں ایک بہترین درسگاہ جامعہ جعفریہ کے نام سے قائم کی۔ جمہوری اسلامی ایران کا ایک دورہ بھی کیا، جس میں ایک وفد کیساتھ تشریف لے گئے، جبکہ اس دورہ میں سرکاری سہولیات لینے سے انکار کر دیا اور اپنی طرف سے اس دور میں کرمان میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا اور نقصان ہوا تھا۔ زلزلہ زدگان کی امداد بھی کی اور قم و مشہد میں مقیم پاکستانی طلباء کی بھی کچھ مدد کی۔

مفتی صاحب آخری عمر میں کافی علیل ہوگئے تھے، جس سے ان کا تنظیمی و تحریکی کام متاثر ہوا۔ ان کو علاج کیلئے لنڈن بھی لے جایا گیا، جہاں سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ مفتی صاحب نے جب محسوس کیا کہ ان کا تحریکی و اجتماعی کام متاثر ہو رہا ہے تو ایک اکیس رکنی کمیٹی بنا دی اور تحریکی امور سرانجام دینے کیلئے یہ حکم صادر کیا کہ اہم فیصلوں کی توثیق مجھ سے کمیٹی کروا لے گی۔ یوں 29 اگست 1983ء کے دن آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی رحلت سے ملت تشیع عظیم قیادت سے محروم ہوگئی۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جو ایک قومی و اجتماعی نمائندہ پلیٹ فارم تھا، اس کا کام رک گیا۔ اس لیے کہ مفتی صاحب کے بعد کسی نے اس انداز میں آگے بڑھ کر شاید ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں چھ ماہ گذر گئے، جب ملت بے سائبان ہی رہی، البتہ چھ ماہ بعد کچھ علماء  و تنظیمی حضرات نے تحرک و بیداری و ذمہ داری کا ثبوت دیا اور بکھری ہوئی قوم کو ایک بار پھر بھکر کی سرزمین پر جمع کرنے کی دعوت دی۔

یوں بعض علماء نے پاراچنار سمیت ملک کے بہت سے شہروں کے دورہ جات کیے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ جو قائد ملت جعفریہ کے طور پر کام کرتے تھے، کے انتخاب کیلئے دعوتیں دیں۔ پاکستان بھر کے علماء، مفتی جعفر حسین قبلہ کی سپریم کونسل اور نامزد کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے 10 فروری 1984ء کے دن بھکر کی سرزمین پر قائد ملت کے انتخاب کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے۔ بہت سے ناموں پر غور و خوض ہوا، بہت سے امیدوار بھی تھے، مگر قرعہ فال علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام کا نکلا، جو اس وقت ایک نوجوان عالم دین کے طور پر شریک تھے۔ یہ انتخاب ملت جعفریہ کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا، ایک ایسا دور جس میں نظریاتی و فکری اور انقلابی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ملک و بیرون ممالک میں نیٹ ورکنگ و توسیع اور روابط کا احیاء ہوا۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کا دور اور ملت جعفریہ کا عروج و ترقی نیز ملکی و عالمی سطح پر قومی قیادت کی پہچان و شناخت جس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے، ہم زیر مطالعہ لائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علامہ سید عارف حسین الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ مفتی جعفر حسین قبلہ قائد ملت جعفریہ اور تحریک مفتی صاحب جعفریہ کے دکھائی دی جعفریہ کی کے طور پر کرنے کی کرنے کا کیا کہ کے بعد اور ان کے نام بہت سے

پڑھیں:

سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بھی حکومت کوئی ٹارگٹ حاصل نہ کر سکی: بیرسٹر گوہر

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بھی حکومت کوئی ٹارگٹ حاصل نہ کر سکی۔

وفاقی بجٹ 26-2025 کے بعد نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بھی حکومت کوئی ٹارگٹ حاصل نہ کر سکی، پاکستان کی گروتھ ترقی پذیر ملکوں میں بھی سب سے کم ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کی اسٹرکچر ریفارم زیرو، پنشن ریفارم زیرو، حکومت کسی ایک بھی ادارے کی نجکاری نہیں کر سکی، سیاست کو معیشت سے الگ کریں ہماری اچھی تجاویز پر عمل کریں۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے مزید کہا ہے کہ ملک گیر احتجاج میں اس بار اسلام آباد نہیں جائیں گے، احتجاج میں بہت لوگ نکلیں گے۔

پی ٹی آئی نے بجٹ مسترد کر دیا

علاوہ ازیں پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی نے بجٹ 26-2025 آئی ایم ایف کا قرار دے کر مسترد کردیا۔

پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت جعلی ہے بجٹ پیش کرنے کا اختیار نہیں، انہوں نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کےاعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی نے اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی کے رویے کی مذمت کی، سپیکر قومی اسمبلی جانبدار بن چکے ہیں، سردار ایاز صادق پارٹی کے نمائندے نہ بنیں سپیکر بنیں۔

اعلامیہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کا کہنا تھا کہ غریب غربت کی چکی میں پس رہے ہیں حکمرانوں کی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہیں، بجٹ سیشن میں ہر موقع پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا جبکہ اجلاس میں عمران خان پر جعلی مقدمات اور سیاسی انتقام کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

علاوہ ازیں پارلیمانی کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ قائدین کی رہائی کے لیے مربوط حکمت عملی طے کی جائے گی، سپیکر اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ارکان کی تقاریر براہ راست دکھانے کا معاملہ اٹھائیں گے، پی ٹی آئی ارکان کی تقاریر کی نشریات پر ایوان میں معاملہ اٹھایا جائے گا۔

اعلامیہ میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ پی ٹی آئی کی تقاریر نشر نہ کرنے پر تحریک استحقاق اور سپیکر کے خلاف احتجاج کیا جائے گا، قومی نشریاتی ادارے اگر تقریر نہیں نشر کرتے تو احتجاج کیا جائے گا، اس موقع پر پی پی 52 سمبڑیال ضمنی الیکشن میں دھاندلی کی مذمت بھی کی گئی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں بجٹ کی سیاست
  • بجٹ اجلاس پر گورنر اور وزیر اعلیٰ میں ٹھن گئی، سیاسی تلخی کے بعد اجلاس 13 جون کو طلب
  • بھارت میں بڑھتے حادثات نے مودی کے 11 سالہ دورِ اقتدار کا پول کھول دیا
  • ظلم و ناانصافی کیخلاف جدوجہد تیز کرینگے ٗ بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کیے جائیں ٗمنعم ظفر خان
  • وزیراعظم سمیت اہم سیاسی شخصیات کا بھارت میں طیارہ حادثے پر اظہار افسوس
  • 7 ممالک جو سیاحوں کو اب برداشت نہیں کرتے، جانے سے پہلے ضرور جان لیں
  • عمر عبداللہ اپنی طاقت کا استعمال عوامی مفاد کیلئے کیوں نہیں کر رہے ہیں، محبوبہ مفتی
  • سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بھی حکومت کوئی ٹارگٹ حاصل نہ کر سکی: بیرسٹر گوہر
  • عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر مفتی مبارک حسین نعمانی کا خصوصی انٹرویو
  • 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ 26-2025 پیش