Islam Times:
2025-04-29@09:42:10 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(3)

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(3)

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر کے علماء، مفتی جعفر حسین قبلہ کی سپریم کونسل اور نامزد کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے 10 فروری 1984ء کے دن بھکر کی سرزمین پر قائد ملت کے انتخاب کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے۔ بہت سے ناموں پر غور و خوض ہوا، بہت سے امیدوار بھی تھے، مگر قرعہ فال علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام کا نکلا، جو اسوقت ایک نوجوان عالم دین کے طور پر شریک تھے۔ یہ انتخاب ملت جعفریہ کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا، ایک ایسا دور جس میں نظریاتی و فکری اور انقلابی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ملک و بیرون ممالک میں نیٹ ورکنگ و توسیع اور روابط کا احیاء ہوا۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کا دور اور ملت جعفریہ کا عروج و ترقی نیز ملکی و عالمی سطح پر قومی قیادت کی پہچان و شناخت جسکے دوررس اثرات مرتب ہوئے، ہم زیر مطالعہ لائیں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

عراق پر صدام ملعون کی جابرانہ حکومت شیعہ مجتھدین، علماء و عوام پر جبر و ظلم کی نئی داستانیں رقم کر رہا تھا، 1980ء  میں اس نے عراق کے معروف انقلابی مجتھد آیت اللہ سید باقرالصدر اور ان کی مجتھدہ بہن آمنہ بنت الھدیٰ کو بے دردی سے شہید کر دیا تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس پر شدید احتجاج کیا گیا، امامیہ جوانان نے ملک کے کئی ایک ڈویژنز میں احتجاج کیا، احتجاج کو مزید موثر بنانے کیلئے کچھ علماء نے اسلام آباد میں مرکزی احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا، جسے امامیہ طلباء نے بھی کامیاب بنانے کیلئے پورا زور لگایا۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے شگوفے پھوٹتے نظر آئے اور فرقہ واریت، تعصب و استحصال پر مبنی اقدامات کے خلاف بالخصوص اسلامائزیشن کے نام پر مخصوص عقائد کے ٹھونسے جانے کے خدشہ اور امکان کے خلاف قائد ملت جعفریہ کی دور اندیش قیادت میں جو تحریک چل رہی تھی، اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے شہید باقر الصدر کی شہادت کے احتجاجی اجتماع کو شیعہ کنونشن میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کی توثیق امامیہ اسٹوڈنٹس کی عاملہ نے بھی کر دی، ناصرف توثیق کی بلکہ عملی کام کرتے ہوئے بھرپور مہم، پبلسٹی، اشتہارات، دورہ جات کے ذریعے کی، ملک بھر میں اس کنونشن کو کامیاب کرنے کیلئے چھوٹے بڑے اجتماعات کیے اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ وہ بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔ 4، 5 جولائی 1980ء کو ہونے والے اس عظیم شیعہ کنونشن کے وقت جناب غلام شبیر سبزواری مرکزی صدر تھے، مگر ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے دیگر ساتھی مکمل طور پر اس تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ابتدائی طور پر اثناء عشری مسجد میں پروگرام منعقد کرنے کا اعلان ہوا تھا، مگر جب امامیہ برادران نے ملک بھرمیں مہم چلائی اور دورہ جات کیے تو ان کا خیال تبدیل ہوگیا کہ عوام کی بھاری شرکت متوقع تھی، لہذا جیسے ہی مرکزی برادران نے اثناء عشری مسجد کا دورہ کیا تو انہیں جگہ کم و تنگ دکھائی دی، لہذا ہاکی گراءونڈ کا مشورہ دیا گیا، جو منتظمین کو قبول ہوگیا، پھر ایمرجنسی بنیادوں پر ہاکی گراءونڈ میں انتظامات کئے گئے۔

اسلام آباد پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا تھا، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، ایک ہی قائد ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر، کے پرجوش نعرے لگاتے، چار جولائی کی صبح ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ قائد ملت جعفریہ کی صدارت میں ہونے والے اجتماع میں تلاوت کے بعد مرکزی صدر جناب غلام شبیر سبزواری نے تقریر کی اور عراق میں شہید ہونے والے عظیم مجتھد باقر الصدر کو خراج عقیدت پیش کیا اور حکومت عراق سے شدید احتجاج کیا گیا، جبکہ دن بھر تقاریر کا سلسلہ جاری رہا، جن میں علماء کرام اپنے جائز مطالبات دہراتے رہے۔ ساڑھے دس بجے قائد ملت نے علماء کرام کو وزارت مذہبی امور کی جانب مارچ کرنے کا حکم جاری کیا۔ عوام کو پرامن رہنے کی تاکید کی گئی۔ پانچ سو علماء وزارت مذہبی امور کی جانب مارچ کرنے لگے، امامیہ برادران بشمول مرکزی صدر و کابینہ بھی مارچ میں شریک رہے۔

اس طرح وزیر مذہبی امور محمود اے ہارون وزیر مذہبی امور نے قائد ملت سے ملاقات کی۔ دو گھنٹے کے مذاکرات کے بعد کچھ وقت لے کر وزیر موصوف صدر مملکت سے ملنے چلے گئے۔ اس دوران قبلہ مفتی جعفر حسین واپس عوام میں تشریف لے آئے اور عوام کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔ کچھ وقت انتظار کے بعد جب حالات کشیدہ محسوس ہوئے تو مفتی صاحب نے عوام کو سیکریٹریٹ کی طرف پرامن مارچ کا حکم جاری کیا۔ تنظیمی برادران بھی ہراول دستہ کے طور پر موجود رہے۔ بالخصوص جب نوے  جوانان پر مشتمل ایک کفن پوش دستہ تشکیل پایا اور علم عباس (ع) کے سایہ میں یہ عہد دہرایا گیا کہ "جان جاتی ہے تو بے شک جائے مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئے گی" تو عوام نے بھی عہد کیا کہ ان کفن پوشوں سے پہلے ہم اپنی جانیں نچھاور کر دیں گے۔

یہ جوش، یہ ولولہ، یہ جذبات، یہ احساسات قیادت پر اعتماد آج کے قائدین کیلئے ایک روشن مثال ہیں کہ اگر وہ جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں، خلوص و تقویٰ اور بے غرض قیادت کا مظاہرہ کریں تو عوام اپنی جانیں نچھاور کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ پھر پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ کے راستے خود بخود کھل سکتے ہیں، برسوں سے مسنگ شیعہ جوانان بھی واپس لائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے بے گناہ شہداء کے قاتلوں کو بھی انجام سے دوچار کیا جا سکتا ہے اور سیاسی و عملی میدان میں کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ اے بسا کی آرزو۔۔ ظاہراً دیکھا جائے تو مفتی جعفر حسین قبلہ ایک نحیف و نزار، کمزور سے جسم و جان کے مالک، انتہائی سادہ، فرش محمدی کو بستر بنانے والے، عام بسز، تانگوں میں اکیلے سفر کرنے والی شخصیت تھے، مگر جو تاریخ انہوں نے رقم کی، وہ ایک روشن و زندہ مثال ہے، جو تشیع کا روشن چہرہ ہے، تابناک ہے، جبکہ ان کے مقابل آج کے وسائل، دستیاب نیٹ ورک اور ان گنت سہولیات کے باوجود ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، جو اپنے منشور، مقاصد اور پروگراموں میں اعلانات کرتے ہیں۔

قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین اگرچہ پیرانہ سالی اور بہ ظاہر مریض و کمزور و ناتواں دکھائی دیتے تھے، مگر ارادوں اور عزائم میں پختگی اور موقف پر ڈٹ کر کھڑے رہنا ان کا خاصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام تر سازشوں، رکاوٹوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور اپنے مطالبات معاہدہ اسلام آباد کی شکل میں منظور کروائے، جو ان کا بہت بڑا کام ہے۔ اس کیساتھ مفتی جعفر حسین قبلہ کا علمی و ادبی کام بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ وہ مجالس و خطابت بھی کرتے تھے، جبکہ گوجرانوالہ میں ایک بہترین درسگاہ جامعہ جعفریہ کے نام سے قائم کی۔ جمہوری اسلامی ایران کا ایک دورہ بھی کیا، جس میں ایک وفد کیساتھ تشریف لے گئے، جبکہ اس دورہ میں سرکاری سہولیات لینے سے انکار کر دیا اور اپنی طرف سے اس دور میں کرمان میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا اور نقصان ہوا تھا۔ زلزلہ زدگان کی امداد بھی کی اور قم و مشہد میں مقیم پاکستانی طلباء کی بھی کچھ مدد کی۔

مفتی صاحب آخری عمر میں کافی علیل ہوگئے تھے، جس سے ان کا تنظیمی و تحریکی کام متاثر ہوا۔ ان کو علاج کیلئے لنڈن بھی لے جایا گیا، جہاں سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ مفتی صاحب نے جب محسوس کیا کہ ان کا تحریکی و اجتماعی کام متاثر ہو رہا ہے تو ایک اکیس رکنی کمیٹی بنا دی اور تحریکی امور سرانجام دینے کیلئے یہ حکم صادر کیا کہ اہم فیصلوں کی توثیق مجھ سے کمیٹی کروا لے گی۔ یوں 29 اگست 1983ء کے دن آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی رحلت سے ملت تشیع عظیم قیادت سے محروم ہوگئی۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جو ایک قومی و اجتماعی نمائندہ پلیٹ فارم تھا، اس کا کام رک گیا۔ اس لیے کہ مفتی صاحب کے بعد کسی نے اس انداز میں آگے بڑھ کر شاید ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں چھ ماہ گذر گئے، جب ملت بے سائبان ہی رہی، البتہ چھ ماہ بعد کچھ علماء  و تنظیمی حضرات نے تحرک و بیداری و ذمہ داری کا ثبوت دیا اور بکھری ہوئی قوم کو ایک بار پھر بھکر کی سرزمین پر جمع کرنے کی دعوت دی۔

یوں بعض علماء نے پاراچنار سمیت ملک کے بہت سے شہروں کے دورہ جات کیے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ جو قائد ملت جعفریہ کے طور پر کام کرتے تھے، کے انتخاب کیلئے دعوتیں دیں۔ پاکستان بھر کے علماء، مفتی جعفر حسین قبلہ کی سپریم کونسل اور نامزد کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے 10 فروری 1984ء کے دن بھکر کی سرزمین پر قائد ملت کے انتخاب کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے۔ بہت سے ناموں پر غور و خوض ہوا، بہت سے امیدوار بھی تھے، مگر قرعہ فال علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام کا نکلا، جو اس وقت ایک نوجوان عالم دین کے طور پر شریک تھے۔ یہ انتخاب ملت جعفریہ کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا، ایک ایسا دور جس میں نظریاتی و فکری اور انقلابی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ملک و بیرون ممالک میں نیٹ ورکنگ و توسیع اور روابط کا احیاء ہوا۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کا دور اور ملت جعفریہ کا عروج و ترقی نیز ملکی و عالمی سطح پر قومی قیادت کی پہچان و شناخت جس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے، ہم زیر مطالعہ لائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علامہ سید عارف حسین الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ مفتی جعفر حسین قبلہ قائد ملت جعفریہ اور تحریک مفتی صاحب جعفریہ کے دکھائی دی جعفریہ کی کے طور پر کرنے کی کرنے کا کیا کہ کے بعد اور ان کے نام بہت سے

پڑھیں:

سینیٹ میں بھارتی دھمکیوں کیخلاف سیاسی جماعتیں متحد

اسلام آباد:

پہلگام واقع کے بعد بھارتی دھمکیوں کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان سینیٹ متحد ہوگئے، حکومتی و اپوزیشن ارکان کہنا ہے بھارت نے پاکستان پر حملے کی غلطی کی تو اسے ایسا سبق سکھائیں گے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ،پوری اقوام پاک فوج کے شانہ بشانہ وطن کے دفاع کیلیے ہردم تیار ہے۔ 

سینیٹرز کا کہنا ہے پاکستان ایک آزاد ایٹمی ملک ہے،کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اسے جواب ملے گا۔ 

سینٹ کا اجلاس ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی صدارت میں ہوا، ایوان بالا میں ایجنڈا معطل کرکے مسلم لیگ ن کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ بھارت نے امریکی نائب صدر کی آمد کے موقع پرے ڈرامہ رچایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حملہ پاکستان نے کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: پوپ فرانسس کی وفات پر ایک منٹ کی خاموشی

پہلگام واقعہ کے بعد ملک میں سب کا یکجا ہونا انتہائی خوش آئند ہے، ایک شخص کے رویے کے باعث دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سب سے بڑی قتل گاہ بن گئی، پہلگام ہمارے ایل او سی سے دو سو کلو میٹر دور ہے، کیسے حملہ کیا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کا پانی بند کرنا چاہتا ہے اس بڑی دہشتگردی کیا ہوگی ہندوستان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ایک نیوکلیٔر طاقت ہیں، مودی اور اسکی انتہا پسند حکومت نے ٹریٹی ختم کرنے کا جو اعلان کیا یہ غیر قانونی ہے۔ 

اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پانی کے مسئلے کو ہم سیاسی بیان بازی کی طرح نہیں لے سکتے یہ ہم پر جنگی اقدام ہوگا، سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا آج تمام پارٹیوں کا یکجا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی خاطر ہم سب ایک پیج پر ہیں، تمام پارٹیاں پاکستان کی ترقی اور استحکام کی خاطر ایک ہیں۔ 

مزید پڑھیں: اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ؛ عدالت نے سینیٹ اجلاس کی آئندہ تاریخ طلب کرلی

سینیٹر فیصل واؤڈا نے کہا وزیر اعظم کو تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلانے کی تجویز دی ، پوری قوم پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، ہمارا آرمی چیف بہادر اور پُر اعتماد ہے، پھر ہمیں کس چیز کی فکر ہے؟ ۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ میں بھارتی دھمکیوں کیخلاف سیاسی جماعتیں متحد
  • بھارت کی پانی کی دھمکی کو سیاسی بیان کے طور پر نہیں لے سکتے، شبلی فراز
  • سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں: عرفان صدیقی
  • سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں، عرفان صدیقی
  • اقتدار کو تم جنت سمجھتے ہو مگر ہم اسے تمھارے لیے جہنم بنادیں گے، مولانا فضل الرحمان
  • عمران خان کی جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں
  • کشمیر مذاکرات سے حاصل نہیں ہوگا، آزادی کیلیے جدوجہد کرنی ہوگی، حافظ نعیم الرحمٰن