پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، عاصم افتخار
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل میں پناہ گزینوں پر منعقدہ اجلاس میں قومی بیان دیتے ہوئے کہا کہ تنازعات، ظلم و ستم، غیر ملکی قبضے اور گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات جیسے عوامل پناہ گزینوں کے بحران کو مزید شدید بنا رہے ہیں، اور یہ انسانوں کو امید کے سہارے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ جبری نقل مکانی کے بڑھنے کے باوجود عالمی ردعمل غیر مساوی، غیر منصفانہ اور انتہائی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک، جو خود بھی سماجی و معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہیں، اس بوجھ کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔"دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک جو کہیں زیادہ وسائل اور اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں، اندرونِ ملک مائل (Inward-looking) ہو گئے ہیں۔ فزیکل اور سیاسی رکاوٹیں کھڑی کر کے وہ ان افراد کے لیے دروازے بند کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔
افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ وہاں دہائیوں سے جاری تنازعات، اقتصادی تباہ حالی اور عدم تحفظ نے دنیا کے طویل ترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چالیس برسوں سے مہمان نوازی اور انسان دوستی کی درخشاں روایت برقرار رکھی ہے، اور دنیا کے سب سے بڑے اور طویل ترین افغان پناہ گزین آبادیوں کی میزبانی کی ہے۔
پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی بھی غیر حل شدہ تنازعات اور غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں بدترین جبری نقل مکانی کے بحرانوں سے متاثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق، جس کی توثیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں کی گئی تھی، اب تک پورا نہیں ہو سکا۔
سفیر عاصم نے مزید کہا کہ شام، یمن، سوڈان اور دیگر تنازعہ زدہ علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد اب بھی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار واپسی کے حالات کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں سے متعلق عالمی معاہدے (Global Compact on Refugees) میں درج مساوی بوجھ اور ذمہ داری کی شراکت کا اصول تاحال پورا نہیں کیا گیا۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ رضاکارانہ واپسی اور پائیدار بحالی کو ترجیح دی جائے واپسی کے پروگراموں کو مکمل طور پر فنڈ کیا جائے اور ممالکِ اصل میں ترقیاتی امداد اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ مہاجرین کی محفوظ، باوقار اور پائیدار واپسی ممکن ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پختہ یقین رکھتا ہے کہ جبری نقل مکانی کے بنیادی اسباب جیسے کہ غیر حل شدہ تنازعات، غیر ملکی قبضے اور حقوق کی منظم خلاف ورزیاں کا حل عالمی برادری اور سلامتی کونسل کی اجتماعی سیاسی قوت اور مثر عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف ایک سیاسی ذمہ داری ہے بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے، جو انسانی تاریخ میں گہرے طور پر پیوست ہے۔
آخر میں، انہوں نے اسلامی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ۖ کی ہجرت ظلم و ستم کے خلاف سلامتی، عزت و وقار اور انصاف کی تلاش کا لازوال نشان ہے۔"اسی عظیم ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے جو اس امر کی یاد دہانی ہے کہ نقل مکانی، اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن انسانیت، ہمدردی، یکجہتی اور نئے امکانات کی بنیاد بھی فراہم کر سکتی ہے۔"
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سفیر عاصم افتخار احمد نے انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں اور سلامتی پاکستان نے نقل مکانی کے باوجود فراہم کی رہے ہیں
پڑھیں:
ٹرمپ کی مداخلت کے باوجود تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جھڑپیں جاری
صدر ٹرمپ کی فون کال کے بعد تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم پھم تھم وچایچائی نے کہا تھا کہ وہ اصولی طور پر جنگ بندی اور جلد بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں اتوار کو چوتھے روز بھی جھڑپیں جاری ہیں، حالاں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دونوں ہمسایہ ممالک ہر سال لاکھوں غیر ملکی سیاحوں کی منزل ہوتے ہیں، اس وقت کئی سالوں کے خونریز ترین تنازع میں الجھے ہوئے ہیں، جس میں اب تک کم از کم 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور 2 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کرنے کو تیار ہیں، جب کہ صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات دونوں وزرائے اعظم سے بات کی اور کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے جلد ملاقات پر متفق ہو گئے ہیں۔ لیکن اتوار کی صبح، شمالی کمبوڈیا اور شمال مشرقی تھائی لینڈ کے درمیان متنازع قدیم مندروں کے قریب گولہ باری کا تبادلہ ہوا، یہ علاقہ لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع کی ترجمان مالی سوچیٹا نے کہا کہ تھائی افواج نے صبح 4 بج کر 50 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6 بج کر 50 منٹ) پر مندروں کے آس پاس حملے شروع کیے۔ اے ایف پی کے مطابق کمبوڈیا کے قصبے سمراونگ میں (محاذِ جنگ سے 20 کلومیٹر دور) توپوں کی گونج سے کھڑکیاں لرزتی رہیں۔ دوسری جانب تھائی فوج کے ڈپٹی ترجمان رچا سکسیوانن نے کہا کہ کمبوڈیائی فورسز نے صبح 4 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق 6 بجے) گولہ باری شروع کی۔
کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیت نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے وزیر خارجہ پراک سوکھون امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بات کریں گے، تاکہ تھائی لینڈ کے ساتھ رابطہ کیا جا سکے، لیکن بنکاک کو کسی بھی معاہدے سے انحراف کرنے سے خبردار کیا۔ صدر ٹرمپ کی فون کال کے بعد تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم پھم تھم وچایچائی نے کہا کہ وہ اصولی طور پر جنگ بندی اور جلد بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔
تاہم اتوار کو دونوں ممالک نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ تھائی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ کمبوڈیا کی فورسز نے سورین صوبے میں شہری گھروں پر گولے داغے ہیں۔ تھائی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کمبوڈیا نیک نیتی کا مظاہرہ نہ کرے اور بار بار انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی نہ روکے۔