پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل میں پناہ گزینوں پر منعقدہ اجلاس میں قومی بیان دیتے ہوئے کہا کہ تنازعات، ظلم و ستم، غیر ملکی قبضے اور گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات جیسے عوامل پناہ گزینوں کے بحران کو مزید شدید بنا رہے ہیں، اور یہ انسانوں کو امید کے سہارے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ جبری نقل مکانی کے بڑھنے کے باوجود عالمی ردعمل غیر مساوی، غیر منصفانہ اور انتہائی ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک، جو خود بھی سماجی و معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہیں، اس بوجھ کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔"دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک جو کہیں زیادہ وسائل اور اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں، اندرونِ ملک مائل (Inward-looking) ہو گئے ہیں۔ فزیکل اور سیاسی رکاوٹیں کھڑی کر کے وہ ان افراد کے لیے دروازے بند کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔

افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ وہاں دہائیوں سے جاری تنازعات، اقتصادی تباہ حالی اور عدم تحفظ نے دنیا کے طویل ترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چالیس برسوں سے مہمان نوازی اور انسان دوستی کی درخشاں روایت برقرار رکھی ہے، اور دنیا کے سب سے بڑے اور طویل ترین افغان پناہ گزین آبادیوں کی میزبانی کی ہے۔

پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی بھی غیر حل شدہ تنازعات اور غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں بدترین جبری نقل مکانی کے بحرانوں سے متاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق، جس کی توثیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں کی گئی تھی، اب تک پورا نہیں ہو سکا۔

سفیر عاصم نے مزید کہا کہ شام، یمن، سوڈان اور دیگر تنازعہ زدہ علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد اب بھی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار واپسی کے حالات کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں سے متعلق عالمی معاہدے (Global Compact on Refugees) میں درج مساوی بوجھ اور ذمہ داری کی شراکت کا اصول تاحال پورا نہیں کیا گیا۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ رضاکارانہ واپسی اور پائیدار بحالی کو ترجیح دی جائے واپسی کے پروگراموں کو مکمل طور پر فنڈ کیا جائے اور ممالکِ اصل میں ترقیاتی امداد اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ مہاجرین کی محفوظ، باوقار اور پائیدار واپسی ممکن ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پختہ یقین رکھتا ہے کہ جبری نقل مکانی کے بنیادی اسباب جیسے کہ غیر حل شدہ تنازعات، غیر ملکی قبضے اور حقوق کی منظم خلاف ورزیاں کا حل عالمی برادری اور سلامتی کونسل کی اجتماعی سیاسی قوت اور مثر عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف ایک سیاسی ذمہ داری ہے بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے، جو انسانی تاریخ میں گہرے طور پر پیوست ہے۔

آخر میں، انہوں نے اسلامی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ۖ کی ہجرت ظلم و ستم کے خلاف سلامتی، عزت و وقار اور انصاف کی تلاش کا لازوال نشان ہے۔"اسی عظیم ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے جو اس امر کی یاد دہانی ہے کہ نقل مکانی، اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن انسانیت، ہمدردی، یکجہتی اور نئے امکانات کی بنیاد بھی فراہم کر سکتی ہے۔"

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سفیر عاصم افتخار احمد نے انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں اور سلامتی پاکستان نے نقل مکانی کے باوجود فراہم کی رہے ہیں

پڑھیں:

آمدنی لاکھوں کی، مسائل ویسے ہی: اپر مڈل کلاس کے ایک گھر کی کہانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: اپر مڈل کلاس بھی مہنگائی کے طوفان سے بے حال ہے ایک خاندان کی کہانی، جن کی ماہانہ آمدنی 4 لاکھ ہونے کے باوجود ضروریات زندگی پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی نے صرف نچلے طبقات ہی کو نہیں بلکہ اپر مڈل کلاس کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ کراچی کے پوش علاقے سے تعلق رکھنے والے عامر اور ان کی اہلیہ ماروی عامر نے ایک نیوز پروگرام میں اپنی زندگی کے مالی حالات کُھل کر بیان کیے۔

ماروی عامر کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر بنیادی کفیل ہیں جبکہ وہ خود بھی آن لائن کام کرکے کچھ آمدنی حاصل کر لیتی ہیں، جس کے باعث دونوں کی ماہانہ کل آمدنی تقریباً 4 لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

تاہم اتنی آمدنی کے باوجود بھی ان کے اخراجات نے مالی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچن کا خرچہ گوشت اور سبزیوں سمیت 80 ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ بچوں کی اسکول فیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر تعلیمی اخراجات 1 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ ہو چکے ہیں۔ گھر کے کام کے لیے دو ملازماؤں کی تنخواہ 20 ہزار روپے بنتی ہے۔

گھر کے سربراہ عامر نے بتایا کہ بجلی کا بل 50 ہزار، گیس اور پانی کا بل 7 ہزار روپے تک آ رہا ہے، جبکہ ڈرائیور کی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے۔ گھر اور گاڑی کی مرمت جیسے اضافی اخراجات الگ ہیں۔

عامر کے مطابق آنے والے بجٹ میں اخراجات مزید بڑھنے کا امکان ہے، اس لیے آمدنی بڑھے یا نہ بڑھے، مالی دباؤ میں اضافہ طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا کہ اگلا سال مزید مشکلات لا سکتا ہے۔

یہ کہانی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ آج کے معاشی حالات نے اپر مڈل کلاس کو بھی ایسے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جو ماضی میں صرف نچلے طبقات کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حملے امن، سلامتی اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہیں : اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار کا خطاب
  • خطے میں کشیدگی کے باوجود پاکستان کی فضائی حدود مؤثر طور پر فعال
  • پاکستان‘ یو اے ای میں اعلیٰ سطحی اجلاس
  • عاصم سے منگنی ٹوٹنے کے بعد میرب کی نئی تصاویر نے سب کو حیران کردیا
  • مودی حکومت پر سابق قومی سلامتی کے مشیر کی کڑی تنقید
  • اسرائیلی حملوں کے باوجود پورے ایران میں تمام مذھبی اجتماعات جاری و ساری ہیں
  • عاصم اظہر نے میرب علی سے منگنی ختم کرنے کا اعلان کردیا
  • عاصم اظہر اور میرب علی کا منگنی ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان
  • آمدنی لاکھوں کی، مسائل ویسے ہی: اپر مڈل کلاس کے ایک گھر کی کہانی
  • پاکستان کی ڈیفالٹ کے دہانے سے واپسی معجزہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف