ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وزیر خزانہ WhatsAppFacebookTwitter 0 30 April, 2025 سب نیوز


کراچی:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام دنیا کے سامنے ہے، درآمدات میں اضافہ بڑا مسئلہ ہے، ان شا اللہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، تاہم یہ اسی صورت ممکن ہوگا، جب ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میں بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ حکومت کو جس جس کاروباری معاملات سے نکال سکتے ہیں، نکال دیں، ملک اب نجی شعبے کو چلانا ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ 24 کروڑ لوگوں کو ملک چلانے کے لیے ہمیں ٹیکس ریونیو چاہیے، ہماری کوشش ہے ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لائی جائیں، بزنس کمیونٹی کہتی ہے کہ ہم مزید ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن ہم ٹیکس اتھارٹی سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے، تاہم یہ قابل عمل نہیں، کیوں کہ ہم 3 سے 4 ملین لوگوں کا ملک نہیں ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکسیشن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم سطح پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، تاکہ ہراسمنٹ کا عنصر ختم ہوجائے، اور جو لوگ آجاتے ہیں کہ اتنے نہیں، اتنے کرلیں، یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے استثنیٰ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، مینوفیکچرنگ سیکٹر سمیت ہر وہ شعبہ جات جو برآمدات کرتا ہے، اور آمدنی کماتا ہے، اسے ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا، تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش جاری ہے، 70 سے 80 فیصد تنخواہ دار طبقے کی سیلری اکاؤنٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سیلری کلاس کو ٹیکس ایڈوائزرز کی ضرورت نہ رہے، ان کا فارم 9 سے 10 خانوں پر مشتمل ہو، اس میں بھی آٹوفل کے آپشن والے خانے شامل ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ہم درست سمت میں قدم اٹھارہے ہیں، ٹیکسیشن سے متعلق بزنس کمیونٹی کی سفارشات کے لیے ہم نے جنوری میں ہی درخواست کر دی تھی، تاکہ اسے بجٹ میں شامل کرلیا جائے، کئی تجارتی تنظیموں کی سفارشات ہمارے پاس آچکی ہیں، ہم نے آزادانہ تجزیہ کاروں کو بھی ساتھ ملایا ہے، تاکہ دیگر ممالک کی طرح وہ بھی ہماری آزادانہ طور پر مدد کرسکیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں، ہم اس بجٹ میں کیا کرسکتے ہیں، کیا نہیں کرسکتے، یہ سب بھی دیکھنا ہے، بطور عوام خادم ہم نے سب شراکت داروں کے پاس جانا ہے، کہ آپ اپنی سفارشات بھی دیں، ایسا نہیں ہے کہ ان سفارشات کو ردی میں دال دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے منظوری دے دی تھی کہ ٹیکس پالیسی آفس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے الگ رکھا جائے گا، وہ فنانس ڈویژن کو رپورٹ کرے گا، جب کوئی نیا کاروبار شروع کرتا ہے تو 5 سے 15 سال کے معاملات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے، لیکن ہم بجٹ ایک سال کے لیے اخراجات اور آمدنی کو دیکھتے ہوئے بناتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ اسی لیے آئندہ تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونٹی کے لیے ٹیکس پالیسی آفس سارے معاملات دیکھے گا، ایف بی آر کلیکشن پر فوکس کرے گا، ایف بی آر کا پالیسی کے ساتھ آخری سال بجٹ میں ہے، اس کے بعد کردار ختم ہوجائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپیر کو ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے،، جج آئینی بینچ پیر کو ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے،، جج آئینی بینچ جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستانی سرحد سے متصل دیہات خالی کرانے میں مصروف اسلام آباد دنیا کے دیگر بڑے شہروں سے زیادہ محفوظ قرار عالمی منڈی تک رسائی کیلئے ڈیجیٹائزیشن بہت ضروری ہے: اسحاق ڈار اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے جاری، 24 گھنٹوں میں مزید 60 سے زائد فلسطینی شہید سپریم کورٹ میں لاء کلرک شپ کا سنہری موقع، درخواستیں طلب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: محمد اورنگزیب نے کہا کہ نے کہا کہ ہم ا ئی ایم ایف جائے گا کے لیے

پڑھیں:

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بڑھتا ہوا بوجھ، اصلاحات کی ضرورت

کراچی:

تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن جمع کراتا ہے اور ان کی تنخواہوں سے براہ راست ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے، اس کے باوجود ان پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جا رہی ہے اور دستیاب سہولتیں ختم کی جا رہی ہیں۔

حکومت اکثر یہ جواز پیش کرتی ہے کہ دیگر شعبوں سے مناسب ٹیکس وصولی نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے پر انحصار کرنا مجبوری ہے، تاہم یہ عمل معیشت کو غیر رسمی بنانے اور ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ٹی کمپنیوں کا حکومت سے ٹیکس میں نرمی کا مطالبہ

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں 55 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو کہ پچھلے سال کے 368 ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی کی حد 6 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھا کر 12 لاکھ کی جائے، مہنگائی کے حساب سے ٹیکس سلیبز میں سالانہ تبدیلی کی جائے۔

35 فیصد فلیٹ ٹیکس سے پہلے مزید درمیانی سلیبز متعارف کروائی جائیں تاکہ شرحیں بتدریج بڑھیں، دوہری ٹیکس اسکیمز کا نفاذ کیا جائے، بچوں کی تعلیم، گھر کے کرایے، ہیلتھ و لائف انشورنس وغیرہ پر کٹوتی کی اجازت دی جائے۔

مزید پڑھیں: محصولات کا ہدف پورا کرنے کیلیے نئے ٹیکس کا ارادہ نہیں،حکومت

ٹیکس ریٹرن بر وقت جمع کرانے والوں کے لیے انعامات کا اعلان کیا جائے، ریفنڈز کا آسان اور خودکار عمل تشکیل دیا جائے، تنخواہ دار طبقہ پاکستان کے سب سے زیادہ دستاویزی اور ٹیکس دینے والے طبقوں میں سے ہے۔

ان پر اضافی بوجھ ڈال کر دراصل حکومت ایمانداری کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور معیشت کو غیر رسمی بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ انصاف اور مساوات کو محض اصول کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی نافذ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا،وفاقی وزیر خزانہ کا اعلان
  • ادارہ جاتی اصلاحات کرلیں تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وزیر خزانہ
  • یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا: وفاقی وزیر خزانہ کا اعلان
  • اسٹرکچرل ریفارمزپر عمل کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ
  • اسٹرکچرل ریفارمزپر عمل کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وزیر خزانہ
  • یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا: وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب
  • اصلاحاتی ایجنڈے کو مؤثر طور پر نافذ کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو سکتا ہے، محمد اورنگزیب
  • عوام بجلی کی قیمتوں سے متعلق اچھی سنیں گے،وزیر خزانہ 
  • تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بڑھتا ہوا بوجھ، اصلاحات کی ضرورت