ایک اور ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘ بھارت ایک مرتبہ پھر رسوا
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
چھ مئی کی رات بھارت نے بزدلوں کی طرح حملہ کر کے پاکستانی سول عمارتوں کو میزائیل حملوں کا نشانہ بنایا جن میں مساجد شامل تھیں۔24 بھارتی میزائلوں کے حملے میں بچوں سمیت چھبیس پاکستانی شہید ہو گئے اور چھیالیس زخمی ہوئے۔
بھارتی حکمران طبقہ جنگی جنون میں پاگل ہو چکا ہے اور تمام اخلاقیات بھُلا کر جنوبی ایشیا کو جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔اس حملے میں نیلم ۔جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا جو ایک نہایت خطرناک عمل ہے۔ پانی انسان کی زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے اور اس پر کسی قسم کی روک ٹوک کھڑی کرنا سراسر اعلان جنگ کے مترادف ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق حملے میں فرانس کی طیارہ ساز کمپنی ڈیسے Dassault کے رافیل طیاروں سے چھوڑے گئے میزائیل ،اسکیلپ (SCALP)اور ہیمر(HAMMER)استعمال کیے گئے۔ یہ دونوں طویل رینج والے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل ہیں۔ اسکلیپ 1300کلو وزنی میزائیل ہے جس پر 400 کلو وزنی بم (وار ہیڈ) نصب ہوتا ہے۔حد مار 550 کلومیٹر اور رفتار میک 0.
آواز کی رفتار 1235 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔لہذا اگر کسی طیارے یا میزائل کی رفتار ایک میک ہے تو وہ 1235 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔) ہیمر بھی ایک بڑا میزائیل ہے جس پر 125 کلو تا 1000 کلو کے بم نصب کرنا ممکن ہے۔ اس کی حد مار 70 تا 90 کلومیٹر اور رفتار میک 1.4 ہے۔ ممکن ہے کہ ایس یو۔30 اور مگ ۔29 بھارتی جنگی طیاروں سے بھی طویل رینج والے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل استعمال کیے گئے ہوں۔ان پر بھی تین چار اقسام کے ایسے میزائیل نصب ہوتے ہیں۔
پاکستان کی فضائی حدود تمام ائیر ٹریفک کے لیے کھلی تھیں۔ اس لیے بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ رات کی تاریکی میں گیدڑوں کے طرح وار کر سکے۔ اگر پاکستان کی فضائی حدود بند ہوتیں تو ہمارے ریڈارچوری چھپے آتے بھارتی طیاروں کو شناخت کر لیتے اور پھر ہمارا ائیر ڈیفنس سسٹم آسانی سے ان کے چھوڑے ہوئے بھارتی میزائلوں کو نشانے تک پہنچنے سے قبل ہی مار گراتا۔ اس طرح حملہ کرنے کی وجہ سے ہی بھارتی میزائیل پاکستانی حدود میں گھس آئے۔ اس حملے کے بعد پاکستان نے اپنی فضائی حدود سول ٹریفک کے لیے بند کر کے اپنا فضائی میزائیل دفاعی نظام متحرک کر دیا۔
بھارت کو منہ توڑ جواب
پاکستان نے بھی منہ توڑ اور ترنت جواب دیتے ہوئے ’’آپریشن سوئفٹ ریٹروٹ دوم‘‘ (Operation Swift Retort 2.0) کا آغاز کر دیا۔ پاکستانی شاہینوں نے آناً فاناً اپنے میزائیل مار کر حملہ کرتے پانچ بھارتی طیارے بھارت کی سرزمین پر ہی مار گرائے۔ ان میں تین ڈیسے رافیل( یہ وہی رافیل ہیں جن کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 27 فروری 2019 کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں بدترین حزیمت اُٹھانے کے بعدکہا تھا، ’’ آج اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔‘‘ ایک ایس یو۔30 اور ایک مگ ۔29 شامل ہیں۔ ان کو پاکستانی طیاروں، جے ۔17 بلاک تھری اور جے ۔10 سی میں لگے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں، پی ایل ۔15 اور پی ایل 12 کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ ان طیاروں میں جدید ریڈار نصب ہیں۔ جے ۔17 بلاک تھری کا KLJ-7A ریڈار اپنے میزائیل کو 170 کلومیٹر جبکہ جے ۔10 سی کا KLJ-10 ریڈار 50 کلومیٹر دور اڑتے دشمن طیارے تک گائیڈ کرتا ہے۔ اس دوران بھارتی ڈرون اور دیگر اڑن ہتھیاروں کو بھی تباہ کیا گیا۔
پی ایل 15 Beyond-visual-range air-to-air یعنی نظر کی حد سے باہر ہو کر مار کرنے والا میزائیل ہے۔ اس کا وزن 230 کلو تک اور حد مار 300 کلو میٹر تک ہے۔اس کی رفتار میک 5 سے زیادہ ہے ، گویا یہ ہائپرسونک ہے، آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے اڑنے والا میزائیل۔یاد رہے، جے ۔10 سی میں طویل رینج والا فضا سے زمین تک مار کرنے والا میزائیل، KD-88 بھی لگ سکتا ہے۔ اس 0.6 ٹن وزنی میزائیل میں 165 کلو وزنی بم لگتا ہے۔
بھارت کا سول و عسکری حکمران طبقہ سمجھ رہا تھا کہ جس طرح اسرائیل غزہ کو ملیامیٹ کر رہا ہے، وہ بھی پاکستان کو خاکم بدہن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔نجانے وہ کیوں بھول گیا کہ غزہ اور پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پاکستانی آرمڈ فورسز کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ بھی موجود ہے۔ پھر پاکستان ایٹمی ہتھیار بھی رکھتا ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کے غرور تکبر، جنگجوئی اور احمقانہ پن سے خدانخواستہ ایٹمی جنگ کا آغاز ہوا تو بھارت بھی صحیح سالم نہیں بچے گا۔ ظاہر ہے، پاکستان اپنے دفاع اور اپنی زراعت محفوظ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔بھارتی حکمران اپنے پاگل پن کی وجہ سے اپنے ایک ارب چھالیس کروڑ عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ حکمران کروڑوں بھارتیوں کو تو بھوک، بیماری ، جہالت اور غربت سے نجات تو نہیں دلا سکے مگر پڑوسیوں سے جنگ کرنا اپنی آن و شان سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں عسکری سائنس وٹیکنالوجی
بھارت کے انتہاپسند حکمران طبقے نے پاکستان کا وجود روز اول سے تسلیم نہیں کیا لہذا مسلسل ارض پاک کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ 1948ء میں ہی اس نے پنجاب آنے والی نہروں کا پانی روک کر آبی جنگ چھیڑ دی تھی۔اس کی شرانگیزی کے باعث پاکستان کو بھی مجبوراً دفاعی اخراجات بڑھانے پڑے اور عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دی جانے لگی۔اس نہایت اہم شعبے میں پاکستانیوں نے چین کے تعاون سے کارہائے نمایاں دکھائے اور اپنی محنت ، ذہانت اور اُپچ سے قوم وملک کا پرچم دنیا بھر میں سربلند کر دیا۔آج عالم اسلام میں ترکی اور پاکستان ہی عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں سرفہرست ہیں۔ جنگ کوئی پسندیدہ عمل نہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کا آغاز بھارت نے کیا اور وہی جارح قوت ہے۔ حالیہ حملہ اس سچائی کا کھلا ثبوت ہے۔
دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت، بھارت اور اور اس کی دوسری بڑی عالمی افواج کا مقابلہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔درحقیقت بھارت اور پاکستان ہم پلّہ نہیں مگر پاکستانیوں نے مل جل کر ، ہر ممکن طریقے سے اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر کر کے گویا تاریخ رقم کر دی۔ پاکستانی ہر قیمت پر اپنی آزادی و خود مختاری برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔عسکری طور پر طاقتوربن جانے کا نتیجہ ہے، بھارت زبانی تو ہمیں دہمکیاں دیتا رہتا ہے، عملی قدم خال خال ہی اٹھاتا ہے۔ اور جب بھی دوبدو مقابلہ ہوا، بھارتی افواج نے منہ کی کھائی۔ حالیہ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے۔ افواج پاکستان نے فوراً پانچ بھارتی طیارے گرا کر اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں عسکری تنصیبات تباہ کر کے بھارتی حکمران طبقے کو جواب دے دیا کہ پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھا تو بھارت بھی سلامت نہیں رہے گا۔
درست کہ پاکستان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں جتنی ہونی چاہیے۔خصوصاً قرضوں کا بڑھتا بوجھ تشویش ناک ہے مگر اس معاملے میں بھی بھارت کی کارکردگی ہم سے بدتر ہے۔ پاکستان کا قومی یا پبلک قرض تو تقریباً 72 ہزار ارب روپے (جی ڈی پی کا 67 فیصد)ہے،بھارت کا قومی قرض 200 ہزار ارب (بھارتی )روپے (پاکستانی کرنسی میں 700 ہزار ارب روپے ) سے بڑھ چکا جو آئی ایم ایف کی رو سے جی ڈی پی کا 83 فیصد بنتا ہے۔ گویا ہم سے زیادہ تو بھارتی حکمران طبقہ قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت معاشی مسائل حل کرنے کی کوشش میں ہے جو قابل تعریف امر ہے۔
’’ فضائی میدان‘‘
بھارت کے حالیہ میزائیل حملے نے ایک بار پھر یہ امر واضح کر دیا کہ دور جدید کی عسکریات میں’’ فضائی میدان‘‘ نے بڑی اہمیت پا لی ہے۔ وجہ یہ ،جنگ کی صورت فریقین سب سے پہلے طیاروں و توپوں سے بم باری کر کے اور میزائیل وراکٹ مار کر متحارب فریق کی عسکری و سول تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ اسے کمزور کر دیا جائے۔ اب تو ڈرون بھی اس فضائی اسپیکٹرم کا حصہ بن چکے۔اس فضائی جنگ کے دو بڑے شعبے ہیں: ’’فضائی حملہ‘‘ اور ’’فضائی دفاع‘‘۔ان دونوں میں پاکستانی عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کی کارکردگی عمدہ ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ہے۔
فضائی حملے شعبے کے سلسلے میں پاکستانی ہنرمند طویل اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے مختلف اقسام کے بلاسٹک، کروز اور اینٹی ٹینک و شپ میزائیل تیار کر چکے ہیں۔ پاکستانی کروز میزائیل ’’بابر‘‘ زمین، فضا اور سمندر سے چھوڑا جا سکتا ہے۔افواج پاکستان چین و امریکی ساختہ میزائیل بھی رکھتی ہیں ۔جے ۔10، جے ایف۔17، ایف ۔16، میراج سوم ، میراج 5 اور ایف ۔7 طیارے بھی فضائی حملے شعبے میں شامل ہیں اور وہ ریڈار اور اواکس ہوائی جہاز بھی جو ٹارگٹ تک پہنچنے میں طیارے یا میزائیل کی رہنمائی کرتے ہیں۔جبکہ الیکٹرونک جنگ وجدل (واروئیر)والے ہوائی جہاز بھی اسی شعبے کا حصہ ہیں جو دشمن کے ریڈار جام کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
پاکستان نہ صرف چین اور دیگر ممالک سے نئے میزائیل خرید کر اپنے فضائی حملے شعبے کو طاقتور بناتا رہتا ہے بلکہ عسکری سائنس وٹیکنالوجی سے متعلق متفرق پاکستانی ادارے انفرادی یا باہمی اشتراک سے بھی نئے میزائیل وراکٹ ایجاد کرتے ہیں۔ یوں اس شعبے کو مسلسل ترقی دی جا رہی ہے تاکہ وہ بھارت کے فضائی حملے شعبے سے برتر نہیں تو ہم پلّہ ضرور رہے۔ضروری ہے کہ پاکستان ہائپرسونک میزائیل بنانے کے سلسلے میں بھی تحقیق و تجربات کرے تاکہ بھارت کا براہموس کروز میزائیل ہمارے لیے خطرہ نہ بنے اور اس کا قوی توڑ ایجاد کر لیا جائے۔ بھارت براہموس دوم بنا رہا ہے جو ہائپرسونک ہو گا۔بھارتی حکومت کا دعوی ہے، اس کی رفتار میک 8 ہو گی۔ بھارت اس میزائیل کے فضا، زمین اور سمندر سے چھوڑے جانے والے ورژن تیار کر چکا ہے۔
پاک فوج کا دفاعی فضائی نظام
فضائی دفاع کا پاکستانی شعبہ بھی تیزی سے فروغ پذیر ہے۔ اس شعبے میں عموماً زمین سے فضا میں چھوڑے جانے والے میزائیل دشمن کے طیاروں ،ہیلی کاپٹروں، میزائیلوں ، راکٹوں اور ڈرون کو مار گرانے کی سعی کرتے ہیں۔ جنگی طیارے ،ان کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل، اینٹی ائرکرافٹ گنیں ، ریڈار ، اواکس ہوائی جہاز اور الیکٹرونک واروئیر کے جہاز بھی اس شعبے کا حصہ ہیں۔ پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ اپنے اپنے فضائی دفاع شعبے رکھتے ہیں جو تال میل سے کام کرتے ہیں۔ان میں پاک فوج کا شعبہ سب سے مضبوط ہے جو ’’جامع پرت دار مربوط فضائی دفاع‘‘ (Comprehensive Layered Integrated Air Defence)کہلاتا ہے۔ یہ درج ذیل چار پرتوں پر مشتمل ہے:
٭بلند تا وسطی فضائی دفاع (High to Medium Air Defence System)یہ پرت زمین سے فضا میں مار کرنے والے چینی میزائیل’’ ایچ کیو۔9پی‘‘ (HQ-9/P)پر مشتمل ہے۔ یہ میزائیل 125 کلومیٹر دور اڑتے ہوائی جہاز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ نیز 25 کلومیٹر دور موجود کروز میزائیل کو بھی مار گراتا ہے۔ڈرون بھی گرا سکتا ہے۔ریڈار کی مدد سے نشانے تک پہنچتا ہے۔
پاک ٖفضائیہ کے فضائی دفاع میں’’ ایچ کیو ۔9 بی ای‘‘ میزائیل شامل کیا جا چکا۔ یہ 300 کلومیٹر دور اور 30 کلومیٹر کی بلندی پر اڑتے طیارے کو مار گراتا ہے۔فضا سے زمین تک مار کرنے والا میزائیل 50 کلومیٹر دور اور 18کلومیٹر بلند ہو تو اس کا نشانہ بن جاتا ہے۔25 کلومیٹر دور اور 0.02 کلومیٹر سے زیادہ بلند کروز میزائیل بھی اس کا ٹارگٹ بنتا ہے۔ 18 کلومیٹر دور اور 18 کلومیٹر بلند اڑتا مختصر فاصلے والا(ٹیکٹیکل) بلاسٹک میزائیل بھی مار گراتا ہے۔
٭کم سے درمیانی بلندی کا فضائی دفاع (Low-to-Medium Air Defence System) یہ پرت دو میزائیلوں…ایچ کیو۔16 بی اور(پاک فضائیہ کے پاس موجود ) سپاڈا۔2000 پر مشتمل ہے۔ یہ میزائیل چالیس تا ستر کلومیٹر دور تک اڑتے طیاروں ، میزائلوں ،ڈرون وغیرہ کو نشانہ بناتے ہیں۔
٭توسیعی مختصر حد فضائی دفاع(The Extended Short-Range Air Defence System)یہ پرت ایچ کیو۔ 7 میزائیل رکھتی ہے جو آٹھ سے پندرہ کلومیٹر دور ہر اڑتی شے کو ٹارگٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
٭مختصر حد فضائی دفاع(Short-Range Air Defence System)اس پرت میں پانچ سے دس کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائیل شامل ہیں۔ان میں سب سے مشہور پاکستان ساختہ ’’عنزہ‘‘ہے جس کے تین ویرینٹ یا اقسام بن چکیں۔
ایک عشرہ قبل تک پاکستان کے پاس نگران ریڈار کم تھے، مگر پچھلے چند برس سے اس شعبے میں ترقی ہوئی ہے۔ پاکستانی ماہرین نے جدید ترین آلات و سہولیات سے لیس AM-350S ریڈار بنا لیا ہے۔ پاکستان میں بنا یہ پہلا لانگ رینج زمینی نگران ریڈار350 کلومیٹر تک کے قطر میں دشمن کی فضائی و زمینی سرگرمیوں پر بخوبی نظر رکھ سکتا ہے۔ مذید براں پاکستان نے چھوڑ کینٹ، تھرپارکر میں بھارتی سرحد کے بالکل قریب TPS-77 ریڈار نصب کر دیا ہے جو علاقے میں400 کلومیٹر دور تک بھارتی افواج کی خفیہ وعیاں سرگرمیوں پر نظر رکھے گا۔
پاکستان بامقابلہ بھارت
بھارتی حکمران طبقے کی سازشیں اور شرانگیزیاں دیکھ کر ضروری ہے، پاکستان اپنے دفاع کو اتنا مستحکم کرنے کی تگ ودو جاری رکھے کہ بھارت کوئی مہم جوئی کرنے سے قبل ہزار بار سوچ لے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی مگر پاکستان پر مسلط کی گئی تو اسے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکے۔
فضائی جنگ کے شعبہ حملے کو دیکھا جائے تو جنگی طیاروں کے معاملے میں پاک وبھارت ہم پلہ ہیں۔ بھارتی فضائیہ 580 جبکہ پاک فضائیہ 599 جنگی طیارے رکھتی ہے۔ ڈیسے رافال اور ہال تیجس بھارت جبکہ جے ۔10 سی اور جے ایف ۔17 بلاک تھری پاکستان کے جدید ترین طیارے ہیں۔ بھارت امریکہ یا فرانس سے اسٹیلتھ طیارے خریدنے کی کوشش کر رہا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کو بھی چین سے اسٹیلتھ طیارے حاصل کرنے پڑیں گے تاکہ اس جنگی طیاروں کے شعبے میں طاقت کا ترازو متوازن رہے۔
بھارت حملے کرنے والے کئی اقسام کے بلاسٹک ، کروز اور دیگر میزائیل بنا چکا۔’’اگنی پنجم‘‘ سب سے طاقتور بلاسٹک جبکہ ’’ براہموس‘‘ سپرسونک کروز میزائیل ہے ۔مودی سرکار کثیر سرمایہ خرچ کر کے ان میزائیلوں کی نئی اقسام بھی بنوا رہی ہے۔ بھارتی افواج کے زیراستعمال جنگی ڈرون اسرائیل ساختہ ہیں۔پاکستان کے بلاسٹک میزائیلوں میں شاہین اول سرفہرست ہے۔ جبکہ بابر کروز میزائیل کا چرچا بھی ہر جگہ ہے۔ پاکستان کے ماہرین بھی مختلف اقسام کے میزائیل بنا کر بھارت کا خوب مقابلہ کر رہے ہیں۔ بھارتی جارحیت مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو چین سے مذید جدید ترین میزائیل خریدنے چاہیں تاکہ خطے میں عسکری توازن برقرار رہے۔
فضائی دفاع کے شعبے میں بھارت کا پلہ بھاری ہے۔ ایک وجہ یہ کہ وہ بلاسٹک میزائیل روکنے کے لیے ایک نظام ’’انڈین بلاسٹک میزائیل ڈیفنس پروگرام‘‘بنا چکا جو دو قسم کے میزائیل رکھتا ہے۔ دوم بھارت روس سے ایس ۔400 میزائیل ڈیفنس سسٹم خرید چکا۔ اس کو دنیا میں بہترین میزائیل شکن نظام کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے بھارتی فضائی دفاع خاصا مضبوط ہے۔
پاکستان بلاسٹک میزائیل روکنے والا کوئی باقاعدہ میزائیل سسٹم نہیں رکھتا۔ چین ایچ کیو۔19 نامی اینٹی بلاسٹک میزائیل ایجاد کر چکا۔ پاکستان کو یہ میزائیل لینے کی سعی کرنا چاہیے۔ اس کی شمولیت سے پاک فضائی دفاع مذید طاقتور ہو جائے گا۔یہ سسٹم میڈیم رینج والے بلاسٹک میزائیل بہ خوبی تباہ کر سکتا ہے ۔ لہذا پاکستان کے لیے موزوں ہے۔
ایس۔400 کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہرین عسکریات مختلف تجاویز دے چکے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جنگ کی صورت پہلا حملہ ایسا کیا جائے کہ اس میں حقیقی میزائیلوں کے علاوہ ڈیکوئے(Decoy) اور ڈرون بھی شامل ہوں۔یوں سسٹم کے بیشتر میزائیل انھیں تباہ کرنے میں خرچ ہو جائیں گے۔ پھر اگلے حملے میں ٹارگٹوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ نیز الیکٹرونک آلات کی مدد سے سسٹم کے ریڈار جام کرنا بھی ممکن ہے۔ یا اس میں اتنی خرابی پیدا کر دی جائے کہ وہ اپنے میزائیلوں کو درست نشانے پر نہ لگا سکیں۔
چین اور ترکی کے پاس ایس۔400 میزائیل سسٹم موجود ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک پاکستان کو اس سسٹم کی خامیاں اور ایسی ترکیبیں فراہم کر سکتے ہیں جن کے ذریعے ایس۔400 کے میزائیلوں کو چکمہ دینا آسان ہو جائے۔ مذید براں پاکستان ترکی کے تعاون سے اس سسٹم کے ہم پلہ اینٹی میزائیل نظام بھی ایجاد کر سکتا ہے۔ یوں فضائی دفاع کے شعبے میں بھی پاکستان اور بھارت کا توازن برابری کی سطح پر آ جائے گا۔
۔۔۔
عالمی ذرائع اِبلاغ کی بھارت نوازی!
پاکستان کے بھرپور جواب کو صرف ’’پاکستانی دعویٰ‘‘ کہہ کر شکوک پیدا کیے گئے
کہنے کو صحافت میں ’’غیر جانب داری‘‘ ایک مشکل مرحلہ قرار پاتی ہے، لیکن ساتھ ہی اس کے لیے اپنے تئیں کوشش کرنا اور مکمل پہلو پیش کرنا کسی بھی خبر کا لازمی وصف تصور کیا جاتا ہے۔ ہم اور ہمارے ملک کے ذرایع اِبلاغ اس حوالے سے اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہاں اکثر خبریں پروپیگنڈا اور یک طرفہ ہوتی ہیں۔ اس میں کسی بھی خبر کی تکمیل کے لیے بہت سی ضروری معلومات شامل نہیں کی جاتیں، یہاں تک کہ بہت سی خبریں تو خواہشات پر مبنی ہوتی ہیں اور پھر اچھی مثال کے لیے ’بی بی سی‘ اور اس طرح کے دیگر ’معتبر‘ عالمی صحافتی ادارے پیش کیے جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی خبروں میں کافی غیر جانب دار ہوتے ہیں، بلکہ اپنے متن میں غیرجذباتی الفاظ اور بہترین صحافتی انداز برتتے ہیں۔ کسی بھی خبر کے لیے سب سے ضروری اس کا دوسرا پہلو ہوتا ہے، یعنی اگر کسی معاملے کے دو فریق ہیں، تو دوسری طرف کی بات یا موقف بھی معلوم کرلیا جائے اور چاہے وہ میسر نہ ہو، تب بھی یہ بات خبر کا حصہ بنا دی جائے کہ ہم نے اس حوالے سے کوشش کی، لیکن انھوں نے بات نہیں کی یا ہمارا فون نہیں اٹھایا وغیرہ۔
اب 6 اور 7مئی 2025ء کی درمیانی شب ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں کی پامالی کرتے ہوئے بلا اشتعال میزائل باری کو ہی دیکھیے۔ اس حملے کے بعد جب یہاں سے بھرپور جوابی کارروائی ہوئی، تو ہونا کیا چاہیے تھا کہ ’بی بی سی‘ جیسا ادارہ جو سرحد کے دونوں جانب اچھے خاصے نمائندے اور دونوں ممالک کے حساب سے علاحدہ علاحدہ اردو اور ہندی نشریات کا اہتمام بھی رکھتا ہے، وہ جیسے یہاں پر ہندوستانی حملوں کے نقصانات کے حوالے سے مناظر دکھا رہا ہے، کچھ بات سرحد پار کی بھی کرلیتا۔ یہ بات بہت سادہ اور براہ راست صحافتی اور اخلاقی اصولوں کی ہے، یہ ہندوستان یا پاکستان کی حمایت یا مخالفت کا پہلو بھی بالکل نہیں ہے۔ یہ تو صرف ’خبر‘ کی بنیادی ضرورت کی بات ہے کہ آپ ہندوستانی حملوں کو نمایاں کر کے اس سے ہونے والے نقصانات کی خبریں دے رہے ہیں اور ساتھ میں پاکستانی حکام کی جانب سے ہندوستان کے جواب کو صرف ’پاکستان کا دعویٰ‘ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں۔
اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔؟ چلیے رات کی بات تھی، ہم نے انتظار کیا کہ ٹھیک ہے ابتدائی خبر یہی ہے کہ انھیں جو اطلاعات میسر ہوئیں، انھوں نے دے دیں کہ یہ کچھ ہوا ہے اور فلاں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ اب تو صبح ہوگئی، اتنا وقت گزر گیا، تو آپ نے مظفرآباد سے لے کر ’مرید کے‘ تک ہندوستانی میزائل حملوں کے بعد کی صورت حال دکھانے کے لیے اپنے ’اردو سروس‘ کے نمائندوں کو میدان میں اتار دیا، لیکن دوسری طرف پاکستان نے جو دفاعی کارروائی میں پانچ سے سات مختلف ہندوستانی لڑاکا طیاروں کو تباہ کرنے کا بتایا، اُسے آپ ابھی تک ’پاکستانی دعویٰ‘ کہہ کر ہی نشر کیے جا رہے ہیں۔ یہ تو سراسر صحافتی بددیانتی اور جانب داری والی بات ہے۔ انتہا یہ ہے کہ یہاں بی بی سی ’اردو سروس‘ کے نمائندوں کی رپورٹیں ’ہندی سروس‘ کے پلیٹ فارم پر پورے دھڑلے سے چلائی جا رہی ہیں اور اِدھر پاکستان نے جو دعویٰ کیا ہے، اس کے حوالے سے وہاں کی کوئی خبر ہی نہیں دی جا رہی۔ اُسے آپ ابھی تک ’پاکستانی دعویٰ‘ کہہ کر اپنے سامعین، ناظرین اور قارئین کو بدستور شکوک میں رکھ رہے ہیں۔ بھئی، جب آپ یہاں ہندوستانی حملوں کی تفصیلات لے رہے ہیں، تو یہ آپ کا فرض ہے کہ دوسری طرف کی صورت حال بھی تو اپنے دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے لائیے۔ اگر واقعی وہاں کچھ نہیں ہوا تو پھر یہ بتادیجیے کہ یہ پاکستانی دعویٰ ہے، ہمیں تو وہاں ایسا کچھ نہیں ملا، ورنہ پھر بنیادی صحافتی ظرف پیدا کرتے ہوئے بتائیے کہ ہندوستان کے کے کون کون سے طیارے تباہ ہوئے ہیں۔۔۔؟ یہ طیارے کیسے اور کہاں نشانہ بنے۔۔۔؟ آپ بتائیے کہ آپ کے ہندوستانی نامہ نگار کتنے جنگی طیاروں کی تباہی تصدیق کر سکے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا بالکل بھی نہیں کیا گیا اور جان بوجھ کر یک طرفہ رپورٹنگ کرکے ہندوستانی انتہا پسندوں کے ہم نوا بننے کی کوشش کی گئی، تاکہ وہ ڈھنڈورے پیٹتے رہیں کہ دیکھیے ہم نے اپنے حریف کو خاک چٹا دی!
ایک ’بی بی سی‘ اردو ہی نہیں ’انڈپینڈنٹ اردو‘ نے بھی ہندوستانی جارحیت کے حوالے سے اپنے ہاں پاکستانی عینی شاہدین کے ’تجربات‘ کو خوب جگہ دی، کہ انھیں رات گئے ہندوستانی حملوں کے بعد کیسا محسوس ہوا، لیکن سرحد کے اُس پار کیا ہوا، اُس پر بھی انھوں نے صرف پاکستانی دعوے کہہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرلی۔ یہ سراسر صحافتی بددیانتی ہے اور جانب داری کی ایک مثال ہے۔ بالخصوص عالمی اِبلاغی اداروں کو جس طرح ہمارے ہاں صحافتی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس واقعے کے بعد ہم جیسے صحافتی طالب علموں کے لیے یہ ایک ایسا حوالہ بنے گا جو بہت دیر تک ان صحافتی اداروں کی نام نہاد غیر جانب داری کا منہ چڑاتا رہے گا۔
عالمی اِبلاغی اداروں سے ایک نظر ’سماجی ذرایع اِبلاغ ‘ (سوشل میڈیا) پر بھی ڈالیے، تو ہم ابھی گیت نگار جاوید اختر جیسے سکہ بند حرف شناس اور سخن وَروں کی انتہا پسندی اور دشنام طرازیوں کو ہی بیٹھ کر رو رہے تھے، کہ چھے مئی 2025ء کے ہندوستانی حملے کے بعد اچھے اچھے ہندوستانی دانش ور اور تعلیم یافتہ افراد بھی ’جنگ پسندی‘ کے بہاؤ میں ایسے بہہ رہے ہیں کہ نہ پوچھیے۔ بدقسمتی سے کچھ ہندوستانی مسلمان تک پہلگام واقعے کے بعد سے مرچیں کھائے بیٹھے تھے اور ’سوشل میڈیا‘ پر برابر اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہے تھے، جب کہ ایک بہت بڑی تعداد چھے مئی کی سفاکانہ جارحیت کے بعد نام نہاد فتح کا جشن اور خود ساختہ الزامات کے ’’بدلے‘‘ کے نشے میں جھومنے لگی۔۔۔ باقی رہے سہے متوازن اور ’انسانی رویے‘ رکھنے والے ہندوستانی دوست، تو وہ سرحد کے اِس طرف کے احباب کی جوابی کارروائی یا تنقید پر بری طرح بہک گئے اور لگے پاکستان پر محاذ کھول کر اپنی ’ہندوستانی حب الوطنی‘ کے ثبوت دینے۔۔۔۔
حیرت ہوتی ہے کہ کیسے اچھے اچھے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ احباب اپنے بنیادی شعور کو پس پشت ڈال کر اپنی اپنی ریاستوں کے جھوٹے سچے راگ الاپ کر ایک دوسرے پر سنگینیں کھینچ لیتے ہیں۔ شاید اب توازن اور تحمل ہمارے سماج سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے، ورنہ زیادہ وقت نہیں گزرا جب سرحد کے دونوں جانب کے عوام ریاستی کشیدگی کے دوران اگر امن کی بات کرنا مشکل بھی پاتے تھے، تو چُپ سادھ لیتے تھے، لیکن اب تو آتشِ نمرود میں اُس چھپکلی کی طرح محسوس ہوتے ہیں کہ جو پھونکیں مار مار کر اس آگ کو بھڑکانے میں اپنا جیسا تیسا کردار ادا کر رہی تھی۔ یہ نہایت تشویش ناک امر ہے کہ برصغیر کے دانش وروں سے شاید اب ’دانش‘ اُٹھ چکی ہے۔ اب وہ بھی قلم پھینک کر گویا ’ہتھیار بند‘ ہو رہے ہیں، اپنے منہ سے آگ نکال رہے ہیں، ان کے لہجوں میں اپنے قلم کی روشنائی کے بہ جائے بندوق کے بارود کے موافق دھواں اٹھ رہا ہے۔
کیا جدید دنیا میں ایسے ہی کوئی ملک کسی پر اپنے ہاں کے کسی واقعے کا الزام لگا کر خود ’سزا‘ سنا دینے کا اختیار رکھتا ہے، لیکن ہندوستان کی جانب سے ہر مرتبہ یہی وتیرہ رہا ہے اور اب وہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر ’لائن آف کنٹرول‘ سے نکل کر ہماری بین الاقوامی سرحدوں کے اندر دخل اندازی سے بھی باز نہیں آرہا، جو اس خطے کے امن وامان کے لیے نہایت سنگین خطرہ ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آپریشن سندور میں پاکستان میں 9مقامات کو نشانہ بنایا، میزائل حملوں کے بعد بھارت کا موقف بھی آگیا
آپریشن سندور میں پاکستان میں 9مقامات کو نشانہ بنایا، میزائل حملوں کے بعد بھارت کا موقف بھی آگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 7 May, 2025 سب نیوز
نئی دہلی (سب نیوز) پاکستان کے معصوم سویلین پر رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح حملہ کرنے کے بعد بھارت کے وزیر دفاع کا بیان بھی سامنے آگیا۔
بھارتی وزارتِ دفاع کے مطابق بھارتی مسلح افواج نے ‘آپریشن سندور’ کے تحت پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں واقع دہشت گردی کے مبینہ مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں اور ان حملوں میں 9 مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔بھارتی سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ کارروائیاں “غیر فوجی، ناپ تول کر کی گئیں اور اشتعال انگیز نہیں تھیں۔” بیان میں کہا گیا کہ کسی پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور اہداف کا انتخاب “احتیاط اور برداشت” کے ساتھ کیا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کا پانچ مقامات پر حملہ ، کوٹلی ، احمد پور شرقیہ ، مظفر آباد ، باغ اور مریدکے شامل ،، تفصیلات سب نیوز پر اگلی خبرپاک افواج کی جانب سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب، پاک فضائیہ نے دشمن کے دو طیارے مار گرائے ،سکیورٹی ذرائع بھارت کا پانچ مقامات پر حملہ ، کوٹلی ، احمد پور شرقیہ ، مظفر آباد ، باغ اور مریدکے شامل ،، تفصیلات سب نیوز... بھارت نے پاکستان میں تین مقامات پر میزائل داغے، پاکستان کا مؤثر جواب آنے والا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پروازوں کے لیے بند، تمام فلائٹس کراچی موڑ دی گئیں بھارت نے مظفرآباد، کوٹلی اور بہاولپور میں میزائل داغ دیے، بچہ شہید، پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی شروع بھارت نے پاکستان پر بزدلانہ حملہ کرتے ہوئے 3 شہروں پر میزائل داغ دیے، معصوم بچہ شہید، دو شہری زخمی عمران خان نے رہنماوں کو اے پی سی، ایپکس کمیٹی، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں جانے سے روک دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم