وٹامن بی 12، جسم کے لیے کتنا اہم، کن غذاؤں سے حاصل کیا جاسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
انسانی صحت کے لیے وٹامن بی 12 کی اہمیت سے تو سب ہی واقف ہوں گے لیکن جسم میں اس کی سطح کن نباتاتی غذاؤں سے بڑھائی جا سکتی ہے یہ شاید سب لوگ نہیں جانتے ہوں گے جس پر ہم اس رپورٹ میں روشنی ڈالیں گے۔
وٹامن بی 12 کے فوائدپہلے آتے ہیں وٹامن بی 12 کے فوائد کی جانب تو یہ وٹامن اعصابی افعال، خون کے سرخ خلیات کی تشکیل اور ڈی این اے کی ترکیب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کون سی غذائیں پرسکون نیند لاسکتی ہیں؟
لہٰذا ہم یہاں 8 نباتاتی غذاؤں کا تذکرہ کریں گے جن کے ذریعے وٹامن بی 12 کی مناسب سطح حاصل کی جا سکتی ہے۔
فورٹیفائیڈ ناشتے کے دانےمتعدد ناشتے کے دانے وٹامن بی 12 سے فورٹیفائیڈ ہوتے ہیں جو ایک بہترین انتخاب بناتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہرین پیکٹ کے پچھلے حصے پر موجود لیبل کو چیک کرنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس میں وٹامن بی 12 کی روزانہ کی کم از کم 100 فیصد مقدار موجود ہے۔
دودھ اور ڈیری مصنوعاتگائے کا دودھ، پنیر اور دہی وٹامن بی 12 کے بہترین قدرتی ذرائع ہیں۔ یہ کیلشیم اور پروٹین سے بھی بھرپور ہوتے ہیں اور ہڈیوں اور عمومی صحت کو سہارا دیتے ہیں۔
فورٹیفائیڈ نباتاتی دودھاسی طرح دودھ کے متبادل عام طور پر وٹامن بی 12 سے فورٹیفائیڈ ہوتے ہیں خاص طور پر سویا بین کا دودھ ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جنہیں لیکٹوز کھانے سے الرجی ہوتی ہے۔
دہیدہی میں قدرتی طور پر بی 12 کے ساتھ ساتھ پروبائیوٹکس بھی موجود ہوتے ہیں جو ہاضمے کو سہارا دیتے ہیں اور اس وٹامن کی صحت مند سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
پنیرپنیر بھی وٹامن بی 12 کا ایک مزیدار ذریعہ ہے۔ کاٹیج چیز اور موزریلا چیز بہت سے ممالک میں غذاؤں میں عام انتخاب ہیں جن سے پروٹین اور کیلشیم بھی حاصل ہوتا ہے۔
خمیرفورٹیفائیڈ غذائی خمیر اکثر غذائی ترکیبوں میں پنیر کا ذائقہ دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ وٹامن بی 12 سے بھرپور ہوتا ہے۔ اسے پاپ کارن، پاستا یا سلاد پر مزیدار ذائقے کے لیے چھڑکا جا سکتا ہے۔
فورٹیفائیڈ ٹوفوبعض قسم کے ٹوفو میں بھی وٹامن بی 12 موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک بہترین نباتاتی پروٹین ہوتا ہے۔
مشرومبعض قسم کے مشروم جیسے شیٹاکی بھی اس حوالے سے مناسب ہیں۔ اگرچہ قدرتی طور پر ان میں بی 12 کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی لیکن ان میں اس کی تھوڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: ذیابیطس کے مریضوں کے لیے متوازن اور مددگار غذائیں؟
فورٹیفائیڈ غذاؤں کے ساتھ باقاعدگی سے کھانے پر یہ اس وٹامن کی سطح کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صحت نباتاتی غذائیں وٹامن بی 12.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: وٹامن بی 12 وٹامن بی 12 ہوتے ہیں ہوتا ہے بی 12 کی بی 12 کے کے لیے
پڑھیں:
سماجی و معاشی مواقع میں فرق سے لوگوں کی اوسط عمر متاثر، ڈبلیو ایچ او
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 مئی 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہےکہ کمزور صحت کی بنیادی وجوہات عموماً معیاری تعلیم، رہائش، اور روزگار کے مواقع کی کمی جیسے عوامل سے جنم لیتی ہیں جن پر قابو پا کر اوسط عمر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اچھی صحت کے سماجی عوامل کے بارے میں 'ڈبلیو ایچ او' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں لوگوں کو باسہولت رہائش، تعلیم کے بہتر مواقع اور اچھا روزگار میسر نہ آئے تو وہاں اوسط یا متوقع عمر کم ہوتی ہے اور یہ صورتحال امیر و غریب دونوں ممالک میں لوگوں کو یکساں طور سے متاثر کرتی ہے۔
Tweet URLجن ممالک میں متوقع عمر کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے وہاں کے لوگ دیگر کے مقابلے میں اوسطاً 33 برس زیادہ زندہ رہتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس رپورٹ کے اجرا پر 'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ دنیا میں عدم مساوات عام ہے۔ لوگ جس جگہ پیدا ہوتے، پرورش پاتے، زندگی گزارتے اور کام کرتے ہیں اس کا ان کی صحت اور بہبود پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
ناموافق سماجی حالاتصحت کے حوالے سے عدم مساوات کا ناموافق سماجی حالات اور تفریق کی سطحوں سے قریبی تعلق ہوتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ کسی فرد کی صحت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور اس کی آمدنی کتنی ہے۔ جو لوگ غریب علاقوں میں رہتے ہیں اور جن کی آمدنی کم ہوتی ہے انہیں طبی مسائل لاحق ہونے اور حسب ضرورت طبی سہولیات میسر آنے کے امکانات بھی کم رہ جاتے ہیں جس کا اثر ان کی متوقع عمر پر ہوتا ہے۔تفریق اور پسماندگی کا شکار لوگ شدید درجے کی عدم مساوات کا سامنا کرتے ہیں جن میں قدیمی مقامی لوگ بھی شامل ہیں جن کی اوسط عمر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
طبی اہداف کو خطرہ'ڈبلیو ایچ او' نے یہ رپورٹ شائع کرنے کا سلسلہ 2008 میں شروع کیا تھا جب صحت کے سماجی عوامل سے متعلق ادارے کے کمیشن نے اوسط عمر کے علاوہ بچپن میں اور زچگی کے دوران اموات کے حوالے سے فرق کو کم کرنے کے لیے 2040 تک کے اہداف طے کیے تھے۔
حالیہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ ڈیڑھ دہائی میں یہ اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
معلومات کی کمی کے باوجود اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ صحت کے حوالے سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ غریب ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کے پانچ سال کی عمر سے قبل موت کے منہ میں جانے کا امکان امیر ممالک کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہوتا ہے۔اگرچہ 2000ء سے 2023ء کے درمیان زچگی کی اموات میں 40 فیصف تک کمی آئی ہے لیکن ایسی 94 فیصد اموات اب بھی کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہو رہی ہیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں امیر ترین اور غریب ترین لوگوں کے مابین فرق کو ختم یا کم کر کے تقریباً 20 لاکھ بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' کی سفارشات'ڈبلیو ایچ او' نے معاشی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے اجتماعی اقدامات پر زور دیتے ہوئے سماجی ڈھانچے اور خدمات کی فراہمی پر سرمایہ کاری کے لیے کہا ہے۔
ادارے نے اس مقصد کے لیے دیگر اقدامات بھی تجویز کیے ہیں جن میں بنیادی تفریق، مسلح تنازعات، ہنگامی حالات اور جبری نقل مکانی جیسے عوامل پر قابو پانا بھی شامل ہے۔