پاکستان فوج سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد میں ریلی کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اسلام آباد، موجودہ سیکیورٹی حالات کے تناظر میں پاکستان آرمی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریلی کا اہتمام محترمہ فراح ناز اکبر، پارلیمانی سیکرٹری برائے وزارتِ وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، نے اسلام آباد کی تاجروں کی کمیونٹی کے تعاون سے کیا گیا۔
ریلی کا مقصد مسلح افواج کی قربانیوں، بہادری اور قومی سلامتی کے عزم کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔ ریلی میں شہریوں، کاروباری برادری، اور سول سوسائٹی کی بڑی تعداد میں شرکت متوقع ہے، جو قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا مظہر ہوگی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ریلی کا
پڑھیں:
قومی یکجہتی ، وقت کی ضرورت
بھارت نے ہم پر حملہ کر کے غلطی کی ہے، بھارت نے جو جارحیت کی ہے اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حملے میں ہمارے 26 شہری شہید ہوئے، ہم عہد کرتے ہیں کہ شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا ضرور حساب لیں گے۔ پہلگام واقعہ بے بنیاد ہے جس کی ہم نے تحقیقات کی پیش کش کی مگر بھارت نے اسے قبول نہیں کیا اور جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
وزیراعظم کا قوم سے خطاب ایک قومی پالیسی کا عکس بھی ہے، جس میں واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ خطاب میں شہداء کے خون کو نہ بھولنے کا عزم کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان اب کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ شدت، جذبہ اور حوصلہ شامل تھا جس کی ایک بحران زدہ قوم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا، محض ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایک قومی پالیسی کا اعلان ہے، جو پوری ریاست کی سوچ اور پالیسی کا عکاس ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی الزامات اور حملے کے بعد اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی برادری آخرکب تک بھارت کی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کو نظر انداز کرتی رہے گی؟ اگر بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم نے مشرقی سرحد سے لے کر مغربی سرحد تک، ہر مقام پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور مشکل جنگ لڑی اور ہزاروں شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو امن دیا۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات میں اتحاد، ہمت اور قربانی کی مثال قائم کی ہے۔
چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، 1999 کا کارگل معرکہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری قوم نے ہمیشہ اپنے ملک اور افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں جس تسلسل کے ساتھ جنگی ماحول پیدا کیا گیا، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی، دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں بھارت کی جارحانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔
پاکستان نے 25 بھارتی ڈرونز مارگرائے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری مہارت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ پاکستانی افواج کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور فوری ردعمل نے دشمن کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی یا اشتعال انگیزی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ ایک واضح سیاسی و عسکری پیغام ہے کہ پاکستان نہ صرف دشمن کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ کسی بھی خطرے کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت، خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیاں اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ ان کی حکومت کا جھکاؤ انتہا پسند ہندو توا نظریے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے بجائے ایک ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک ہے، اور اسی بنیاد پر اس نے عالمی برادری کو بارہا خبردارکیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن اس رویے سے شدید خطرے میں ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے جنگی جنون کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی سعی، ایک سنجیدہ سفارتی کوشش کی غمازی کرتی ہے۔ اس میں پاکستان کا مقصد نہ صرف بھارتی پروپیگنڈا کا توڑ کرنا ہے بلکہ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے جو رویہ اپنایا جا رہا ہے، وہ محض پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ کشمیرکی صورتحال، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل مداخلت، یہ سب بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشانیاں ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کے لیے سب سے بڑی ضرورت قومی یکجہتی ہے۔ دفاع وطن کے لیے جس اتحاد و یگانگت کی آج ضرورت ہے، شاید اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر قوم ایک جھنڈے تلے متحد ہو جائے۔ دشمن کو یہی دکھانا ہے کہ پاکستانی قوم نہ صرف اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ اپنی خودمختاری، آزادی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔
قوم اور افواج پاکستان کے درمیان جو رشتہ ہے، وہ محض دفاعی اتحاد نہیں بلکہ ایک نظریاتی بندھن ہے، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔ بھارت نے اچانک اور بلا جواز حملہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ جنوبی ایشیاء کے امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ یہ حملہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پرکھلی جارحیت تھی بلکہ یہ ایک ایٹمی صلاحیت کی حامل دو ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو ناپسندیدہ حد تک لے جانے کی ناپختہ کوشش بھی تھی۔
بھارت کی جانب سے اس طرح کا حملہ اس وقت کیا گیا جب خطے میں پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بارہا پاکستان مخالف بیانات، جنگی جنون اور ہندو توا کے نظریات کی ترویج نے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ جارحیت کی، حالانکہ پاکستان نے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا۔
پاکستان نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا ہے، مگر جب بات خود مختاری، قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کی ہو، تو ہماری بہادر افواج کسی بھی قیمت پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ یہ جوابی کارروائی محض ایک دفاعی قدم نہیں بلکہ دشمن کو یہ باور کروانے کا ذریعہ بھی تھی کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری فضائیہ کے شاہینوں نے جس مہارت، چابکدستی اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری دفاعی صلاحیتوں کی ایک واضح مثال بھی ہے۔
پاکستان کو اس حملے کے بعد مزید مضبوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ ایک طرف ہمیں اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ہوگا، تو دوسری طرف سفارتی محاذ پر مؤثر طور پر اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام، قومی یکجہتی اور عوامی فلاح کے منصوبے بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کسی قسم کی داخلی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
یہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جا رہی، بلکہ یہ ذہنوں اور سفارتی ایوانوں میں بھی جاری ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، جو شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتی۔یہ پیغام صرف دشمن کے لیے نہیں، بلکہ دوستوں کے لیے بھی ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اگر امن چاہیے، تو انصاف ضروری ہے اور اگر انصاف نہیں ہو گا تو جنوبی ایشیا میں کبھی بھی مستقل امن قائم نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان کا یہ موقف اصولی ہے، واضح ہے اور تاریخ کے تناظر میں بالکل درست ہے۔ ہمیں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینی ہے، چاہے وہ میدان جنگ ہو، سفارتی دنیا ہو یا میڈیا کی جنگ۔عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو اس کے جنگی جنون سے روکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک کے درمیان جنگ کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے گی۔
اگر عالمی طاقتیں واقعی امن کی خواہاں ہیں، تو انھیں فوری طور پر پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان کسی کی مہربانی کا محتاج نہیں۔ اگر ہمیں اپنے دفاع کے لیے تنہا بھی کھڑا ہونا پڑے تو ہم کھڑے ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں بارہا کیا ہے۔ ہمیں نہ صرف دشمن کے حملوں کا جواب دینا ہے، بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروانا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، مگر عزت کے ساتھ۔