عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ تسلیم، پاکستانی موقف کی تائید
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد:کشمیر کے مسئلے نے ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر اپنی موجودگی کو مضبوطی سے منوا لیا ہے۔
مئی 2025 میں پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان کی سیاسی، عسکری اور سفارتی قیادت نے مسئلہ کشمیر کو جس عزم اور مؤثر انداز سے اجاگر کیا، اس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ حالیہ تنازعے کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے اور جب تک یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششیں عالمی قوانین اور وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
اس کشیدگی کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری اب اس مسئلے کو بھارت کا داخلی معاملہ ماننے کے بجائے ایک بین الاقوامی تنازع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کی بھرپور سفارتی کوششوں کے باعث نہ صرف عالمی میڈیا نے اس تنازعے کو کوریج دی بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کو بے نقاب کیا۔ یوں عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا کہ بھارت کو اس دیرینہ مسئلے کے حل کی طرف آنا پڑے۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس تبدیلی کا اعتراف کیا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور آج عالمی طاقتیں اس تنازعے میں سنجیدگی سے دلچسپی لے رہی ہیں۔
ان کا بیان نہ صرف بھارتی بیانیے کی نفی کرتا ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر محض ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جس کا حل کشمیری عوام کی رائے کے مطابق نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن مسئلہ کشمیر بدستور حل طلب ہے۔
بھارت کی جانب سے مسلسل بربریت، ماورائے عدالت قتل اور آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں جنوبی ایشیا کے امن کو مسلسل خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کو اب صرف بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، حق خودارادیت مل سکے اور خطے میں دیرپا امن قائم ہو۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کا انحصار مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات پر آمادہ رہا ہے اور اس نے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔
بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے کہ مزید ہٹ دھرمی خطے کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، تاکہ جنوبی ایشیا ایک پرامن اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہو سکے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کشمیر کے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کی گرفتاری کی مذمت
پرویز شاہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے آزادی پسند قیادت کو طویل عرصے سے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں نظربند کر رکھا ہے اس کے باوجود وہ کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے آزادی پسند رہنمائوں اور کارکنوں کے گھروں پر بلاجواز چھاپوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران چھ سو سے زائد کشمیریوں کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سیکرٹری جنرل ایڈووکیٹ پرویز شاہ نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارتی فورسز بے گناہ کشمیریوں کو نشانہ بنا کر تحریک آزادی کشمیر کو طاقت کے بل پر دبانے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں اور چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے آزادی پسند قیادت کو طویل عرصے سے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں نظربند کر رکھا ہے اس کے باوجود وہ کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ انہوں نے بھارتی جیلوں میں نظربند حریت رہنمائوں کی بگڑتی ہوئی صحت پر شدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جیل انتظامیہ کشمیری حریت پسند قیدیوں کو طبی اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جیلوں میں نظربند کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ اور محمد یاسین ملک جیسے رہنما مختلف عارضوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جنہیں علاج معالجے کی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی ہے جو انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔حریت رہنما نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔