Islam Times:
2025-09-18@15:49:08 GMT

ٹرمپ کا عرب ممالک کا دورہ، کامیابی یا شکست

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

ٹرمپ کا عرب ممالک کا دورہ، کامیابی یا شکست

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عرب حکومت نما گائے سے دودھ دوہا ہے اور اتنا دودھ دوھ دیا ہے کہ اب شاید ان عرب حکومتوں کے تھن بھی درد کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں عرب ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کئے۔ اس دورے کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق بات کرنے سے قبل ٹرمپ کے اس دورہ کے چیدہ چیدہ مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔
۱۔ ٹرمپ کا حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پہلا مقصد امریکہ کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا، تاکہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح اور امریکی شہریوں کے غم و غصہ کو کم کیا جائے۔ اس عنوان سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے تین عرب ممالک کے ساتھ لگ بھگ ساڑھے تین کھرب ڈالر کے معاہدے کئے، جو یہ عرب ممالک امریکہ میں سرمایہ گذاری کریں گے۔

۲۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ممالک میں روس اور چین سمیت ایران کے اثر و نفوذ کے سامنے بند باندھا جائے۔ یہ بات خود ٹرمپ کی تقریروں میں واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ اس عنوان سے انہوں نے ایران کو بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بے بنیاد الزامات سے نوازا۔
۳۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا تیسرا مقصد عرب ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کے منصوبہ پر کہ جس میں امریکہ غزہ کو خالی کرنا چاہتا ہے۔ تاہم عرب ممالک کی حکومتوں کو یہ سمجھانا تھا کہ غزہ کے معاملہ پر امریکی حکومت کا ساتھ دیں۔
۴۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا چوتھا مقصد ابراہیمی معاہدے کو آگے بڑھانا تھا کہ جس میں عرب ممالک کی حکومتوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ہے۔ اس بات کا اظہار بھی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔

۵۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پانچواں مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت سنہ2001ء سے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کے جس خواب کی تکمیل میں ناکام رہی ہے، اس کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ یعنی شام کے عبوری صدر احمد الشرع جولانی کو بھی خصوصی طور پر بلایا گیا اور سعودی شہزادے محمد بن سلمان اور ترک صدر اردگان کی آن لائن موجودگی میں ٹرمپ نے جولانی کو بغل گیر کیا۔ بعد ازاں ایک تصویر جاری کی گئی، جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ اب مشرق وسطیٰ امریکہ کا نئے مشرق وسطیٰ بن چکا ہے۔ یعنی اس کام کے لئے امریکہ نے 25 سال کا عرصہ لگایا، کھربوں ڈالر خرچ کئے، کئی حکومتوں کو گرایا۔

افغانستان، عراق، پاکستان، فلسطین اور لبنان و شام میں لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا۔ یعنی لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ آخر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ تصویر بنوائی، جسے کل تک امریکی حکومت خود دہشت گرد قرار دیتی رہی اور اس کے سر پر دس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔ یہ یقینی طور پر امریکی سیاست اور امریکی صدر کی کھلی ہوئی شکست کا اعتراف ہے۔ امریکہ واضح طور پر نیا مشرق وسطیٰ بنانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ شام کے جولانی سے بھی امریکی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کا جواب ہاں میں دیا گیا ہے۔

بہرحال درج بالا مقاصد کو اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر صرف اور صرف عرب حکومتوں سے کھربوں ڈالر ہی لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور شاید کسی حد تک وہ اسرائیل کے لئے نرم گوشہ قائم کر لیں، لیکن پوری دنیا میں سعودی عرب کی حکومت کو ایک زبردست دھچکا لگے گا، جو ناقابل برداشت ہوگا۔ باقی تمام مقاصد میں امریکی حکومت کی واضح شکست نظر آ رہی ہے۔ وہ غزہ کو خالی کرنا چاہتی ہے اور حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلح کرنے کا اعلان کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ غزہ میں کوئی بھی امریکی منصوبوں کا حامی نہیں ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ جس وقت سعودی عرب میں اسرائیل کے لئے سعودی عرب اور ترکیہ سمیت شام کے ساتھ بات کر رہے تھے، عین اسی وقت ٹرمپ کے سر کے اوپر سے یمن کی مسلح افواج کے میزائل گزر کر تل ابیب کے بن گوریون ایئر پورٹ کو نشانہ بنا رہے تھے۔ یہ واضح طور پر امریکی صدر کے ساتھ ساتھ ہر اس اسرائیل کے اتحادی اور دوست کے لئے پیغام تھا، چاہے وہ ترکیہ ہو یا شام یا پھر سعودی عرب ہو کہ یمن فلسطین کے ساتھ ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس دورے سے متعلق امریکہ میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا یہ دور ہ کوئی سیاست یا تجارت نہیں ہے بلکہ یہ اسلحہ کی دلالی ہے۔ جو ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔

اس دلالی کا مقصد دراصل عرب حکومتوں کو ڈرا کر رکھنا ہے کہ سعودی عرب سمیت قطر اور امارات میں بادشاہت کی حمایت امریکی حکومت کی جانب سے جاری رہے گی۔ یہاں امریکہ نہ تو جمہوریت کی بات کرے گا اور نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھائے گا۔ کیونکہ امریکی حکومت نے ان عرب حکومتوں کو بتا دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکی حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا ہے، لیکن پھر بھی امریکی حکومت نے ان عربوں کو بتایا ہے کہ دہشتگرد امریکہ نہیں، فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ ایسی باتوں پر عرب حکمرانوں نے خاموشی سادھ لی ہے اور کھربوں ڈالر کی دولت اٹھا کر امریکی صدر کی گود میں اس لئے رکھ دی ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں ان عرب ممالک میں کوئی جولانی جیسا لا کر صدر نہ بنا دیا جائے۔

اسی ڈر اور خوف کا فائدہ امریکی حکومت اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ خود کو امن کا علمبردار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ دنیا میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عرب حکومت نما گائے سے دودھ دوہا ہے اور اتنا دودھ دوھ دیا ہے کہ اب شاید ان عرب حکومتوں کے تھن بھی درد کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: طور پر امریکی امریکی صدر کے امریکی حکومت عرب حکومتوں واضح طور پر اور امریکی اسرائیل کے بھی امریکی عرب حکومت کی حکومت ٹرمپ کا کے ساتھ ہے کہ ا تھا کہ رہی ہے کے لئے ہے اور

پڑھیں:

امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز

امریکی صدر کی جانب سے ایک بار پھر غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی حمایت کے بعد صیہونی فوج نے غزہ شہر پر حملے شدید کر دیے ہیں اور کل رات شدید فضائی حملوں کے بعد آج زمینی پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو شروع ہوئے 711 دن ہو چکے ہیں اور کل رات سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ شہر پر شدید ترین بمباری کی ہے جبکہ آج سے زمینی حملے اور پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ غزہ شہر پر صیہونی فوج کے حملوں میں شدت ایسے وقت آئی ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہے۔ کل رات کی شدید بمباری میں صبح تک دسیوں فلسطینی شہید ہو جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ حملے پوری طرح امریکہ کی حمایت سے کیے جا رہے ہیں۔ صیہونی جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور توپ خانے نے غزہ شہر کے کئی حصوں جیسے الدرج محلے میں واقع الزہرا اسکول اور رہائشی عمارتوں، النصیرات مہاجر کیمپ کے شمالی حصے، شہر کے مرکز میں شیخ رضوان محلے، مغرب میں الشاطی مہاجر کیمپ، جنوب میں تل الہوا، دیر البلح شہر میں السوق روڈ اور غزہ شہر کے شمال میں الامن العام علاقے میں رہائشی عمارات، البریج مہاجر کیمپ اور کئی دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ شہر کے الشوای چوک سے ملبے کے نیچے سے دو بچوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 30 افراد اب تک ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
 
اسی طرح غزہ شہر کے جنوب میں الخضریہ محلے میں 4 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے شمال میں الامن العام محلے میں ملبے کے نیچے سے 8 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 40 فلسطینی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیانیے میں صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتس کے گستاخانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا شہر امریکہ کے دیے گئے میزائلوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے لیکن ہماری عوام استقامت اور مزاحمت کے ذریعے دشمن کے اوہام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔" یاد رہے صیہونی رژیم کے وزیر جنگ نے غزہ شہر پر شدید فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا تھا کہ "غزہ آگ میں جل رہا ہے۔" اخبار ایگسیوس نے صیہونی حکام کے بقول دعوی کیا ہے کہ صیہونی فوج پیر کے دن غزہ شہر پر فوجی قبضہ جمانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کر دے گی۔ اس اخبار نے مزید لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ شہر پر زمینی کاروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
 
اس امریکی اخبار کے بقول امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت غزہ پر زمینی حملے کی حمایت کرتی ہے اور تاکید کی ہے کہ صیہونی فوج کم ترین وقت میں غزہ شہر پر قبضہ مکمل کرے۔ اخبار ایگسیوس نے اسی طرح ایک اعلی سطحی اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے بقول فاش کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے اسرائیلی حکام سے غزہ پر زمینی حملہ روک دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار ایگسیوس کو بتایا تھا کہ: "ٹرمپ حکومت اسرائیل کو نہیں روکے گی اور اسے غزہ جنگ سے متعلق اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی اجازت دے گی۔" ایگسیوس نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار کے بقول لکھا: "غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی جنگ ہے اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ داری نیتن یاہو پر ہو گی۔"

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو شکست دینے کےبعد آج عرب ممالک میں پاکستان کو وہی عزت حاصل ہے جو بڑے ممالک کو دی جاتی ہے، حنیف عباسی
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • برطانوی شاہی خاندان کا ونزر کاسل میں ٹرمپ کے اعزاز میں شاندار عشائیہ
  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • عرب جذبے کے انتظار میں