ٹرمپ کا عرب ممالک کا دورہ، کامیابی یا شکست
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عرب حکومت نما گائے سے دودھ دوہا ہے اور اتنا دودھ دوھ دیا ہے کہ اب شاید ان عرب حکومتوں کے تھن بھی درد کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں عرب ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کئے۔ اس دورے کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق بات کرنے سے قبل ٹرمپ کے اس دورہ کے چیدہ چیدہ مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔
۱۔ ٹرمپ کا حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پہلا مقصد امریکہ کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا، تاکہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح اور امریکی شہریوں کے غم و غصہ کو کم کیا جائے۔ اس عنوان سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے تین عرب ممالک کے ساتھ لگ بھگ ساڑھے تین کھرب ڈالر کے معاہدے کئے، جو یہ عرب ممالک امریکہ میں سرمایہ گذاری کریں گے۔
۲۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ممالک میں روس اور چین سمیت ایران کے اثر و نفوذ کے سامنے بند باندھا جائے۔ یہ بات خود ٹرمپ کی تقریروں میں واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ اس عنوان سے انہوں نے ایران کو بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بے بنیاد الزامات سے نوازا۔
۳۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا تیسرا مقصد عرب ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کے منصوبہ پر کہ جس میں امریکہ غزہ کو خالی کرنا چاہتا ہے۔ تاہم عرب ممالک کی حکومتوں کو یہ سمجھانا تھا کہ غزہ کے معاملہ پر امریکی حکومت کا ساتھ دیں۔
۴۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا چوتھا مقصد ابراہیمی معاہدے کو آگے بڑھانا تھا کہ جس میں عرب ممالک کی حکومتوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ہے۔ اس بات کا اظہار بھی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔
۵۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پانچواں مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت سنہ2001ء سے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کے جس خواب کی تکمیل میں ناکام رہی ہے، اس کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ یعنی شام کے عبوری صدر احمد الشرع جولانی کو بھی خصوصی طور پر بلایا گیا اور سعودی شہزادے محمد بن سلمان اور ترک صدر اردگان کی آن لائن موجودگی میں ٹرمپ نے جولانی کو بغل گیر کیا۔ بعد ازاں ایک تصویر جاری کی گئی، جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ اب مشرق وسطیٰ امریکہ کا نئے مشرق وسطیٰ بن چکا ہے۔ یعنی اس کام کے لئے امریکہ نے 25 سال کا عرصہ لگایا، کھربوں ڈالر خرچ کئے، کئی حکومتوں کو گرایا۔
افغانستان، عراق، پاکستان، فلسطین اور لبنان و شام میں لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا۔ یعنی لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ آخر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ تصویر بنوائی، جسے کل تک امریکی حکومت خود دہشت گرد قرار دیتی رہی اور اس کے سر پر دس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔ یہ یقینی طور پر امریکی سیاست اور امریکی صدر کی کھلی ہوئی شکست کا اعتراف ہے۔ امریکہ واضح طور پر نیا مشرق وسطیٰ بنانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ شام کے جولانی سے بھی امریکی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کا جواب ہاں میں دیا گیا ہے۔
بہرحال درج بالا مقاصد کو اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر صرف اور صرف عرب حکومتوں سے کھربوں ڈالر ہی لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور شاید کسی حد تک وہ اسرائیل کے لئے نرم گوشہ قائم کر لیں، لیکن پوری دنیا میں سعودی عرب کی حکومت کو ایک زبردست دھچکا لگے گا، جو ناقابل برداشت ہوگا۔ باقی تمام مقاصد میں امریکی حکومت کی واضح شکست نظر آ رہی ہے۔ وہ غزہ کو خالی کرنا چاہتی ہے اور حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلح کرنے کا اعلان کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ غزہ میں کوئی بھی امریکی منصوبوں کا حامی نہیں ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جس وقت سعودی عرب میں اسرائیل کے لئے سعودی عرب اور ترکیہ سمیت شام کے ساتھ بات کر رہے تھے، عین اسی وقت ٹرمپ کے سر کے اوپر سے یمن کی مسلح افواج کے میزائل گزر کر تل ابیب کے بن گوریون ایئر پورٹ کو نشانہ بنا رہے تھے۔ یہ واضح طور پر امریکی صدر کے ساتھ ساتھ ہر اس اسرائیل کے اتحادی اور دوست کے لئے پیغام تھا، چاہے وہ ترکیہ ہو یا شام یا پھر سعودی عرب ہو کہ یمن فلسطین کے ساتھ ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس دورے سے متعلق امریکہ میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا یہ دور ہ کوئی سیاست یا تجارت نہیں ہے بلکہ یہ اسلحہ کی دلالی ہے۔ جو ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔
اس دلالی کا مقصد دراصل عرب حکومتوں کو ڈرا کر رکھنا ہے کہ سعودی عرب سمیت قطر اور امارات میں بادشاہت کی حمایت امریکی حکومت کی جانب سے جاری رہے گی۔ یہاں امریکہ نہ تو جمہوریت کی بات کرے گا اور نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھائے گا۔ کیونکہ امریکی حکومت نے ان عرب حکومتوں کو بتا دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکی حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا ہے، لیکن پھر بھی امریکی حکومت نے ان عربوں کو بتایا ہے کہ دہشتگرد امریکہ نہیں، فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ ایسی باتوں پر عرب حکمرانوں نے خاموشی سادھ لی ہے اور کھربوں ڈالر کی دولت اٹھا کر امریکی صدر کی گود میں اس لئے رکھ دی ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں ان عرب ممالک میں کوئی جولانی جیسا لا کر صدر نہ بنا دیا جائے۔
اسی ڈر اور خوف کا فائدہ امریکی حکومت اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ خود کو امن کا علمبردار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ دنیا میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عرب حکومت نما گائے سے دودھ دوہا ہے اور اتنا دودھ دوھ دیا ہے کہ اب شاید ان عرب حکومتوں کے تھن بھی درد کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: طور پر امریکی امریکی صدر کے امریکی حکومت عرب حکومتوں واضح طور پر اور امریکی اسرائیل کے بھی امریکی عرب حکومت کی حکومت ٹرمپ کا کے ساتھ ہے کہ ا تھا کہ رہی ہے کے لئے ہے اور
پڑھیں:
امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطیٰ کا جواب، ماسکو میں روس-عرب سربراہی اجلاس طلب
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تمام رہنماؤں اور عرب لیگ کے سکریٹری جنرل کو 15 اکتوبر کو ہونے والی پہلی روس-عرب سربراہی اجلاس کے لیے مدعو کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین بحران : پیوٹن سے جلد ملاقات کا امکان ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق اس اجلاس سے متعلق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ ملاقات ہمارے ممالک کے درمیان باہمی فائدہ مند، کثیر جہتی تعاون کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد کرے گی۔
روس میں عرب سربراہی اجلاس کی خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ روز ہی مشرق وسطیٰ کے 3 ممالک کا 4 روزہ دورہ کرکے امریکا واپس پہنچے ہیں۔
ٹرمپ کے اس دورے کے دوران کئی سودے طے پائے، جن میں سعودی عرب کی جانب سے امریکا میں سرمایہ کاری کے لیے 600 بلین ڈالر کا وعدہ، مملکت کو 142 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت، اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اے آئی کی شراکت داری شامل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پیوٹن ٹرمپ روس عرب سربراہی اجلاس روسی صدر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن مشرق وسطیٰ