77 وا ں یوم نکبہ: ہم واپس آئیں گے
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
فلسطین جس کو انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے اور تین آسمانی مذاہب کے مقدسات اس سرزمین مقدس پر موجود بھی ہیں۔ فلسطین سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے ہر طرح ایک اہمیت رکھنے والی جگہ کا نام ہے۔ اسی سرزمین فلسطین پر دنیا بھر سے جمع ہونیوالے صیہونیوں نے قبضہ کیا۔
1896 میں تھیوڈر ہرٹزل کی شروع کردہ تحریک آخرکار 1948میں فلسطین میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کے ساتھ اختتام پذیر نہیں ہوئی بلکہ اس قبضہ اور جارحیت نے ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے پوری دنیا کے امن کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔15مئی1948 کو برطانیہ ، فرانس اور امریکا کی سازشوں کے نتیجے میں دنیا بھر سے لا کر آباد کیے گئے صیہونیوںکے لیے سرزمین فلسطین پر ایک نئی ریاست اسرائیل کا اعلان کردیا گیا۔ یعنی فلسطین پر باقاعدہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تسلط کا اعلان ہوا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی ان صیہونیوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کریں اور جتنا چاہے قتل عام کریں۔ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غاصب صیہونیوں نے صرف ایک دن یعنی 15مئی 1948کے دن فلسطین کے 600 دیہاتوں اور قصبوں کو اپنی دہشت گردی اور سفاکیت کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ خواتین کی آبروریزی کی گئی۔
پانی کی لائن میں زہریلے مواد ڈال کر معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلایا گیا۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنیوالے پالتو مویشیوں کو بھی صیہونیوں نے نہیں بخشا۔ پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کیا اور مجبور کیا کہ وہ فلسطین سے باہر نکل جائیں یعنی جبری ہجرت کروائی۔
آج بھی غزہ میں غاصب صیہونی دشمن غزہ کے بائیس لاکھ لوگوں کو غزہ سے جبری طور پر ہجرت کروانے کے لیے نسل کشی اور جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔فلسطینیوں نے 15مئی 1948 کے دن کو نکبہ کا نام دیا ہے۔
نکبہ یعنی ایک بہت بڑی تباہی اور بربادی، یقینا جس قوم سے اس کا وطن چھین لیا جائے اور اس کو در بدر کردیا جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا تباہی اور بربادی ہو سکتی ہے؟ یقیناً یہ دن فلسطینی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے بھی تباہی اور بربادی کا دن ہے کہ جہاں ایک طرف انسانوں کو قتل کیا گیا اور بد ترین ظلم اور دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، وہاں ساتھ ہی دوسری طرف ایک قوم اور ملک پر شب خون مارکر ان کے وطن کے اندر ایک نیا غاصب ملک قائم کردیا گیا۔
لہٰذا تاریخی اور اخلاقی و سیاسی اعتبار سے فلسطین میں قائم ہونے والی صیہونیوں کی اس ریاست کو ہمیشہ ناجائز ہی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی فلسطین میں غاصبانہ انداز میں قائم کی گئی اسرائیلی ریاست کو واضح اور دوٹوک الفاظ میں ناجائز ہی قرار دیا ہے۔
یوم نکبہ پر دنیا بھر میں فلسطینی شہری اپنی مظلومیت کی داستان کی یاد مناتے ہیں اور دنیا کو بیدار کرتے ہیں، لیکن آج فلسطین کی سرزمین روزانہ ہی 1948 جیسے نکبہ سے گزر رہی ہے۔ فلسطینیوں کا ہر گزرنیوالا دن ایک نیا نکبہ ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
آج بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ان کو اپنے ہی گھروں سے نکالنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان کے وطن کو مکمل طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن فلسطینی عوام کی استقامت اور شجاعت کے سامنے تمام تر سازشیں ناکام ہو رہی ہیں۔ فلسطینی عوام نے اس سال نکبہ پر شعار دیا ہے کہ ہم واپس فلسطین آئیں گے۔
دنیا بھر میں اس شعار کی حمایت کی جا رہی ہے۔ فلسطینی عوام پر 77سال سے نکبہ ڈھایا جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام کا ایک ہی دیرینہ مطالبہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔ فلسطینی عوام آج بھی اپنے گھروں کی چابیاں لیے اپنے وطن اور گھروں میں واپس آنے کی امید سے دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگیاں بسر کررہے ہیں۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ جو کوئی بھی فلسطین کی حمایت کرنا چاہتا ہے فلسطینی عوام کی خواہشات اور ان کے مطالبات کی حمایت کرے۔ فلسطین کے عوام کا مطالبہ ہی ہمارا مطالبہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔ آج فلسطین کی دشمن قوتوں کا ارادہ ہے کہ وہ فلسطین کے مسئلہ کو فراموش کر دیں اور فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا قصہ بن کر رہ جائے، لیکن غزہ کی مزاحمت نے دشمن کو ناکام کردیا ہے۔
آئیں ! فلسطینیوں پر گزرنے والے نکبہ کے خلاف متحد ہو جائیں اور یہ عہد کریں کہ فلسطین دشمن قوتیں چاہے وہ امریکا اور اسرائیل ہو یا برطانیہ اور فرانس یا کوئی بھی حکومت اور عناصر ہوں ان کے مقابلے میں فلسطین کا دفاع اولین ترجیح بنائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کا فلسطینی عوام کہ فلسطین دنیا بھر کے ساتھ دیا ہے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
اگر آپ پیدل ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپ کی طرف آئیں گے: فضل الرحمان کا ڈھاکا میں خطاب
بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو برادر اسلامی ممالک مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کے خواہش مند ہیں اور اس راستے میں ہمارے قدم آگے بڑھیں گے، اگر آپ پیدل ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپ کی طرف آئیں گے۔مولانا فضل الرحمان بنگلادیش کے دورے پر ہیں۔ ڈھاکا میں عالمی ختم نبوت ﷺ کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ امت میں وحدت و اتفاق کی علامت ہے، تحریک کسی تشدد کا نہیں بلکہ جدوجہد کے تسلسل کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر کے مسلمان اور تمام مکاتب فکر کے علما متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، نبوت کا دعویٰ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ہم پاکستان سے خیر سگالی کا پیغام لےکر آئے ہیں اور بنگلادیش سے خیر سگالی کا پیغام لے کر جائیں گے، دو برادر اسلامی ممالک مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کے خواہش مند ہیں اور اس راستے میں ہمارے قدم آگے بڑھیں گے، اگر آپ پیدل ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپ کی طرف آئیں گے، محبت کا یہ رشتہ مزید مضبوط ہوگا اور بہت مضبوط ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دو بھائیوں کے اپنے گھر میں جائیداد تقسیم کرنے سے ان کے بھائی چارے میں کوئی فرق نہیں آتا، پاکستان اور بنگلادیش کا مسلمان ایک قوت اور ایک جماعت اور ایک ہی امت ہے، آج کا یہ اجتماع دونوں ملکوں کے درمیان بہتر، مضبوط اور مستحکم تعلقات کا سبب بنے گا۔