Express News:
2025-07-04@12:09:48 GMT

کام یاب زندگی

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

کراچی صرف ایک شہر نہیں بلکہ سمندر جیسی گہری ایک تہذیب ہے، جس کا اندازہ نہ ہی اس کے باسیوں کو ہوتا ہے، اور نہ ہی باہر سے آ کر یہاں بسنے والوں کو اس گہری کا احساس ہوپاتا ہے۔

میری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کراچی کا اہم کردار رہا ہے۔ گذشتہ 22 سالوں میں یہاں رہنے کے باعث اس کے کئی نشیب و فراز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم، پچھلے کچھ برسوں میں مختلف شہروں کے بارہا، دوروں سے یہ احساس ہوا کہ کراچی میں ایک عجیب، انجانی سی بے چینی اور بلاوجہ کا دباؤ (Stress) موجود ہے۔ اسی کیفیت کا مشاہدہ میں نے حال ہی میں ضلع بدین کے ایک گاؤں میں ایک ہفتہ اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کے دوران کیا۔

ان دنوں میں نے خود کو موبائل فون اور دیگر مصروفیات سے مکمل طور پر الگ رکھا اور اپنی زندگی اور کام یابی کے نقطہ نظر اور نظریے کو نئے زاویے سے جانچنے کی کوشش کی، کیوںکہ آج کل کام یابی کی دوڑ میں ہر شخص آگے بڑھنا چاہتا ہے، اور اپنی کام یابی کو مختلف پیمانوں سے ناپتا ہے۔ گاؤں میں قیام کے دوران مجھے نہ صرف وقت میسر آیا بلکہ پرسکون ماحول نے مجھے اپنے خیالات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ازسرنو غور کرنے کا موقع دیا۔

میں ان خیالات کو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں، تاکہ آپ بھی اپنی زندگی میں کام یابی کے مفہوم کا ازسرنو جائزہ لے سکیں اور حقیقی کام یابی حاصل کر سکیں۔ معروف لیڈرشپ ایکسپرٹ سائمن سینک کا کہنا ہے،’’کام یابی خطرناک ہو سکتی ہے، کیوںکہ اس میں یہ رجحان پایا جاتاہے کہ یہ ہماری آنکھوں کو مواقع دیکھنے سے اور ہمارے کانوں کو دوسروں کے آئیڈیاز سننے سے قاصر رکھ سکتی ہے۔‘‘

ذہنی سکون

بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ زندگی کی دوڑ میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ مادی اشیاء کے حصول میں ذہنی سکون کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جدید تحقیق اور نفسیات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ذہنی طور پر پُرسکون انسان ہی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے، کام یابی کی دوڑ میں ذہنی سکون اور صحت ہماری ترجیحات میں کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس وقفے کے دوران میں نے اس حقیقت کو بہتر طور پر محسوس کیا کہ کام یاب زندگی کے لیے ذہنی سکون سب سے بنیادی اور اہم عنصر ہے۔ اگر آپ کام یابی چاہتے ہیں تو ذہنی صحت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، اور اگر آپ دیرپا اور حقیقی کام یابی کے متلاشی ہیں تو ذہنی سکون کو اپنی زندگی میں جگہ ضرور دیں۔

آج کے دُور میں ذہنی صحت کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے کو ذہنی صحت کے حوالے سے مختلف اور ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم یہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری اور کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی ذہنی صحت وسکون کے لیے خود عملی اقدام کرے۔

وقت کی آزادی

دُنیا میں بے شمار لوگ آزاد تو ہیں، مگر وقت کی قید سے آزاد نہیں ہوپاتے ہیں۔ قدرت نے سب انسانوں کو یکساں وقت عطا کیا ہے، لیکن بہت سے لوگ اپنی ذاتی، معاشی اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے باعث اپنی ذات کی بہتری اور زندگی کے لطف کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ بڑے شہروں میں اکثر وقت کی قلت اور دیگر ذمے داریوں کی وجہ سے کہیں اور جانا بھی ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ حقیقی کام یابی کے خواہاں ہیں تو وقت کی آزادی کو حاصل کریں۔

اپنی ذات کی تلاش، قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے اور دُنیا گھومنے کے لیے وقت ضرور نکالیں۔ وقت کا مناسب اور درست استعمال ہمیں زندگی اور کائنات کی بے شمار خوب صورت اشیاء کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہے۔ اکثر لوگ وقت کی سرمایہ کاری سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے وہ اہم لمحوں میں وقت کا درست انتخاب نہیں کرپاتے اور ساری زندگی وقت کی قید میں رہتے ہیں، وقت کی آزادی دُنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔

صحت کی نعمت

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’تن درستی ہزار نعمت ہے‘‘ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ کام یاب زندگی کے لیے صحت مند ہونا اور صحت سے لطف اندوز ہونا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان میں موجودہ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ خاندانی دباؤ کے پیش نظر، ہمارا اپنے طرزِزندگی کو تبدیل کرنا اور قدرت کے قریب آنا ازحد ضروری ہوچکا ہے۔

اپنی صحت کا خیال رکھنا اور خود کو تن درست، چاق و چوبند رکھنے کے لیے جسمانی سرگرمیوں کو اپنانا، متوازن غذا لینا اور فطری ماحول سے قربت حاصل کرنا نہایت اہم اقدامات ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا، قدرت کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ہمارا لائف اسٹائل اور عادات ہماری صحت کی خرابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم نے قدرتی اور خالص اشیاء سے دُوری اختیار کرکے اپنے آپ کو خود تباہ کیا ہے۔

اپنی پسند کا کام

ہم جس معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں اپنی پسند کا کام کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ گھریلو اور معاشی ذمے داریوں کے سبب اپنی دل چسپیوں اور شوق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ میری ذاتی زندگی کا تجربہ ہے کہ بے شمار لوگ اس لیے مایوسی، نااُمیدی اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں کیوںکہ وہ ایسے کام میں مصروف ہوتے ہیں جس سے انہیں دل چسپی نہیں ہوتی ہے۔ دل چسپی نہ ہونے کے باعث وہ ترقی نہیں کرپاتے، اور یوں زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اپنی پسند کا کام کرنا ایک نعمت ہے۔

جب آپ کا شوق اور پیشہ ایک ہوجائے تو زندگی میں بیزاری نہیں آتی، اور ہر لمحہ لطف اندوزی کا باعث بنتا ہے۔ میرے نزدیک کام یابی یہ نہیں ہے کہ آپ کہاں رہتے ہیں، کیا کماتے اور کیا بناتے ہیں! بلکہ یہ ہے کہ آپ جو کام کرتے ہیں، اُس سے آپ خود کتنے خوش ہیں، دوسرے آپ کے کام سے کتنے خوش ہیں اور آپ کے کام سے انسانیت کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی بچوں کو اپنی پسند اور مرضی کا کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ ساری زندگی کام سے بیزاری اور اکتاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔

معاشی خوش حالی

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان معاشی خوش حالی کے بغیر زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ کام یاب زندگی کے لیے معاشی استحکام کو ترجیح دینا اور اس کے لیے عملی منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے خودانحصاری اور مالی منصوبہ بندی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ عملی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں۔

معاشی خوش حالی انسان کو بہت سی مشکلات سے بچاتی ہے، جب کہ غربت بے شمار برائیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے بھرپور محنت کرنی پڑے گی۔ یاد رہے یہ دُنیا معاشی اُصولوں پر چلتی ہے میری اور آپ کی خواہشوں کے مطابق نہیں، اس لیے معاشی خوشحالی ہمیں ہماری مرضی کی زندگی بسر کرنے میں معاونت کرتی ہے۔

خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن

آج کے دور میں کارپوریٹ اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن ایک بڑا چیلینج ہے۔ تحقیق اور کام یاب افراد کی زندگیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر آپ پیشہ ورانہ کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو خاندانی معاونت لازمی ہے۔

بدقسمتی سے، ہم اکثر اپنے خاندان کو ترجیحات میں شامل نہیں کرتے ہیں، اور یوں پیشہ ورانہ زندگی میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ خاندانی اقدار، روایات اور رشتے پس پشت چلے جاتے ہیں۔

اگر آپ کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن قائم رکھیں، کیوںکہ زندگی کی ہر آزمائش میں خاندان ہی ہمارا اصل سہارا ہوتا ہے۔ معروف مصنف عرفان جاوید اپنی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’مستنصر حسین تارڑ صاحب نے کہا ’یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے وہ انسان کا خاندان اور دو چار ہم درد سچے دوست ہیں۔ پس باقی سب فریب نظر ہے۔‘‘

اصل کام یابی

زندگی میں حقیقتاً وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں جو صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود کام یاب ہوتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں اور معاشرے پر بھی مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں، کام یابی سے کہیں زیادہ اہم ’’اطمینان‘‘ہے۔ کام یابی کا کوئی مذہب، رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور ملک نہیں ہوتا ہے، یہ یونیورسل ہوتی ہے، یہ حدود وقید سے بالا تر ہے۔

یہ جس انسان کو مل جاتی ہے، وہ اپنی محدود کمیونٹی سے نکل کر ساری انسانیت کے لیے قابلِ قبول ہوجاتا ہے۔ کام یابی آپ کا Canvas  تبدیل کردیتی ہے، آپ کے متعلق لوگوں کی رائے کو بدل دیتی ہے۔ آپ کی کام یابی کائنات کے ہر فرد کے لیے کام یابی کی تحریک بن جاتی ہے، اس لیے آپ مقامی سے عالمی انسان بن جاتے ہیں۔

سفر وسیلۂ ظفر

کام یابی کے سفر میں مشکلات اور رکاوٹوں کے پہاڑ کو سر کرنے کے لیے پہاڑ جیسا حوصلہ چاہے ہوتا ہے۔ میں نے جس راستے اور سفر کا انتخاب کیا تھا، وہ بہت مختلف، منفرد اور مشکل تھا، جہاں وسائل محدود اور مسائل لاتعداد تھے، حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی بہت زیادہ تھی۔ سفر کی تھکن اور راہ کی رکاوٹیں بے شمار تھیں، اپنے تو کیا دوسرے بھی ہاتھ، ساتھ اور بات کرنا چھوڑ گئے، کبھی کبھی اپنی ہمت اور حوصلہ بھی جواب دے گیا، اپنوں کی اتنی بے رخی اور لاتعلُّقی کہ دل خون کے آنسو روئے، کچھ اپنے، کچھ انجانے ساتھ نبھانے آئے، کچھ روٹھے، کچھ بچھڑے اور کچھ پار لگانے آئے.

 یہ اپنی ضد تھی یا اندر کی آگ، جس نے خود کو حالات کے آگے جھکنے نہیں دیا، مسلسل سفر سے تھکنے نہیں دیا، اپنی ناکامی سے روکنے نہیں دیا، اب مجھے احساس ہوتا ہے، میں نے ابھی تو اپنے سفر کا آغاز کیا ہے، اس لیے اگر کہیں سفر کے دوران تھکا ہارا آپ کے ملک، شہر، گاؤں اور ادارے میں آؤں تو ہمت کا ایک گلاس پلادینا یا کندھے پر تھپکی دے دینا۔ کیوںکہ میر ی زندگی کے سفر نے کئی موڑ لیے، مگر میں نے اپنے کیریئر کے لیے ایک مقرر، مصنف اور مشیر ہونے کا راستہ چنا، جہاں الفاظ راہ دکھاتے ہیں اور مشورے زندگی بدلتے ہیں۔

ع:

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

(احمد فراز)

میری نظر میںسفر ایک ایسی یونیورسٹی ہے جو وہ سکھاتی ہے جو واقعی زندگی میں درکار ہوتا ہے، جو شاید یونیورسٹیاں سکھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس لیے یاد رکھیں، سفر کی تکلیفوں سے ناآشنا لوگ، منزل پر پہنچے کے لطف سے محروم رہتے ہیں! اور بڑی منزل کے مسافروں کو سفر اور صبر بھی ’بڑا‘ کرنا پڑتا ہے...‘‘!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام یاب زندگی کام یابی کے ذہنی سکون اپنی پسند زندگی کے رہتے ہیں ہوتے ہیں کے دوران جاتے ہیں ہوتا ہے اگر ا پ اس لیے کا کام وقت کی کے لیے ہیں تو

پڑھیں:

دین اور کربلا کا مجموعی شعور

اسلام ٹائمز: ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُسکو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کیطرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کیطرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپکو تولنا، اپنے آپکو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

شعور محض کسی ایک مکتبِ فکر یا کسی فقہی مدرسے کا نام نہیں۔ یہ وہ آفاقی صلاحیّت ہے کہ جو غلط رسوم و رواج کے سامنے جھکنے سے روک کر انسان کو تحقیق کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس تحقیقی سے چاہے باپ دادا اور عزیز و اقارب ناراض ہوں یا ہجرت ہی کرنی پڑے۔ شعور ایک طاقت کی مانند انسانی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے، جو تحقیق کی دیا سلائی سے جلتی ہے اور یہ وہ چراغ ہے، جو طوفانوں میں بجھتا نہیں، بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔ شعور ہی وہ درخت ہے، جس کی جڑیں باطن میں اور پھل عمل میں ہوتا ہے۔ جب شعور و تحقیق کا چراغ مدھم پڑ جائے، تو انسانی اعمال میں رذائل ایسے اپنے پنجے گاڑھ لیتے ہیں، جیسے شام کی خاموشی میں اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے۔ جب انسان تحقیق سے بیگانہ ہو جائے، تو وہ شعور کے نور میں نہیں بلکہ جہالت کے دھویں میں جھلستا رہتا ہے۔

تحقیق کے ساتھ افراد اپنی اندرونی ریاست کو سنوارنے میں ناکام ہو جائیں، تو  اُن کی بیرونی دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا قصہ فقط ماضی کا باب نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لیے آئینہ ہے۔ کون یوسفؑ؟ ایک غلام، تنہاء، بے اختیار، لیکن شعور کا پیکر۔ دوسری طرف زلیخا، اقتدار و آسائش کی نمائندہ، مگر اس شعور سے خالی، جس نے یوسفؑ کو گناہ کے لمحے میں صبر عطا کیا۔ جسے اپنے نفس پر غلبہ پانے کا شعور آگیا، اُس نے سب سے بڑی سلطنت کو تسخیر کر لیا۔ یوسفؑ نے اپنے شعور اور اختیار سے اپنے نفس کو قیدی کر رکھا تھا جبکہ زلیخا کا نفس آزاد تھا۔ آج تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حقیقت میں یوسفؑ آزاد تھے اور زلیخا قیدی تھی۔ پس شعور وہ پیکرِ نور ہے، جو تنہائی میں بھی انسان کو اپنے وقار سے دستبردار نہیں ہونے ہوتا۔ شعور کی آنکھ خلق کو نہیں، خالق کو دیکھتی ہے۔

باشعور شخص کے لیے گناہ، فقط ایک عمل نہیں، بلکہ انسانیت کے مقام و مرتبے سے گرنا ہوتا ہے۔ جس دماغ میں شعور کا چراغ جل جائے، وہاں گناہ کی پرچھائیاں بھی پناہ نہیں لے پاتیں۔ یعنی جس دل میں  سوچنے اور سمجھنے کا عمل شروع ہو جائے، وہ تنہائی میں بھی جہالت کے خلاف  میدان جنگ بن جاتا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف اُن کی زبانوں پر ہے، جب آزمائش آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ آئیے ہم خود خاموش رہتے ہیں اور اپنے  شعور سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم دیندار ہیں؟ جب انسان خود سے سوال کرنا چھوڑ دے، تب وہ اپنے شعور کو کھو دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے کے بچے اپنے والدین کے سبب برباد ہوں گے، جو ان کے جسم کی فکر کریں گے، روح کی نہیں، تعلیم کی دوڑ میں تو لگائیں گے، لیکن دین کی روشنی نہ دیں گے۔

کیا آج ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کو زندگی کے ہر میدان کا چمپئن بنانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ دینداری کے میدان میں شکست کھا گئے تو باقی سب فتوحات رائیگاں جائیں گی۔ جب کسی خاندان میں دین زوال پذیر ہو جائے، تو اُس خاندان کی عزت و ناموس کاغذی ہو جاتی ہے، پھر وہاں نقش ہوتے ہیں، نقوش نہیں رہتے، پھول ہوتے ہیں، خوشبو نہیں ہوتی اور بظاہر پردہ ہوتا ہے لیکن اندر غیرت نہیں ہوتی۔ کربلا عقل و شعور کا ایک آئینہ ہے، جس میں ہم میں سے ہر ایک کو  کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے۔ کربلائی شعور یہ ہے کہ اگر تمہارے ضمیر زندہ ہیں تو غلط کام نہ کرو، خواہ ارب روپے کیلئے ہو یا ایک روپے کی خاطر۔

ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُس کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کی طرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کی طرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپ کو تولنا، اپنے آپ کو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔

متعلقہ مضامین

  • زندگی بھر جیل رہوں،یہ حکومت قبول نہیں(عمران خان)
  • پاکستان میں اس وقت جو ظلم ہورہا ہے اس سے بہتر ہے قیدمیں ساری زندگی کاٹ لوں،عمران خان
  • ریاست مہاراشٹر میں روزانہ 8 کسان اپنی زندگی ختم کررہے ہیں، پرینکا گاندھی
  • بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے اس حکومت کو قبول نہیں کرنا، چاہے ساری زندگی جیل میں رہوں: علیمہ خان
  • کسان کا بچہ کسان کیوں نہیں بننا چاہتا؟ ایک سماجی المیہ
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • دین اور کربلا کا مجموعی شعور
  • ثاقب سمیر نے اپنی زندگی کا سب سے خوفناک واقعہ شیئر کردیا
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات