ڈنمارک؛ ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال کرنے کا قانون منظور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
ڈنمارک میں 2040 تک ریٹائرمنٹ کی عمر کو بتدریج بڑھاتے ہوئے 70 سال تک کردیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈنمارک کی پارلیمان نے سرکاری اداروں میں مدت ملازمت سے متعلق ایک نیا قانون سے منظور کر لیا جس کے حق میں 81 جب کہ مخالفت میں صرف 21 ووٹ پڑے۔
پارلیمان سے منظور کیے گئے اس نئے قانون کے تحت ملک میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو بتدریج بڑھا یا جائے گا جو 2040 تک 70 تک سال ہوجائے گی۔
اس وقت ڈنمارک میں ریٹائرمنٹ عمر 67 سال ہے جو 2030 میں 68 اور 2035 میں 69 سال ہو جائے گی۔
اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ڈنمارک یورپی ممالک میں ریٹائرمنٹ کی سب سے زیادہ عمر والا ملک بن جائے گا۔
یاد رہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں تبدیلی کا یہ قانون ان افراد پر ہوگا جو 31 دسمبر 1970 کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
دنیا میں اوسط عمر میں اضافے اور بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لیے متعدد ممالک نے حالیہ برسوں میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر غور شروع کردیا ہے۔
روایتی طور پر ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال رہی ہے تاہم اب اس میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔
زیادہ تر یورپی ممالک میں اس وقت ریٹائرمنٹ کی عمر 63 سے 67 کے درمیان کردی گئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریٹائرمنٹ کی عمر میں ریٹائرمنٹ
پڑھیں:
تحریک لبیک پاکستان جیسی متشدد جماعتوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں میں، 2016 سے 2025 تک، پنجاب بھر میں 11 پولیس اہلکار شہید اور 1648 زخمی ہوئے، جن میں 69 مستقل معذور ہوگئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق مظاہروں میں 16 شہری جاں بحق اور 54 زخمی ہوئے، جبکہ 97 گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور 2 گاڑیاں جلائی گئیں۔ اس کے علاوہ متعدد میٹرو بسیں اور بس اسٹیشنز پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ پولیس کی 10 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے امن و امان سے متعلق اہم اجلاس میں تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش وفاق کو بھیجنے، نفرت انگیزی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری، اور دہشتگردی کے مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ جماعت کی قیادت کو فورتھ شیڈول میں شامل کرنے، جائیدادیں محکمہ اوقاف کے حوالے کرنے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی نے کیسے پولیس اہلکار اغوا کیے، گاڑیاں اور سرکاری اسلحہ چھینا؟
وی نیوز تجزیہ کاروں، سابق اعلیٰ پولیس افسران اور دیگر سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تحریک لبیک پاکستان جیسی متشدد جماعتوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ایسی جماعتوں کو کیسے ختم کیا جاتا ہے؟
معروف تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ماضی میں ٹی ایل پی جیسی مذہبی جماعتوں کو ریاستی پاور اسٹرکچر کے اندر سے حمایت ملتی رہی ہے، جس کے باعث وہ حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہیں۔
’تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جیسی تنظیموں کو ابتدا میں سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ بعض بڑی جماعتوں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو تقسیم کیا جا سکے۔ تاہم، اب یہ جماعت اپنی ’افادیت‘ ریاستی اداروں کے لیے کھو چکی ہے اور بظاہر اسے قومی اسٹرکچر کے اندر سے کوئی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ ‘
یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی کارکنان کا پولیس وین پر قبضہ، سرکاری بس پر حملہ
احمد بلال محبوب نے کہا کہ چونکہ یہ جماعتیں ماضی میں طاقت کے مظاہرے سے اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرتی رہی ہیں، اسی لیے اب بھی یہ پُرتشدد طریقۂ کار اختیار کرتی ہیں تاکہ اپنی موجودگی اور اثرورسوخ ظاہر کر سکیں۔ تاہم اس بار ریاست نے ان کے سامنے جھکنے کے بجائے قانونی و سیکیورٹی کارروائی کی راہ اپنائی ہے۔ اگر ایسی تنظیمیں تشدد پر یقین رکھتی ہیں، دباؤ ڈالتی ہیں یا بلیک میل کرتی ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر قانون اجازت دے تو ان کے اثاثے منجمد کیے جائیں، قیادت کو گرفتار کیا جائے اور مقدمات قائم کیے جائیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری نے کہا کہ جب تک معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی، نہ ترقی ممکن ہے اور نہ ہی استحکام آئے گا۔ احتجاج اور پر تشدد مظاہروں سے امن کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
’اگر کوئی جماعت یا گروہ تشدد میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہونی چاہیے۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ پر تشدد ہجوم کے خلاف کارروائی کے بجائے ان سے مذاکرات کر لیے جاتے ہیں، اس طرح ہم نے قانون کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر کوئی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ضروری ہے، ورنہ معاشرہ بگاڑ کا شکار رہے گا۔ ‘
یہ بھی پڑھیے بار بار احتجاج کے سبب اسلام آباد کی بندش، حکومت اس عمل کو کیسے روک سکتی ہے؟
افضل شگری نے کہا کہ جب کوئی جماعت چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی ہو قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف ایکشن لینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست بلیک میل ہو کر مذاکرات کی طرف جائے گی تو اس طرح عام شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور یہ نا انصافی بڑھتی رہے گی۔ اس لیے ریاست کو چاہیے کہ وہ قانون کے خلاف ورزی کرنے والی کسی بھی جماعت کے خلاف فوری طور پر ایکشن لے اور اس کو قانون کے مطابق سزا دے تاکہ ان پر تشدد کارروائیوں کا خاتمہ ہو سکے۔
اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ اور ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک میں اگر قانون توڑنے والوں کو سزا نہ دی جائے تو یہ ریاستی کمزوری کی علامت ہے۔ کسی بھی ملک میں کوئی قانون کے خلاف ورزی کرتا ہے چاہےجماعت کرتی یا ایک گروہ کرتا ہے اس کو اس قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے اگر اپ سزا نہیں دے سکتے اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہوگی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ریاستی ادارے کمزور ہیں، قانون کی حکمرانی کا عمل کمزور ہے اور ریاست نرم ہو چکی ہے۔ جب سیاسی مصلحتوں یا دباؤ کے باعث قانون نافذ نہ ہو، تو ریاست کی رِٹ ختم ہو جاتی ہے اور معاشرے میں انتشار اور فساد جنم لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی کے احتجاج سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا؟
ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً بلوچستان، سندھ اور کچے کے علاقوں میں جرائم اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ مجرموں کو یقین ہے کہ ریاست ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ جب کسی گروہ یا فرد کو یہ اعتماد ہو جائے کہ قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا، تو وہ مذہب، فرقے یا نظریے کا سہارا لے کر طاقت حاصل کر لیتے ہیں، اور ریاست ان کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔
ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے اپنے آئین اور قانون کی بالادستی کو منوانے میں کمزوریاں دکھائی ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے گروہ مزید طاقتور ہو چکے ہیں۔ اگر ریاست آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرے تو تحریک لبیک جیسی متشدد جماعتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تحریک لبیک پاکستان