پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا راستہ کھلتا ہے تو اعتراض نہیں، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی)مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا دروازہ کھلتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، پاک فوج کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہمارا کام سیاستدانوں سے سیاسی مذاکرات کرنا نہیں، بانی پی ٹی آئی جس انجام سے دو چار ہیں اس کا راستہ انہوں نے خود چنا۔ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دے دے کر پی ٹی آئی کے ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات چیت نہیں کررہی تو ہم کیا کریں۔ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہمارا کام سیاستدانوں سے سیاسی مذاکرات کرنا نہیں، بانی پی ٹی آئی سے نہ کوئی نوری ملا ہے نہ ناری اورنہ ہی خاکی۔عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی فوج کی دہلیز پر کب سے بیٹھے ہیں، اگر یہ ڈیل اور ڈھیل نہیں چاہتے تو پھر وہاں کیوں بیٹھے ہیں؟، بانی پی ٹی آئی کیا چاہتے ہیں یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، پی ٹی آئی ایک ہارا ہوا لشکر ہے جس کے پاس مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں، پی ٹی آئی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اب وہ کیا کرے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی
پڑھیں:
سانحہ پکا قلعہ سندھ کی سیاسی تاریخ پر بدنما داغ، پاکستانیت پر شب خون تھا، خالد مقبول صدیقی
اپنے بیان میں چیئرمین ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ اس روز ہونے والے ظلم و جبر نے گلشن میں عصبیت کے کانٹوں کو مزید تقویت دی، 50 سے زائد نہتے عورتوں بچوں بزرگوں نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا گیا، جن کے ورثا آج بھی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے انصاف کے منتظر اور وحشی قاتل دندناتے ہوئے گھوم پھر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سانحہ پکا قلعہ (حیدرآباد) کی پینتیسویں برسی کے موقع پر شہدا کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 26 اور 27 مئی 1990ء کے روز بانیان پاکستان اور ان کی آل پر ہونے والی بربریت کے زخم آج بھی تازہ ہیں، اس روز جس بے رحمی اور سفاکیت کا عملی نمونہ پیش کیا گیا، اس کی مثال جاگتی آنکھوں سے کبھی نہ دیکھی گئی، قرآن سینوں سے لگائے گھروں سے رحم کی دہائیاں دیتی ہوئی نکلی عورتوں اور معصوم بچوں کو شیطانی مسکراہٹ سجائے سفاک قاتلوں نے آتشیں اسلحے سے بھون کر رکھ دیا، قاتلین معصومین کی لاشوں پر چڑھ کے فاتحانہ نعرے لگا کر خواتین اور بچوں کی آہ و بکا پر شیطانی قہقے بلند کر رہے تھے، سانحہ پکا قلعہ سندھ کی تاریخ پر بدنما داغ اور پاکستانیت پر شب خون تھا۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس روز ہونے والے ظلم و جبر نے گلشن میں عصبیت کے کانٹوں کو مزید تقویت دی، 50 سے زائد نہتے عورتوں بچوں بزرگوں نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا گیا، جن کے ورثا آج بھی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے انصاف کے منتظر اور وحشی قاتل دندناتے ہوئے گھوم پھر رہے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ معمار وطن کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھ اپنی آزادی پر تالیاں بجا رہے ہیں اور مرنے والوں کی فائلیں تک انصاف کے مندروں میں دیمک کی خوراک بن کر ختم ہوچکی ہیں، تین دہائیوں سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود انصاف کے تقاضوں پر لسانیت کا شکنجہ باعث شرم ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ تاریخ کے انمٹ صفحات پر لکھی شہدا پکا قلعہ کی قربانی کسی قیمت پر رائیگاں نہیں جائے گی۔