بجٹ کے نام پر آئی ایم ایف کی شرائط کا ڈاکیومنٹ مسلط ہوگا، لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
انہوں نے کہا کہ اس کا بوجھ تنخواہ دار اور دیگر طبقے پر پڑے گا، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے رواں سال 391 ارب روپے انکم ٹیکس دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ قوم پر بجٹ کے نام پر آئی ایم ایف کی شرائط کا پابند ڈاکیومنٹ مسلط ہوگا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ حیران کن ہے کہ بڑے زمینداروں کو زرعی آمدن سے ٹیکس استثنیٰ حاصل رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بوجھ تنخواہ دار اور دیگر طبقے پر پڑے گا، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے رواں سال 391 ارب روپے انکم ٹیکس دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ناکام معاشی تجربات سے نجات کیلئے قومی میثاق معیشت پر اتفاق کیا جائے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تنخواہ دار نے کہا
پڑھیں:
چینی کی قیمتوں میں اضافہ، وفاقی حکومت کا چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مارکیٹ میں پیدا ہونے والی قلت کے بعد وفاقی حکومت نے نجی شعبے کو 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ٹیکس چھوٹ دے دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے، جس کے تحت 30 ستمبر 2025 تک درآمد کی جانے والی چینی پر سیلز ٹیکس اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکس میں بڑی نرمی دی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق درآمد شدہ چینی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 0.25 فیصد کر دیا گیا ہے، جبکہ 3 فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سے مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے، یہ اقدام حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل حکومت کی اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف ہے۔
یاد رہے کہ ملک میں حالیہ مہینوں کے دوران چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 160 سے 180 روپے فی کلو تک جا پہنچی، اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے چینی کی بڑے پیمانے پر برآمد کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کے بعد مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی۔
اب اسی قلت کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے نجی شعبے کو درآمد کی اجازت دی ہے اور اس پر ٹیکس میں چھوٹ دے کر مارکیٹ میں استحکام لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم اپوزیشن اور معاشی تجزیہ کار اس پالیسی کو “غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ” قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ چینی کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں آٹا، گھی، دالیں، چاول اور سبزیاں بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ آٹے کی فی کلو قیمت 130 سے 150 روپے، گھی 500 روپے فی کلو، اور دال چنا 300 روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی ہے۔
شہری حکومت کے ان دعوؤں پر سوال اٹھا رہے ہیں جن میں عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر مہنگائی نے متوسط اور نچلے طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ حکومت ہر بار مہنگائی کے خلاف اعلانات اور دعوے کرتی ہے، لیکن زمینی حقائق برعکس ہیں، چینی کی برآمد کی اجازت دے کر پیدا کردہ بحران کو اب درآمد اور ٹیکس چھوٹ کے ذریعے قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا خمیازہ براہ راست عام شہری بھگت رہا ہے۔