اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) جرمنی نے سن 2024 میں 291,955 غیر ملکیوں کو شہریت دی۔ وفاقی شماریاتی دفتر کے مطابق اس ریکارڈ اضافے کی بنیادی وجہ جون 2024 میں نافذ ہونے والی وہ اصلاحات ہیں، جنہوں نے شہریت کے تقاضوں کو آسان بنایا۔

شامی شہری سرفہرست

شہریت حاصل کرنے والوں میں شام کے شہری سرفہرست رہے، جو کُل تعداد کا 28 فیصد (83,150 افراد) تھے، یعنی جرمن شہریت حاصل کرنے والا ہر چوتھا نیا شہری شامی باشندہ تھا۔

مجموعی طور پر آٹھ فیصد ترکوں (22,525 افراد)، پانچ فیصد عراقیوں، چار فیصد روسیوں (12,980 افراد) اور تین فیصد افغان شہریوں نے جرمن شہریت حاصل کی۔

روس سے تعلق رکھنے والوں کی شہریت میں سب سے زیادہ 551 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جن کی تعداد سن 2023 میں 1,995 سے بڑھ کر سن 2024 میں 12,980 تک پہنچ گئی۔

(جاری ہے)

جرمن شہریت حاصل کرنے والے ترک شہریوں کی تعداد بھی دو گنا سے زیادہ بڑھی ہے۔

جرمن شہریت کے قانون میں اصلاحات

جون 2024 کی اصلاحات نے جرمن شہریت کے لیے رہائش کا عرصہ آٹھ سال سے کم کر کے پانچ سال کر دیا۔ غیر معمولی انضمامی کارکردگی (جیسے تعلیمی یا پیشہ ورانہ کامیابی) کی صورت میں یہ مدت تین سال تک ہو سکتی ہے۔ نئے قانون نے دوہری شہریت کی بھی اجازت دی، جس سے خاص طور پر ترک کمیونٹی کے لیے شہریت آسان ہوئی، جن میں سے بہت سے افراد یا ان کے آباؤ اجداد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں گیسٹ ورکرز کے طور پر جرمنی آئے تھے۔

سن 2015 اور سن 2016 میں سابق چانسلر انگیلا میرکل کی زیر قیادت مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے بعد آنے والے شامی مہاجرین کی بڑی تعداد سن 2024 میں شہریت کی اہل ہوئی، جس نے اس رجحان کو تقویت دی۔

تاہم نئی اتحادی حکومت (کنزرویٹوز اور سوشل ڈیموکریٹس) ان اصلاحات کے کچھ حصوں کو واپس لینے اور کم از کم پانچ سال رہائش کی شرط بحال کر رہے ہیں۔

کنزرویٹوز کا موقف ہے کہ شہریت انضمام کے عمل کے اختتام پر ملنی چاہیے نہ کہ اس کے آغاز پر جبکہ کم مدت کے تقاضے امیگریشن اور عوامی ناراضی کو بڑھا سکتے ہیں۔

گزشتہ برس شہریت حاصل کرنے والوں کی جرمنی میں اوسط رہائشی مدت مختلف ممالک کے شہریوں کے لیے مختلف تھی۔ شام کے لیے 7.

4 سال، عراقیوں کے لیے 8.7 سال، افغانوں کے لیے 8.9 سال اور روس کے شہریوں کے لیے 14.5 سال۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خاص طور پر شامی مہاجرین نے نئے قانون سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ جرمنی میں شدید سیاسی ردعمل

جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی اور دیگر ناقدین نے اسے ''بجلی کی طرح تیز شہریت‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ یہ عمل جرمن شناخت کو تبدیل کر دے گا۔ اے ایف ڈی کی رہنما ایلس وائیڈل نے کہا کہ شہریت ''پروموشنل فلائر‘‘ نہیں ہونی چاہیے اور اسے کم از کم 10 سال کے بعد دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف اصلاحات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ انضمام کو فروغ دیتی ہے اور جرمنی کے تنوع کو مضبوط کرتی ہیں۔

ادارت: افسر اعوان

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شہریت حاصل کرنے جرمن شہریت کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہشمندوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • ملکی تجارتی خسارے میں 3ارب 46کررڑ70لاکھ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ
  • مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں تجارتی خسارے میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • خدمات اور وفاداری کا اعتراف، عمان کی جانب سے 45 افراد کو شہریت دینے کا شاہی فرمان جاری
  • ملک میں اکتوبر میں مہنگائی تخمینے سے زائد ریکارڈ
  • لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی شدت برقرار
  • لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی شدت آج بھی زیادہ
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز