حکومت سندھ نے سرکاری جامعات کی گرانٹ 40 ارب روپے کردی
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
حکومت سندھ نے مالی سال 2025/26 کے لیے صوبے کی سرکاری جامعات کی گرانٹ میں 15 فیصد اضافہ کردیا جس کے بعد اب گرانٹ 34 ارب سے بڑح کر 40 ارب روپے ہوجائے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر اعلی سندھ نے ایچ ای سی کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو منظور کرلیا جس کے تحت سندھ کی 32 سرکاری جامعات کی گرانٹ اب 34 بلین روپے سے بڑھ کر 40 بلین روپے ہوگئی ہے۔
گرانٹ کو اضافے کے ساتھ 13 جون کو پیش ہونے والے سندھ کے سالانہ بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گرانٹ میں اضافے کی تجویز این ای ڈی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی نے کی تھی۔
واضح رہے کہ اس اضافے کے ساتھ ہی سندھ کی تمام سرکاری جامعات کی انفرادی گرانٹ میں بھی 15 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔
منظوری کے بعد زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کی گرانٹ 2259 ملین روپے ،جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی گرانٹ 1176، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی گرانٹ 1294، سکھر آئی بی اے کی گرانٹ 1916،آئی بی اے کراچی کی 692، جامعہ کراچی 3554، جامعہ سندھ جامشورو کی 3410، این ای ڈی یونیورسٹی 2578 ملین روپے ہوجائے گی۔
اس کے علاوہ مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کو 2149 ملین روپے، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی 1595 ملین روپے، سندھ مدرسہ الاسلام 684 ملین روپے ، کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی 284 ملین روپے، بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی 376 ملین روپے گرانٹ ملے گی۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد 498 ملین روپے، داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی 1812 ملین روپے جبکہ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی 1645 ملین روپے ہوجائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری جامعات کی ملین روپے کی گرانٹ
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔