ایران کی جانب سے اسرائیل پر 13 اور 14 جون کی درمیانی شب داغے گئے میزائل حملوں نے اسرائیلیوں کو ہلاکر رکھ دیا اور انہوں نے حملوں کو تاریخ کے بدترین حملے قرار دے دیا۔

’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق ایرانی حملوں کے بعد تل ابیب کے متعدد علاقوں میں خوف و حراس کا ماحول ہے، لوگ رات دیر گئے ہونے والے ایرانی حملوں کے خوف سے کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود نہیں نکل پائے۔

رپورٹ کے مطابق 13 اور 14 جون کی درمیانی شب ہونے والے ایرانی تل ابیب، رامت گان اور ریشون لیسیون کے رہائشی علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا، جن میں 5 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔

ایران نے مذکورہ حملے اسرائیل کی جانب سے اس کی جوہری تنصیبات اور فوجی قیادت پر فضائی حملوں کے جواب میں کیے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے دعویٰ کیا ایران کے متعدد میزائل دفاعی نظام کے ذریعے ناکارہ بنا دیے گئے، تاہم کچھ میزائل انتہائی طاقتور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ رہائشی عمارات سے ٹکرا گئے، جن سے نقصان ہوا۔
حملوں کے بعد تل ابیب کی رہائشی ایک خاتون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ معمول کے مطابق کمپیوٹر اور ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ اچانک علاقہ دھماکوں سے گونج اٹھا اور پھر ان کے گھر میں بھی دھنواں جمع ہونے لگا، جس باعث وہ وہاں سے نکل گئے۔

ایرانی دھماکوں کے بعد ریسکیو سرگرمیوں کی سربراہ کرنے والے تل ابیب کے ’ہوم فرنٹ کمانڈ‘ فورس کے سربراہ کے مطابق انہوں نے پہلے کبھی اسرائیل کی تاریخ میں اس قدر شدید تباہی اور حملے نہیں دیکھے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ پہلی بار تل ابیب سمیت اسرائیل کے دیگر علاقوں میں حملوں سے شدید نقصان پہنچا اور عوام تاحال شدید خوف اور اضطراب میں مبتلا ہے۔

ایرانی حملوں سے متاثر ہونے والے علاقے آوی گاتینیو کے ایک مقامی رہائشی شخص کے مطابق وہ بھی بچوں کے ہمراہ گھر میں پرسکون حالت میں موجود تھے کہ سائرن بجنے کے بعد وہ گھر کے تہ خانے میں چلے گئے، اسی دوران زوردار دھماکہ ہوا اور پورا محلہ پانچ منٹ میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔

ہوم فرنٹ کمانڈ کے کرنل (ریٹائرڈ) مائیکل ڈیوڈ کے مطابق ایرانی حملوں کا واقعہ ایک غیر معمولی نوعیت کا واقعہ ہے، جس کے لیے ہمیں اضافی نفری تعینات کرنا پڑی اور عمارتوں کے ملبے کی تلاشی کا کام جاری ہے۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ایرانی حملوں کے مطابق حملوں کے تل ابیب کے بعد

پڑھیں:

دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ

2025 اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر دہشت گردی کے واقعات میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ گزشتہ سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کے ممکنہ بڑے حملے کو ناکام بنا دیا
اس طرح ایک بڑی تباہی ٹل گئی۔ اس واقعے میں کم از کم تین سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ کئی دہشت گرد مارے گئے۔ ایک خودکش حملہ
آور نے عمارت کے داخلی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑایا، جبکہ اس وقت سینکڑوں اہلکار ایف سی ہیڈکوارٹر کے اندر موجود تھے۔یہ حملہ اسی
نوعیت کے اس حملے سے مشابہ تھا جو رواں ماہ کے آغاز میں وانا کیڈٹ کالج پر کیا گیا تھا، جہاں دہشت گرد کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی مار
دیے گئے تھے۔ جہاں تک پشاور حملے کے ذمہ داروں کا تعلق ہے، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں افغان شہری ملوث تھے، جب کہ بعض
تجزیہ کاروں نے جماعت الاحرار جو کالعدم ٹی ٹی پی کا دھڑا ہے کی شمولیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔اگر واقعی جماعت الاحرار ملوث ہے اور
اس کے اشارے موجود ہیں تو یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس گروہ نے متعدد خونی حملے کیے ہیں، جن میں جنوری 2023 کا پشاور پولیس لائنز سانحہ بھی شامل ہے۔

صوبائی دارالحکومت کے وسط میں ایک محفوظ تنصیب کو نشانہ بنا لینا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سیکورٹی
فورسز کو خفیہ معلومات کے حصول اور انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں میں نمایاں بہتری لانا ناگزیر ہے۔ دہشت گرووں کی جانب سے
پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والایہ حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا
خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں
تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف
پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی
اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا
دیے۔یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ3 مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب ت کیسے پہنچ گئے، اگرچہ
سیکورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟

موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔پاکستان میں دہشت
گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی
ہے۔افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے
گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی
شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے
گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں
سرگرم ہیں افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔

یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے
میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی
اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد
پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں
اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی
مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں
افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری
حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط
ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے
کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں
ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس
سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔بعض حکام نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ دہشت گردوں کو اندر سے معلومات فراہم کی گئی ہوں اس پہلو
کی مکمل تفتیش ضروری ہے۔رواں سال دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے؛ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے
زیادہ متاثر رہے ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق ستمبر تک 950 سے زائد حملوں میں 2,400 سے زیادہ افراد جان سے جا چکے تھے۔ اگر اس
خطرناک رجحان کا رخ پلٹنا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر مؤثر انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔افغان طالبان
پر یہ شبہ اب تقویت پکڑ رہاہے کہ وہ بعض شدت پسند عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں، یہ معاملہ کابل سے بہتر تعلقات کے سامنے سب سے
بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے افغان حکام پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے۔ مگر ہمیں صرف دوسروں کے
قدم اٹھانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اپنی سیکورٹی صلاحیتیں اور بارڈر مینجمنٹ مضبوط کرنا ضروری ہے۔ عسکری و سول اداروں کو مل کر قبل اس کے کہ یہ مزید خون بہائے اس دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنا ہوگا۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی حمایت پر مقبول ترین فلم اسٹرینجر تھنگز 5 کا دنیا بھر میں بائیکاٹ
  • دمشق پر اسرائیلی حملوں میں 10 شامی شہری جاں بحق، متعدد فوجی زخمی
  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • غیر مسلح ہونے کا فیصلہ قومی مذاکرات سے ہوگا، اسرائیل غزہ معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، حماس
  • ایران نے 12 روزہ جنگ میں امریکا اور اسرائیل کو شکست دی، آیت اللہ خامنہ ای
  • ایران نے 12 روزہ جنگ میں امریکا اور اسرائیل کو شکست دی، آیت اللہ خامنہ ای
  • آسٹریلیا نے ایرانی فوج کو دہشت گردوں کی سرپرست قرار دے دیا
  • اسرائیل کو مزید یرغمالی کی لاش سونپ دی گئی، حماس کو 15 فلسطینی کی میتیں موصول
  • سوشل میڈیا اسٹار اذلان شاہ نے دوسری شادی کا اعلان کیا
  • ایک بڑی کارروائی اور حزب اللہ کا فیصلہ!