سٹی 42 : پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران ایک بہت بڑا محاذ جو بیانیہ کا محاذ ہے اس پر پاکستان کو بہت بڑی فتح ملی، بین الاقوامی سطح پر پاکستانی میڈیا کے کردار کو سراہا گیا، صف اول کا کردار آپ صحافیوں کا تھا میں قدر کرتا ہوں۔ 

بلاول بھٹو آج صحافیوں سے ملاقات کے لیے اسلام آباد پریس کلب پہنچ گئے۔  شیری رحمان، شازیہ مری، نیئر بخاری، ندیم افضل چن اور جمیل سومرو  بھی اُن کے ہمراہ پریس کلب موجود تھے ۔ بلاول بھٹو نے اسلام آباد پریس کلب میں شجرکاری بھی کی۔ 

مجوزہ لیوی سے فرنس آئل کی سیل میں واضح کمی ہوگی؛ معاشی تھنک ٹینک

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس موقع پر گفتگو میں کہا کہ آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ سب نے دعوت دی، میں پاکستان کی فتح کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بات دیکھتے ہوئے کہ بھارت ہم سے 7 گنا زیادہ بڑا ہے، اس میں بھارت کو شکست دینا ہماری تاریخی فتح ہے۔ ایک بہت بڑا محاذ جو بیانیہ کا محاذ ہے اس پر پاکستان کو بہت بڑی فتح ملی، نوجوانوں نے جس طرح سوشل میڈیا کا مورچہ سنبھالا اس پر بھی ہمیں فخر ہے۔ 

پنجاب کی حکومت نے صوبے بھر میں دفعہ  144 نافذ کر دی

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کا کردار بھی بہت اچھا رہا، بین الاقوامی سطح پر پاکستانی میڈیا کے کردار کو سراہا گیا، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی جو رپورٹنگ رہی بہت اچھی تھی، بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان میڈیا کی رپورٹس کو مانا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صف اول کا کردار آپ صحافیوں کا تھا میں قدر کرتا ہوں، اپنی کریڈہبیلی پر آپ لوگوں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان سات گنا پیچھے نہیں ہم برابر کھڑے ہیں، پاکستان نے  اپنے ماضی سے انکار نہیں کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم نے صحیح وقت پر پر صحیح فیصلہ لیا، وزیراعظم نے کہا پاکستان بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کے لیے تیار ہیں ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ 

پنجاب میں محرم الحرام کا چاند نظر نہیں آیا

بھارت نے کسی کے ساتھ اپنی معلومات ہی شیئر نہیں کی، بھارت نے جنگ کے دوران نہ صرف میڈیا کے ذریعے بلکہ سفارتکاری ہاٹ لائن کے ذریعے بھی جھوٹ پھیلایا، بھارت کو اپنی کریڈہبیلی کا نقصان ہوا۔ 

بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ پاکستان نے جنگ کے دوران ٹرانس پیرینسی اور کریڈیبلیٹی دیکھائی، وزیر اعظم اگر بروقت فیصلہ نہ کرتے تو بھارت جھوٹا بیانیہ بناتا، بھارت کی کریڈیبلیٹی کو نقصان پہنچایا، بھارت مسلسل جھوٹ بولتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دفاع میں چھ جہاز گرائے، مہینہ بعد بھارت نے تسلیم کیا ہاں شاید کوئی جہاز گرا ہے۔ 

دو عام تعطیلات

انہوں نے کہا کہ سیاستدان کا اثاثہ اسکی زبان کی پاسداری ہے، ہم حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے، پاکستان نے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہمارا بیانیہ دنیا نے تسلیم کیا، دنیا نے پاکستان کے خلاف بھارتی بیانیہ مسترد کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہمیں امن کا نعرہ دی، بھارت کشمیر کو اندرونی ایشو بنانے کی کوشش میں تھا، کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارے درمیان ایسے کوئی مسائل نہیں جو صرف جنگ سے حل ہوں، یہ تمام مسائل بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں، ہمارا یہ بیانیہ تھا، بھارت کا ایک ہی بیانیہ تھا کہ پاکستان ٹیررستان ہے، ہم صرف پاکستان نہیں بھارت کے عوام کا بھی مقدمہ لڑ رہے ہیں، اب مودی چاہتا ہے کہ ہم نسل در نسل لڑیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا جو نفرت کا تقسیم کا پیغام ہے امید ہے کہ اس طرف نہ جائیں ۔ 

محرم کا چانددیکھ لیا گیا، عاشورہ کی تاریخ سامنے آ گئی

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: بلاول بھٹو نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر نے کہا کہ پاکستان انہوں نے کہا کہ پر پاکستان پاکستان نے

پڑھیں:

فیک کاونٹرز اور خواتین کو بطورِ جنگی ہتھیار استعمال کرنا۔۔۔ بھارت کی اخلاقی شکست

اسلام ٹائمز: اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان محض "اظہارِ تشویش" سے آگے بڑھے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی یافتہ ممالک کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلے کو صرف سفارتی نزاکت کے طور پر نہ لیں، بلکہ انسانی وقار، عالمی امن اور انصاف کے تناظر میں دیکھیں۔ یہ ادراک ساری دنیا کو ہونا چاہیئے کہ آزادی کا خواب صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ ہر انسان کا خواب ہے۔ جب ایک خطہ غلام ہوتا ہے تو دراصل پوری انسانیت شرمندہ ہوتی ہے۔ ظلم کیخلاف خاموشی، انصاف کے جنازے میں خاموش شرکت کے مترادف ہے۔ کب تک کشمیری شہید ہوتے رہیں گے۔؟ کب تک معصوم بچوں کی آنکھوں میں بندوقوں کی سنگینیں جھانکتی رہیں گی؟ اور کب تک کشمیریوں کے خلاف خواتین اور فیک کاونٹرز کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔؟ آخر ظلم پر خاموشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم

فروری 1991ء کی ایک سرد رات، بھارتی فوج نے کپواڑہ ضلع کے دو گاؤں، کننن اور پوشپورہ، کا محاصرہ کیا۔ رات بھر جاری رہنے والی کارروائی میں درجنوں خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، جن میں نوعمر لڑکیاں، حاملہ خواتین اور بزرگ خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ واقعہ "Kunan‑Poshpora mass rape" کے نام سے انسانی حقوق کی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کے خلاف بیداری کب آئے گی۔؟ یہ سوال ہر اُس مہاجر کا ہے، جس کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ دنیا کا المیّہ یہ ہے کہ دنیا والے ظلم کو دیکھتے ہیں، لیکن بیدار نہیں ہوتے۔ 1990ء سے 1992ء کے درمیانی عرصے میں کشمیری خواتین پر ہونے والے مظالم ایک الگ ہی سطح پر جا پہنچے۔ بی ایس ایف افسر کی اہلیہ کو اغوا، زیادتی اور قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح ایک نرس، گرِجا ٹیکو اور ایک ہندو خاتون، بابلی رائنا کو جنسی تشدد کے بعد سفاکی سے قتل کیا گیا۔ ان واقعات کا مقصد صرف خواتین کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ پوری کشمیری قوم کو اجتماعی سزا دینا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کو ستتر برس ہوچکے ہیں، لیکن ایل او سی کے دونوں طرف منقسم خاندانوں کو آپس میں ملانے اور جوڑنے کے بجائے مزید  دوریاں پیدا کر دی گئی ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کو نریندر مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا کہ دونوں طرف کے کشمیریوں کے درمیان رشتوں اور ناطوں کو بحال کرنے، دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے اور خطّے کا امن بحال کرنے کے بجائے، غصب، ظلم، نفرت اور دشمنی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستانی قیادت یہ فراموش کرچکی ہے کہ آزادی صرف کشمیریوں کا ایک سیاسی یا جغرافیائی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ ہر انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آزادی کی قدر وہی جان سکتا ہے، جو خود غلامی کے دور سے گزرا ہو۔ ہندوستان بھی کشمیریوں کی طرح تاجِ برطانیہ کی غلامی کا مزہ چکھ چکا ہے، لہذا ہمارے ہندوستانی برادران کو کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو سمجھنے کی شعوری کوشش کرنی چاہیئے۔

بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، وہ کشمیریوں کے ساتھ انتہائی غیر جمہوری برتاو کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نئی مردم شماری، نشستوں کی حد بندی، ڈومیسائل قانون، 56 ہزار ایکڑ زمین پر فوجی قبضہ اور 50 لاکھ ہندوؤں کو کشمیر کا شہری بنانا، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کشمیریوں کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہے۔ اس موقع پر ہندوستانیوں کو چاہیئے کہ وہ کشمیریوں کے اس درد کو محسوس کریں۔ کشمیری دہائیوں سے صرف جسمانی ہی نہیں، فکری اور معاشی قید میں بھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی مزاحمت محض بھارتی ظلم کے خلاف نہیں بلکہ غلامی کے ہر تصور کے خلاف ہے۔ کیا ہندوستانی  دانشور یہ نہیں جانتے کہ جو قوم مرنے کے لیے تیار ہو جائے، اسے کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ کشمیری عوام برسوں سے شہادتیں دے رہے ہیں، وہ مرنے سے نہیں ڈرتے، بلکہ غلامی میں جینے کو عار سمجھتے ہیں۔ ظلم کے خلاف خاموشی، ظلم کی سب سے بڑی حمایت ہے اور یہی خاموشی آج ہر باشعور ہندوستانی کے ضمیر پر سب سے بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکومت نے "rehabilitation policy" کے تحت جن مہاجر کشمیریوں کو واپس مقبوضہ کشمیر بلایا، تو ان کے ساتھ آنے والی کئی خواتین کو سماجی اور قانونی طور پر بار بار انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ان خواتین کے شوہروں اور بچوں کی موجودگی کے باوجود انہیں غیر ملکی قرار دے کر حراست میں رکھا گیا یا جبری طور پر ملک بدر کر دیا گیا۔ اپریل 2025ء میں پہلگام میں قابض فورسز کی طرف سے ہونے والے ایک خود ساختہ حملے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر کئی خواتین کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ یہ تمام واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کی عصمتیں، شناختیں اور زندگیاں اس کالے سیاسی کھیل کا حصہ بنائی گئی ہیں، جس کا مقصد کشمیری قوم کو نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی اور ثقافتی طور پر بھی شکست دینا ہے۔ ظلم کی یہ داستانیں عالمی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہیں، جس کا جواب ہم سب نے خدا  کو دینا ہے۔

دوسری طرف صرف سال 2025ء کے دوران اب تک جعلی مقابلوں میں کم از کم سات بے گناہ کشمیری نوجوان شہید کیے جا چکے ہیں۔ اپریل میں بارامولا میں دو، جولائی میں سری نگر میں تین اور اگست میں جموں میں محمد پرویز نامی نوجوان جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔ الطاف لالی کی شہادت تو ایک کھلی دہشت گردی تھی، جسے دنیا نے دیکھا، مگر آنکھیں موند لیں۔ یہ واقعات کشمیر میں جاری اس ستم رسیدہ تاریخ کا تسلسل ہیں، جس کے دوران 1989ء سے اب تک 7347 کشمیری جعلی مقابلوں اور حراست میں قتل کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہر کشمیری شہید اپنے پیچھے یہ پیغام چھوڑ کر جا رہا ہے کہ اگر میری موت سے قوم جاگتی ہے تو مجھے مرنے دو۔ آج کشمیر کی سرزمین میں یہی پیغام گونج رہا ہے، یہی وہ پیغام ہے کہ جو اس تحریک کا ایندھن ہے۔

اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان محض "اظہارِ تشویش" سے آگے بڑھے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی یافتہ ممالک کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلے کو صرف سفارتی نزاکت کے طور پر نہ لیں، بلکہ انسانی وقار، عالمی امن اور انصاف کے تناظر میں دیکھیں۔ یہ ادراک ساری دنیا کو  ہونا چاہیئے کہ آزادی کا خواب صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ ہر انسان کا خواب ہے۔ جب ایک خطہ غلام ہوتا ہے تو دراصل پوری انسانیت شرمندہ  ہوتی ہے۔ ظلم کے خلاف خاموشی، انصاف کے جنازے میں خاموش شرکت کے مترادف ہے۔ کب تک کشمیری شہید ہوتے رہیں گے۔؟ کب تک معصوم بچوں کی آنکھوں میں بندوقوں کی سنگینیں جھانکتی رہیں گی؟ اور کب تک کشمیریوں کے خلاف خواتین اور فیک کاونٹرز کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔؟ آخر ظلم پر خاموشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا؛ بلاول بھٹو
  • عوام میں اتنی طاقت ہے کہ بھارت سے اپنے تمام 6 دریا واپس چھین سکیں، بلاول بھٹو زرداری
  • ہمارے ہر صوبے کے شہری بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں، بلاول بھٹو
  • جنگ مسلط کی گئی تو مودی کو بتا دیں گے، ہم جھکنے والے نہیں، بلاول بھٹو
  • بھارت نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرکے جنگ چھیڑی اور پھر پاکستان نے اسے مکمل کیا، بلاول بھٹو
  • بھارت نے رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے جنگ چھیڑی اور پھر پاکستان نے اسے مکمل کیا، بلاول بھٹو
  • بھارت کی عالمی تنہائی اور جھوٹا بیانیہ
  • فیک کاونٹرز اور خواتین کو بطورِ جنگی ہتھیار استعمال کرنا۔۔۔ بھارت کی اخلاقی شکست
  •  شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری محض ادب نہیں، بلاول بھٹو 
  • شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری محض ادب نہیں بلکہ روح کی رہنمائی ہے، بلاول بھٹو زرداری