نانگا پربت پر مہم جوئی کے دوران غیر ملکی خاتون کوہ پیما کھائی میں گر کر ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
چیک ریپبلک سے تعلق رکھنے والی 46 سالہ خاتون کوہ پیما kolouchava Klara نانگا پربت سر کرنے والی سات رکنی ٹیم کا حصہ تھیں۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر دیامر نظام الدین کے مطابق غیر ملکی خاتون کوہ پیما کیمپ ون اور کیمپ ٹو کے درمیان اونچائی سے گری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نانگا پربت پر مہم جوئی کے دوران غیر ملکی خاتون کوہ پیما کھائی میں گر کر ہلاک ہو گئیں۔ چیک ریپبلک سے تعلق رکھنے والی 46 سالہ خاتون کوہ پیما kolouchava Klara نانگا پربت سر کرنے والی سات رکنی ٹیم کا حصہ تھیں۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر دیامر نظام الدین کے مطابق غیر ملکی خاتون کوہ پیما کیمپ ون اور کیمپ ٹو کے درمیان اونچائی سے گری ہے۔ نظام الدین نے مزید بتایا کہ جس جگہ خاتون کوہ پیما گری ہے اس جگہ کی لوکیشن ٹریس کی جائے گی اور پھر طے کیا جائے گا کہ تلاش کا کام کیسے شروع کرنا ہے۔ ایڈیشنل ڈی سی کے مطابق جو لوگ خاتون کوہ پیما کیساتھ تھے انہوں نے بیس کیمپ آ کر بتایا کہ خاتون کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ایڈیشنل کمشنر نے بتایا کہ بیس کیمپ سے رابطے میں پہلے مشکلات پیش آرہی تھی تو ابتدائی اطلاعات ایسی تھیں کہ آکسیجن سلنڈر پھٹنے سے خاتون ہلاک ہوئی ہے تا ہم بعد میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ وہ کھائی میں گری جس سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نانگا پربت ہوئی ہے
پڑھیں:
معمر خاتون کے ریپ اور قتل کے 92 سالہ مجرم کو عمر قید کی سزا، 58 سال بعد انصاف کی جیت کیسے ہوئی؟
برطانیہ میں انصاف کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی فیصلہ سامنے آیا ہے، جہاں ایک 92 سالہ شخص رائلنڈ ہیڈلی کو 58 سال پرانے ریپ اور قتل کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ واقعہ جون 1967 میں پیش آیا تھا اور اسے سرد خانے میں ڈالا گیا کیس تصور کیا جا رہا تھا جو کئی دہائیوں تک حل نہ ہو سکا۔
واقعے کی تفصیل75 سالہ لویسا ڈن کو برسٹل کے علاقے ایسٹن میں ان کے گھر میں ہلاک پایا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ خاتون کو پہلے ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گلا دبا کر ہلاک کیا گیا۔ اس وقت پولیس نے وسیع پیمانے پر تحقیقات کیں، جس میں 19,000 مردوں کے ہتھیلی کے نشانات لیے گئے، 1,300 بیانات قلمبند کیے گئے 8,000 گھروں کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تاہم، کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا چنانچہ کیس بند کر دیا گیا۔
جدید ٹیکنالوجی کا کردار: 2023 میں کیس دوبارہ کھلاتقریباً 56 سال بعد، 2023 میں پولیس نے اس کیس کو دوبارہ کھولا۔ جدید فرانزک ٹیکنالوجی کی مدد سے مقتولہ کی اسکرٹ سے ڈی این اے حاصل کیا گیا، جو اس وقت کی ٹیکنالوجی سے ممکن نہ تھا۔
یہ ڈی این اے بعد ازاں رائلنڈ ہیڈلی کے ڈیٹا سے میچ ہوا، جو پہلے 1977 میں 2بزرگ خواتین کے ریپ میں سزا یافتہ رہ چکا تھا۔ اس میچنگ کے بعد، پولیس نے نومبر 2024 میں ہیڈلی کو گرفتار کر لیا۔
فیصلہ اور عدالتی ریمارکسبرسٹل کراؤن کورٹ نے 1 جولائی 2025 کو ہیڈلی کو ریپ اور قتل کا مجرم قرار دیا، اور اگلے دن عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جج ڈیریک سویٹنگ نے کہا:
’آپ نے ایک کمزور، معمر خاتون کے گھر میں گھس کر اس پر جنسی حملہ کیا، اور اس حملے کے دوران اسے بے رحمی سے قتل کیا۔ یہ ایک سفاکانہ اور بے رحم جرم تھا، جس میں انسانی وقار کا کوئی خیال نہ رکھا گیا۔‘
جج نے مزید کہا کہ مجرم کی عمر کے پیشِ نظر وہ اب جیل ہی میں اپنی زندگی کا اختتام کرے گا۔
پرانے شواہد کا دوبارہ جائزہعدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے 20 ڈبوں پر مشتمل پرانا مواد دوبارہ چھانا۔ ان میں سے ایک پرانے ہتھیلی کے نشان کو بھی جدید تکنیک سے جانچا گیا، جو مقتولہ کے گھر کی کھڑکی پر ملا تھا۔ 4 ماہرین نے اس نشان کو ہیڈلی سے میچ کیا۔
ماضی کے جرائم سے مماثلت نے مدد کیہیڈلی نے 1977 میں ایپسوچ کے علاقے میں 2 ضعیف خواتین کو ان کے گھروں میں گھس کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ متاثرہ خواتین میں ایک کی عمر 70 سال اور دوسری کی 80 سال سے زائد تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اگرچہ برطانیہ میں پرانے مقدمات از خود قابلِ قبول نہیں ہوتے، مگر ان جرائم میں غیر معمولی مماثلت نے قائل کیا کہ یہ شواہد قابل توجہ ہیں۔
انصاف کی راہ میں سست روی اور چیلنجزیہ فیصلہ اگرچہ پولیس اور استغاثہ کی عزم، محنت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا مظہر ہے، تاہم برطانیہ میں ریپ کے مقدمات میں سزا کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔
2024 میں 71,227 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے صرف 2.7 فیصد کیسز میں فرد جرم عائد کی گئی۔ پولیس کو ملزم پر فرد جرم عائد کرنے میں اوسطاً 344 دن لگتے ہیں جبکہ عدالتوں کو کیس مکمل کرنے میں اوسطاً 336 دن لگتے ہیں۔
استغاثہ کا مؤقفکراؤن پراسکیکوشن سروس کی وکیل شارلٹ ریئم نے کہا ’ یہ فیصلہ ہماری مستقل مزاجی اور عزم کا ثبوت ہے کہ ہم انصاف کے حصول کے لیے وقت کی قید سے بالاتر ہو کر کام کرتے ہیں۔ یہ کیس ان ہزاروں متاثرین کے لیے امید کی کرن ہے، جنہیں برسوں سے انصاف نہیں ملا۔‘
دیر سے سہی، انصاف ہو گیایہ مقدمہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ انصاف میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن اندھیر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ جرم خواہ جتنا پرانا ہو، سچ بالآخر سامنے آ کر رہتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ مہارت، اور عزم نے ایک 58 سال پرانے زخم پر مرہم رکھا، اور ایک مظلوم کو آخرکار انصاف ملا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ جرم و سزا