سانحہ سوات:کمشنر ملاکنڈ کی رپورٹ میں دریا کا رخ موڑے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) سانحہ سوات سے قبل حفاظتی پشتوں کی مضبوطی کی وجہ سے دریا کا رْخ موڑے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف کمشنر ملاکنڈ کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا جس میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ متاثرہ سیاح 9 بج کر 31 منٹ پر دریا میں گئے اور 14 منٹ بعد 9 بج کر 45 منٹ پر پانی کی سطح بڑھی۔ رپورٹ کے مطابق ریسکیو اہلکار 20 منٹ بعد 10 بج کر 5 منٹ پر جائے وقوع پر پہنچے۔ دوسری جانب دریائے سوات میں ڈوب کر لاپتا ہونے والے لڑکے کی تلاش کے لیے ریسکیو اینڈ سرچ آپریشن ساتویں روز بھی جاری رہا۔ ریسکیو حکام کے مطابق اب تک 12 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے سانحہ سوات پر قائم انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ 23 جون کو بارشوں سے متعلق ضلعی انتظامیہ کو الرٹ جاری کیا تھا جس میں پشاور اور سوات سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں 25 جون سے تیز بارشوں کی پیشگوئی تھی۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ سوات ،دیر ،کوہستان اور شانگلہ کے مقامی ندی نالوں میں فلیش فلڈ سے خبردار کیا تھا، ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی بڑی مشینری کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے کی تمام ضلعی انتظامیہ کو 46 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے تھے، ضلعی انتظامیہ کی ڈیمانڈ پر امدادی سامان بھی فراہم کیا گیا تھا، پی ڈی ایم اے نے اپنا تمام وقت پر مکمل کیا تھا۔ یاد رہے کہ 26 جون کو دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں طغیانی کے باعث 17 افراد بہہ گئے تھے جن میں سے 4کوبچالیا گیا تھا جب کہ 12کی لاشیں مل چکی ہیں اور ایک کی تلاش تاحال جاری ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ضلعی انتظامیہ
پڑھیں:
سانحہ سوات، چیختے لمحوں میں ڈوبتی انسانیت
سانحہ سوات کے مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے۔ وہ مناظر جو روح کو چیر گئے، دل کو زخمی کر گئے۔ ایسا لگا جیسے کوئی تیز دھار نشتر روح میں اتر گیا ہو۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ سانسیں ہوکوں میں الجھ گئیں۔ آنکھیں بے ساختہ نم ہو گئیں۔دریا بپھر چکا تھا۔ وحشت ناک لہریں بد مست ہاتھی کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر رہی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ پانی کی شدت اور درندگی بڑھا رہا تھا۔ ڈسکہ سے سیر کے لیے آئے ایک خاندان کے اٹھارہ افرادمرد، عورتیں اور بچے دریا کے بیچ ایک ٹیلے پر محصور ہو چکے تھے۔ لمحہ بھر پہلے وہ قدرتی حسن کا نظارہ کرنے وہاں پہنچے تھے۔ اس وقت دریا میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا تھا۔ موسم خشک تھا، مطلع صاف۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ دل پر سکون تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ موت ان کے گرد رقص کر رہی ہے۔پھر اچانک دریا کی لہروں میں مستی اور اچھال آ گیا۔ پانی نے رفتار پکڑی۔ جس طرف سے وہ لوگ ٹیلے پر آئے تھے، وہاں بھی پانی برق رفتاری سے بڑھنے لگا۔ یہ فلیش فلڈ تھا۔ ایسی قیامت جو لمحوں میں ٹوٹتی ہے۔ اس ریلے نے انہیں سنبھلنے کا موقع تک نہ دیا۔ پانی نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا۔ خوف کی شدت سے چیخیں بلند ہوئیں۔ خواتین پکارنے لگیں، بچے سسکنے لگے، مرد مدد کے لیے دہائیاں دینے لگے۔ مگر سب بے سود۔کنارے پر لوگ موجود تھے۔ کچھ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے، کچھ ساکت، جیسے بے حسی کا مجسمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے پولیس یا ریسکیو کو فون کیا ہو، مقامی لوگوں سے مدد مانگی ہو۔ لیکن حقیقت یہی رہی کہ کوئی بروقت ان تک نہ پہنچ سکا۔ وہ ٹیلے پر کھڑے، لرزتے، کانپتے، زندہ لاشوں کی طرح، مدد کے لیے پکارتے رہے۔ وقت گزرتا گیا، پانی بڑھتا گیا۔ خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔
بچوں کے ہاتھ ماں کے گریبانوں سے لپٹے ہوں گے، عورتیں اپنے شوہروں کو تک رہی ہوں گی، اور سامنے موت کھڑی ہو گی، منہ کھولے، نگلنے کو تیار۔کسی کمزور نے جب پانی کے بہا ئوکے سامنے دم توڑ دیا ہو گا، تو باقی کتنے بے بسی سے اس کی موت کا منظر دیکھ رہے ہوں گے؟ باپ نے بچے کو بچانے کی کوشش کی ہو گی اور خود بھی بہہ گیا ہو گا۔ ماں، فریاد کرتی، جب آگے بڑھی ہو گی تو لڑکھڑا کر پانی میں جا گری ہو گی۔ لمحہ بہ لمحہ، ایک ایک کر کے سب پانی میں اترتے گئے۔ موت ان کے گرد رقص کرتی رہی اور ہم،بس دیکھتے رہے۔المیہ صرف قدرتی نہیں تھا، انسانی بھی تھا۔ سب جانتے تھے کہ برسات کا موسم ہے۔ بالائی علاقوں میں گزشتہ دو دن سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ دریا میں طغیانی کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو عوام کو بروقت آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے۔ دریا کے قریب جانے اور نہانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے تھی۔ فلیش فلڈ جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ٹیمیں ہمہ وقت الرٹ ہونی چاہیے تھیں۔ وہ جگہ جہاں یہ خاندان دریا برد ہوا، اچانک پانی وہاں سے نہیں نکلا تھا۔ یہ ریلا کئی میل کا سفر طے کر کے پہنچا تھا۔ راستے میں کئی شہر آئے، مگر کسی نے نیچے والوں کو خبر نہ دی۔ کوئی وارننگ جاری نہ ہوئی۔ کیا پورے شہر میں دو درجن لائف جیکٹس بھی موجود نہ تھیں؟ کیا انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانا ممکن نہ تھا؟ دو گھنٹے تک وہ لوگ دریا میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ کیا یہ دو گھنٹے بھی کم تھے؟افسوس کی بات ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے اس لمحے دکھائی نہ دی۔ نہ کوئی منظم ادارہ، نہ کوئی مربوط کارروائی۔ یہ ایک ایسا المیہ تھا جسے روکا جا سکتا تھا، اگر ذمہ دار ادارے جاگ رہے ہوتے۔ اب تحقیقات ہوں گی، بیانات جاری ہوں گے، دو چار افسر معطل کر دیے جائیں گے، اور وقت کے ساتھ یہ واقعہ بھی بھلا دیا جائے گا۔ مگر جن کے پیارے اس ریلے میں بہہ گئے، ان کی آنکھوں سے تو ہر لمحہ ایک سیلاب بہتا رہے گا۔ ان کے دل پر جو بیتی، وہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہو گی۔
یہ واقعہ ریاست کی بے عملی، نااہلی اور غیرذمہ داری پر ایک کالا داغ ہے۔ سیاحتی مقامات پر فلیش فلڈ وارننگ سسٹم موجود ہونے چاہئیں۔ ہر علاقے میں ریسکیو کی تربیت یافتہ ٹیمیں ہمہ وقت موجود ہوں۔ سیاحوں کو محفوظ راستوں اور ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کو آپس میں فوری رابطے کی صلاحیت دی جائے تاکہ وقت پر اطلاع دی جا سکے۔ اگر ان میں سے ایک بھی قدم وقت پر اٹھایا جاتا، تو شاید آج ایک خاندان کے اٹھارہ افراد زندہ ہوتے۔یہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا انسانی جان کی قیمت صرف اخباری بیانوں اور ٹویٹس تک محدود ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یاد رکھیں، کل کسی اور دریا میں، کسی اور ٹیلے پر، کوئی اور خاندان اسی انجام سے دوچار ہو گا۔ اور ہم پھر صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔