اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)حکومت نے نجی شعبے سے 7متحرک وفاقی سیکرٹریز کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہار دے دیا ہے تاکہ وہ مالیات اور توانائی سمیت اقتصادی وزارتوں کی سربراہی کر سکیں۔
نجی ٹی وی  ایکسپریس نیوزکے مطابق  اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیوروکریسی میں ملک کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے جرات اور علم کی کمی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گریڈ 22 کے بیوروکریٹس کو واشنگٹن میں ورلڈ بینک اور منیلا میں ایشیائی ترقیاتی بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے طور پر تعینات کرنے کے لیے نئے نامزد امیدواروں کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک وزارتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اس کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں ایک اشتہار پریس میں شائع ہوا اور اس میں کہا گیا کہ حکومت نے اہم اقتصادی شعبوں میں پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز (PAOs)، ٹیکنیکل ایڈوائزرز اور اداروں کے سربراہان کے کردار کے لیے متحرک اور تجربہ کار پیشہ ور افراد سے درخواستیں طلب کی ہیں۔
دلچسپی رکھنے والے افراد کو اپنی درخواستیں جمع کرانے کے لیے دو ہفتوں کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اگرچہ اشتہار میں ڈویژنوں کے نام نہیں بتائے گئے لیکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ قابلیت کے معیار اور ملازمت کی تفصیلات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت اقتصادی وزارتوں کو چلانے کے لیے نجی شعبے سے سات وفاقی سیکرٹریز کی خدمات حاصل کرنے والی ہے۔
یہ وزارتیں مالیات ڈویژن، پٹرولیم ڈویژن، پاور ڈویژن، منصوبہ بندی ڈویژن، صنعت و پیداوار ڈویژن، نیشنل فوڈ سکیورٹی ڈویژن اور ووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ ہیں۔ یہ ڈویژنز فی الحال پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) کے افسران کے زیر انتظام ہیں۔ سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال ہیں، مومن آغا پٹرولیم سیکرٹری ہیں، فخر عالم عرفان سیکرٹری پاور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، اویس منظور سومرو سیکرٹری منصوبہ بندی ہیں، سیف انجم سیکرٹری صنعت ہیں اور وسیم اجمل چوہدری سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی ہیں۔
رابطہ کرنے پر وزیر برائے اقتصادی امور و اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ نے کہا کہ ابھی تک کوئی مخصوص عہدے حتمی نہیں ہوئے ہیں اور حکومت اہم عہدوں، خاص طور پر اقتصادی وزارتوں کے لیے ماہرین کا ایک پول بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی وزارتیں زیادہ تر PAS کے افسران کے زیر انتظام ہیں اور یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان میں سے بہت سے افسران کو ان اقتصادی معاملات کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ضروری تجربہ حاصل نہیں ہوتا۔
ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ نجی شعبے کا کوئی ایسا شخص جسے سرکاری شعبے کا کوئی تجربہ نہ ہو ان وزارتوں کو مؤثر طریقے سے نہیں چلا سکتا۔ کام کی نوعیت ایسی ہے کہ بعض اوقات سیکرٹریوں کو فیصلے کروانے کے لیے وزیراعظم سے لابی کرنا پڑتی ہے خاص طور پر ان صورتوں میں جہاں متعلقہ وزراء بہت مؤثر نہیں ہوتے۔
بیوروکریٹس کو ایک اور چیلنج یہ درپیش ہے کہ ان کے وزرا بعض اوقات صحیح فیصلے کرنے کی سمجھ یا ہمت نہیں رکھتے۔ وفاقی سیکرٹریز کو اکثر وفاقی وزرا کی جگہ لیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو بیوروکریٹس کو وزیراعظم آفس سے بھی حمایت نہیں ملتی۔ حکومت نے حال ہی میں سیکرٹری تعلیم کو ان کے سرکاری شعبے کی تعلیم کے میدان میں غیر معمولی کام کے باوجود تبدیل کر دیا ہے۔
وزیراعظم کے سابق سیکرٹری اور سابق نجکاری وزیر فواد حسن فواد نے اس اشتہار کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ برا کاریگر اپنے اوزاروں سے ہی جھگڑتا رہتا ہے‘‘ ۔ فواد حسن فواد نے کہا یہ تجویز کام نہیں کرے گی، سرکاری شعبے کی مالیات ایک مختلف میدان ہے،ایسی معیشت جو مستقل خیرات اوربھیک مانگنے پرچلتی ہو وہاں کے سرکاری شعبے کی رکاوٹوں اور مستقل خسارے والی معیشت کے نقد بہاؤ کو سنبھالنے کی بھاری ذمہ داری کو یہ لوگ نہیں سمجھتے۔
یاد رہے ایک سال قبل حکومت نے نجی شعبے سے سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ حکومت نے ابھی تک آئی ٹی سیکٹر کے کام کے بارے میں کوئی کارکردگی رپورٹ جاری نہیں کی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ یہ تجربہ کامیاب رہا یا نہیں۔ اب حکومت ان چنیدہ افراد کے ساتھ دو سال کے لیے"کارکردگی پر مبنی معاہدے" پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ منتخب فرد کا گریڈ اور معاوضہ حکومتی قواعد کے مطابق طے کیا جائے گا اور مارکیٹ کے مسابقتی نرخوں کے مطابق ہوگا۔ اس میں عہدے کے لیے قابل اطلاق الاؤنسز اور مراعات شامل ہوں گی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق امیدواروں کے پاس کم از کم 20 سال کا متعلقہ پوسٹ کی کوالیفیکیشن تجربہ ہونا چاہیے اور تقرری کے وقت ان کی زیادہ سے زیادہ عمر 60سال ہونا چاہیے جسے غیر معمولی صورتوں میں نرم کیا جا سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے مالیاتی شعبے کے لیے ایک PAO کی خدمات حاصل کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ دوسری طرف اطلاع کے مطابق وزیراعظم نے ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدوں کے لیے بی ایس 22کے اہل اور موزوں افسران پر غور کرنے کے لیے ایک وزارتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
یہ عہدے پاکستان کے ورلڈ بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر توقیر شاہ کو وزیراعظم کا مشیر بنائے جانے کے بعد خالی ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر نور احمد کی مدت ملازمت گزشتہ ہفتے ختم ہو گئی تھی۔
کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس بھی اس عہدے کے حصول کی دوڑ میں تھے جنہیں اب انتخاب کے عمل سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرفہرست دعویداروں میں سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، سیکرٹری اقتصادی امور ڈاکٹر کاظم نیاز، اور سیکرٹری داخلہ خرم آغا شامل ہیں۔

ملک بھر میں مون سون سپیل، لاہور سمیت کئی شہروں میں موسلادھار بارش

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ایگزیکٹو ڈائریکٹر وفاقی سیکرٹریز کی خدمات حاصل سرکاری شعبے کرنے کے لیے حکومت نے کے مطابق

پڑھیں:

اشتہار کا معاوضہ: عامر کی مانگ 17 لاکھ، شاہ رخ کی 6 لاکھ، مگر فیصلہ چونکا دینے والا

بالی ووڈ کے تینوں خانز شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان 1990 کی دہائی میں بالی وڈ کے افق پر اُبھرے اور آج تین دہائیوں بعد بھی فلمی دنیا کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ ان تینوں کے درمیان نمایاں فرق ہمیشہ سے محسوس کیا گیا ہے۔  مشہور ایڈ فلم ڈائریکٹر پرہلاد ککڑ نے حالیہ گفتگو میں ان تینوں کے ساتھ کام کرنے کے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے اسی فرق پر روشنی ڈالی ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے کام کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کیے۔

صحافی وِکی لالوانی سے گفتگو کرتے ہوئے پرہلاد ککڑ نے انکشاف کیا کہ ایک اشتہار کے لیے انہوں نے شاہ رخ کے بجائے عامر خان کو ترجیح دی، حالانکہ عامر خان کی فیس شاہ رخ سے 11 لاکھ روپے زیادہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’میں 3 بڑی بیماریوں سے لڑ رہا ہوں‘، بالی ووڈ اداکار سلمان خان کے انکشافات

پرہلاد ککڑ کے مطابق ’میں نے کلائنٹ سے صاف کہہ دیا کہ مجھے شاہ رخ نہیں بلکہ عامر چاہیے۔ اُس وقت عامر 17 لاکھ مانگ رہا تھا جبکہ شاہ رخ خان صرف 6 لاکھ لے رہا تھا، اور وہ بھی اس لیے کہ اُسے اپنے گھر کے لیے اتنی ہی رقم درکار تھی۔ لیکن میرے لیے صرف اداکاری نہیں، بلکہ اس اداکار کے ساتھ جڑی ’امیج‘ بھی اہم تھی۔ عامر کا امیج ایک معصوم اور صاف ستھرے نوجوان کا تھا، جو اس اشتہار کے لیے بالکل موزوں تھا لیکن شاہ رخ میں وہ تاثر اُس وقت موجود نہیں تھا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں ہی خوبصورت اور باصلاحیت اداکار تھے، مگر عامر ’قیامت سے قیامت تک‘ جیسے رومانوی کردار کر چکا تھا، جب کہ شاہ رخ اُس وقت ’راجو بن گیا جینٹل مین‘ جیسے کرداروں میں نظر آیا تھا۔ اسی لیے میں نے عامر کو چُنا، البتہ شاہ رخ کو بھی بعد میں کئی اشتہارات میں استعمال کیا۔ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ یہ دونوں آگے جا کر بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جیسیکا ہائنس سے ناجائز تعلق اور بچہ، عامر خان ڈی این اے ٹیسٹ کرا لیں میرے پاس ثبوت ہیں، بھائی فیصل خان کا دعویٰ

سلمان خان کو ابتدائی دنوں میں اشتہارات کیوں نہیں ملے؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پرہلاد ککڑ نے بتایا کہ شاہ رخ ایک مکمل پروفیشنل اداکار ہے اس کے ساتھ کام کرنا ہمیشہ خوشگوار رہا۔ عامر کے ساتھ بھی تجربہ اچھا رہا، لیکن وہ کچھ زیادہ ہی باریکی پسند ہے۔

سلمان خان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ سلمان کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ابھی معروف نہیں ہوا تھا۔ وہ اکثر میری شوٹنگز پر آتا تھا کیونکہ وہ میری بیوی کا دوست تھا۔ اُس وقت نہ وہ بڑا اداکار تھا، نہ ہی اُس میں سپر اسٹار والا تاثر تھا۔ قد میں بھی کچھ چھوٹا تھا، اور اداکاری میں خاص دم نہیں تھا۔ اسی لیے اُسے ابتدا میں اشتہارات کے لیے نہیں چُنا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی ووڈ سلمان خان شاہ رخ خان عامر خان

متعلقہ مضامین

  • کے یوجے دستور کے تحت خواتین ممبرز کے اعزاز میں تقریب
  • پنجاب حکومت کا عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • ریلوے ڈویژن پشاور کا تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن، اربوں روپے مالیت کی قیمتی ریلوے زمین واگزار کرالی گئی
  • سب انسپکٹر کی بھرتیاں، پنجاب پبلک سروس کمیشن نے اشتہار جاری کردیا
  • ْپاکستان اورفلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • وفاقی حکومت نے سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کو اسلام آباد کلب کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا
  • اشتہار کا معاوضہ: عامر کی مانگ 17 لاکھ، شاہ رخ کی 6 لاکھ، مگر فیصلہ چونکا دینے والا
  • پٹاخوں کے گودام میں دھماکا‘ہوم سیکرٹری ‘مالکان سے جواب طلب
  •   حکومت فوری طور پر نجی شعبے کو گندم امپورٹ کی اجازت دے
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ