عوامی مفاد یا بھارتی ایجنڈے کو تقویت؟ ایکشن کمیٹی بے نقاب ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی آڑ میں احتجاج کرنے والی جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔
آزاد کشمیر میں آج ہڑتال کا تیسرا روز ہے، عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جگہ جگہ اپنے فرائض انجام دینے والی فورسز پر حملے کیے جارہے ہیں، اور اب تک ایک اے ایس آئی سمیت 3 اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی اور آزاد کشمیر حکومت کی عوامی ایکشن کمیٹی کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصوم کشمیریوں کی جانوں کا خون کس کے ہاتھ پر ہے؟ ایکشن کمیٹی کے شرپسندوں نے کھلے عام اسلحہ کا استعمال کیا، بے گناہ شہری شہید کیے۔ اس قتل و غارت گری کی براہِ راست ذمہ دار عوامی ایکشن کمیٹی کی وہ قیادت ہے جو ضد پر اڑی، یہ احتجاج نہیں، فساد ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے 38 میں سے 36 مطالبات مان لیے۔ پھر بھی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال پر ضد کیا ظاہر کرتی ہے؟
کیا یہ عوامی مفاد ہے یا دشمن ملک بھارت کے اشارے پر سیاست اور منصوبہ بند بدامنی کی سازش؟ عوام کو یہ ضرور سوچنا چاہیے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جو احتجاج معصوم خون بہائے اور کاروبار تباہ کرے، وہ عوامی نمائندگی نہیں بلکہ عوام دشمنی ہے۔ عوام لاشوں کی سیاست کرنے والے ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو اچھی طرح پہچان لیں، اس انتشار کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو ہو رہا ہے۔
دشمن کو خوش کرنے والے عوام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے، عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال سے کشمیر کاز عالمی سطح پر کمزور ہوا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی بھارتی ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہے، امن و استحکام ہی ہماری اصل قوت ہے۔
عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ ہڑتال کشمیری عوام کی بہتری کے لیے ہے یا ان کی زندگیوں کو اجیرن بنانے اور دشمن کو مضبوط کرنے کے لیے؟ کاروبار، تعلیم اور صحت کو روکنا عوامی سلامتی پر براہِ راست حملہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی املاک کو جلانے والے دراصل اپنی ہی قوم کے دشمن ہیں، معصوم جانوں کا ضیاع، کاروبار کی تباہی اور امن و امان کا بگاڑ عوامی ایکشن کمیٹی کی سیاست کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ اس وقت فی الفور مذاکرات کی میز پر آنے کی ضرورت ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کشمیریوں کی نہیں بلکہ دشمن کی زبان بول رہی ہے، عوام کو چاہیے کہ اشتعال انگیزی کو مسترد کریں۔
جب زیادہ تر مطالبات تسلیم ہو چکے، تو بقیہ کے لیے عوام کی جان و مال داؤ پر کیوں لگائی جا رہی ہے؟ یہ احتجاج نہیں، بلکہ منصوبہ بند بدامنی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنی ہٹ دھرمی فوراً ختم کرنی ہوگی ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر: عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلح شرپسندوں کا پولیس پر حملہ، 3 اہلکار شہید
معصوم کشمیریوں کی قربانیوں کو انتشار اور لاشوں کی سیاست سے بدنام نہ کیا جائے، اصل راستہ پرامن احتجاج، مذاکرات اور ملک کے استحکام کا ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی کا ہڑتال پر اصرار عوام کو کمزور اور دشمن کو مضبوط کر رہا ہے۔
ہڑتال، غنڈوں کی جانب سے اسلحہ استعمال اور معصوم شہریوں کی شہادت یہ عوامی ایکشن کمیٹی کا حقیقی چہرہ ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت براہِ راست طور پر اس خون ریزی کی ذمہ دار ہے، فی الفور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر اصل چہرہ بے نقاب بھارتی ایجنڈا عوامی ایکشن کمیٹی عوامی حقوق وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اصل چہرہ بے نقاب بھارتی ایجنڈا عوامی ایکشن کمیٹی عوامی حقوق وی نیوز عوامی ایکشن کمیٹی کی عوام کو کے لیے
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں پر تشدد احتجاج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251004-03-2
بعد از خرابیٔ بسیار، آخر کار وزیر اعظم کو آزاد جموں و کشمیر میں جاری احتجاج کی نزاکت کا احساس ہو گیا ہے اور انہوں نے پر تشدد واقعات میں دوطرفہ جانی و مالی نقصان کے بعد ہدایت جاری کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین سے غیر ضروری سختی نہ برتیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش اور سخت نوٹس لیتے ہوئے شہریوں سے پر امن رہنے کی زور دار اپیل کی اور کہا ہے کہ ان کا ہر جائز مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔ جمعرات کو وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، تاہم مظاہرین امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی جذبات کا احترام یقینی بنائیں اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی سے اجتناب برتیں۔ حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ وزیر اعظم نے مظاہروں کے دوران ہونے والے ناخوشگوار واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم نے احتجاجی مظاہروں سے متاثرہ خاندانوں تک فوری امداد پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ مزید براں وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ مذاکراتی کمیٹی مسائل کا فوری اور دیر پا حل نکالے۔ وزیر اعظم نے ایکشن کمیٹی کے اراکین اور قیادت سے اپیل کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے تعاون کیا جائے، کمیٹی اپنی سفارشات اور مجوزہ حل بلاتاخیر وزیر اعظم آفس کو بھجوائے گی تاکہ مسائل کے فوری تدارک کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ وزیر اعظم نے وطن واپسی پر مذاکرات کے عمل کی نگرانی کا اعلان کر دیا۔ ادھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال چوتھے روز بھی جاری رہی اور مظاہرین کی ایک بڑی تعداد مظفر آباد کے لال چوک میں ان افراد کی میتوں کے ہمراہ موجود رہی جو ایکشن کمیٹی کے مطابق احتجاج کے دوران مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ احتجاج کے چوتھے روز بھی کشمیر کے مختلف مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں جب کہ پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کر لیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ تب تک میتوں کی تدفین نہیں کریں گے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔ اس سے قبل مظفر آباد میں کم از کم دو افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کی غرض سے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی مظفر آباد پہنچ گئی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ طارق فضل چودھری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستانی اعلیٰ سطح کے وفد کے مظفر آباد میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے باضابطہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ حکومتی وفد میں شامل وفاقی وزراء میں امیر مقام، طارق فضل چودھری، راناثناء اللہ، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، سردار یوسف، احسن اقبال اور مسعود شامل ہیں۔ وفاقی وزراء اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ آزاد جموں و کشمیر میں احتجاج اور خرابی کی یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہو گئی۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے عوام کے حقوق اور علاقے کی گورننس کی صورتحال کی بہتری کے لیے کافی عرصہ سے مطالبات پیش کیے جا رہے تھے مگر حکومت انہیں سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں تھی جس پر ایکشن کمیٹی نے 29 ستمبر سے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال اور پہیہ جام کی کال دے دی جس کے پہلے ہی روز دارالحکومت مظفر آباد کے اہم تجارتی مرکز لوئر پلیٹ میں نیلم سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا۔ جس پر لوگوں میں اشتعال پھیلنا لازمی تھا چنانچہ مشتعل مظاہرین نے مرحوم نوجوان کی میت اٹھا کر احتجاج شروع کر دیا۔ نوجوان کے قتل کا الزام مسلم کانفرنس کے رہنما ثاقب مجید پر عائد کیا گیا اور مرحوم نوجوان کی تدفین کو ثاقب مجید کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے مشروط کر دیا۔ مسلم کانفرنس کے رہنما ثاقب مجید نے بھی نوجوان کو اپنے گارڈز کی گولی لگنے سے انکار نہیں کیا بلکہ یہ موقف اختیار کیا کہ مظاہرین نے ان کی گاڑیوں اور محافظوں پر پتھرائو کیا اور گولی بھی چلائی جس کے جواب میں ان کے محافظوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی اور نوجوان اس فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گیا۔ ثاقب مجید کا بیان درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال اہم ہے کہ جب لوگ مشتعل تھے تو ثاقب مجید اور ان کے محافظوں کو ان کے قریب جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے محافظوں کی فائرنگ سے ہی نوجواں جاں بحق ہوا تو اس کے قتل کا مقدمہ درج ہونا توعین قانون اور انصاف کا تقاضا ہے جس سے انتظامیہ گریزاں اور انکاری ہے۔ انتظامیہ کے اسی رویہ کی وجہ اور ریاست کی رٹ کو ہر صورت برقرار رکھنے کے دعوئوں کے درمیان تین پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد کی جانیں جانے اور سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں اس قدر جانی نقصان کے باوجود ارباب اقتدار، بیورو کریسی اور پولیس حکام اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور دھونس اور ڈنڈے کے زور پر معاملات پر قابو پانے پر بضد ہیں چنانچہ اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب کے باہر عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہرہ کے بعد کارکنوں کی گرفتاری کے لیے کلب کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے دھاوا بول دیا۔ کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ کی اور وہاں موجود صحافیوں اور کلب کے کارکنوں پر لاٹھیاں برسائیں اور ملازمین کو بلاوجہ گرفتار کر لیا۔ اس پولیس گردی کے خلاف ملک بھر کے صحافی اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں ملک بھر کے پریس کلبوں میں جمعہ کے روز احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور کلیوں کی عمارتوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ صحافی برادری نے اس پولیس گردی کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے واقعہ میں ملوث پولیس حکام اور اہلکاروں کی برطرفی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے جو بھاری بھر کم مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے ارکان میں سے بھی بعض نے ماحول کی کشیدگی کم کرنے کے بجائے ایکشن کمیٹی کے ارکان اور مظاہرین کو دشمن کے آلۂ کار اور امن دشمن کے القابات دے کر جلتی پر تیل ڈالنے کا فریضہ ادا کیا ہے جب کہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ تشدد سے معاملات سلجھتے نہیں الجھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومتی ذمے داران کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ تشدد معاملات بگاڑنے کا باعث ہے تو پھر حکومت کی جانب سے اس کا سلسلہ جاری کیوں رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات ہوں یا دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں کے، ہمارے حکمران انہیں احتجاج کی راہ پر جانے سے پہلے ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے بروقت معاملات کو سلجھا کر ملک و قوم کا سرمایا منفی کاموں پر استعمال ہونے سے بچانے اور دوطرفہ جانی و مالی نقصان کو روکنے پر وقت سے پہلے توجہ کیوں نہیں دیتی؟؟