اسرائیل ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے: گریٹا تھنبرگ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
ایتھنز (ویب ڈیسک) سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے کہا ہے کہ ہم پر جو ظلم ہوا وہ اہم نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
گریٹا سمیت گلوبل صمود فلوٹیلا سے گرفتار کیے گئے درجنوں کارکنان اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد یونان پہنچ گئے جہاں ان کا فلسطین کے حامی افراد نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔
گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ میں بالکل واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ غزہ میں ایک نسل کُشی جاری ہے، بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ جنگی جرائم کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، ہم نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے ذریعے وہ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی جو ہماری حکومتیں انجام دینے میں ناکام رہیں۔
سوئٹزرلینڈ واپس پہنچنے والے 9 کارکنوں نے الزام لگایا کہ اسرائیلی حراست میں انہیں نیند سے محروم رکھا گیا، پانی اور خوراک نہیں دی گئی اور بعض کو مارا پیٹا گیا اور پنجروں میں بند کیا گیا۔
ہسپانوی کارکنوں نے بھی ملک واپسی پر اسرائیلی فوج کی جانب سے بدسلوکی کے الزامات عائد کیے، وکیل رافائیل بورریگو نے میڈرڈ ائیرپورٹ پر صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے ہمیں مارا، زمین پر گھسیٹا، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں، ہاتھ پاؤں باندھے، پنجروں میں رکھا اور گالیاں دیں۔
سویڈش کارکنوں نے کہا کہ گریٹا تھنبرگ کو زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا، جبکہ دیگر کو صاف پانی اور کھانے سے محروم رکھا گیا اور ان کی دوائیں اور ذاتی سامان ضبط کر لیا گیا۔
گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ ہم پر جو ظلم ہوا اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کر سکتی ہوں، لیکن یہ اہم بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل اس وقت نسل کُشی کے ارادے سے ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی امداد کو غزہ تک پہنچنے سے روکا ہے جبکہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: گریٹا تھنبرگ کہ اسرائیل نے کہا کہ کی کوشش
پڑھیں:
پاکستان، اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-03-3
(1)
جاوید انور
1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل کی چڑھائی کی۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور سابق امریکی سفارت کاروں کے مطابق یہ آپریشن امریکی اشارے پر ہوا تھا۔ جب بھارت کو مکمل طور پر امریکی کیمپ میں منتقل کرنے اور اس کی معیشت بڑی امریکی کمپنیوں کے لیے کھولنے کے مقاصد پورے ہو گئے تو واشنگٹن نے مشرف کو واپسی کا حکم دے دیا۔ کارگل کے ساتھ ہی مشرف کا پروفائل بلند کیا جا رہا تھا کیونکہ 9/11 کے فوراً بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور امریکا کو پاکستان میں پارلیمنٹ نہیں، صرف ایک شخص سے ڈیلنگ چاہیے تھی۔ وہ شخص پاک فوج کا سربراہ ہوتا ہے، ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
چند ماہ بعد اکتوبر 1999ء میں مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا۔ یہ قدم بھی واشنگٹن کی ملی بھگت سے اٹھایا گیا۔ مشرف کے اسرائیل اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے قدیم تعلقات تھے۔ 1993-95ء میں میجر جنرل کے عہدے پر وہ بے نظیر بھٹو کے وفد کے رکن کی حیثیت سے کئی بار امریکا گئے۔ اسی عرصے میں انہوں نے واشنگٹن میں خفیہ طور پر بے نظیر کو موساد کے افسران اور اسحاق رابن کے خصوصی ایلچی سے ملاقات کرائی (یہ بات متعدد ذرائع اور سابق سفارت کاروں نے بیان کی ہے، دیکھیے ویکی پیڈیا، انگریزی)۔ اس دور میں ہی ان کے شوکت عزیز سے گہرے دوستانہ تعلقات استوار ہوئے جو سٹی بینک کے عالمی سربراہ تھے۔
9/11 کے بعد مشرف واحد مطلق العنان حکمران تھے۔ انہوں نے امریکی حملے کے لیے پاکستان کی تمام فضائی، بحری اور زمینی سہولتیں فراہم کیں۔ اسلامی امارت افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو اسلام آباد سے اغوا کرکے سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ سفارتی تاریخ کی بدترین بدمعاشی تھی۔ مشرف نے خود اپنی سوانح عمری ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں لکھا ہے کہ سیکڑوں (بعض اندازوں کے مطابق ہزاروں) پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو صرف ڈاڑھی یا مذہبی لباس کی بنیاد پر پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ سابق سی آئی اے آفیسر جان کرائکو نے اپنے ایک بھانڈا پھوڑ (Whistle Blowing) انٹرویو (اے این آئی؍ یوٹیوب) میں کھل کر کہا: ’’ہم نے بنیادی طور پر مشرف کو خرید لیا تھا۔ پاکستانی آئی ایس آئی اور فوج کو کیش میں کروڑوں ڈالر دیے۔ آمروں سے ڈیلنگ آسان ہوتی ہے کیونکہ میڈیا اور عوامی رائے کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔ مشرف نے ہمیں جو چاہے کرنے دیا‘‘۔
’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر وزیرستان اور فاٹا میں امریکی ڈرون حملے، مدرسوں پر بمباری، ہزاروں شہری ہلاکتیں، سب کچھ پاکستانی ریاستی مشینری کی آشیرباد سے ہوا۔ یہ سلسلہ آج بھی مختلف ناموں سے جاری ہے کیونکہ اس میں بے پناہ ڈالر آتے ہیں۔ 2019ء کا پلواما، بالاکوٹ ڈراما بھی اسی تسلسل کا حصہ تھا۔ سابق گورنر مقبوضہ جموں و کشمیر ستیہ پال ملک نے 2023ء میں دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سی آر پی ایف کے قافلے پر حملے کی 11 سے زائد انٹیلی جنس وارننگز تھیں، ہوائی جہاز مانگا گیا مگر جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ مقصد؟ مودی کو قومی ہیرو بنانا تاکہ لوک سبھا انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے جیتیں۔ بالاکوٹ میں بھارت نے کوئی دہشت گرد کیمپ تباہ نہیں کیا، چند درخت گرے، مگر مودی کو مطلوبہ ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا لیبل مل گیا۔ ابھینندن کو فوری رہا کرنا بھی اسی اسکرپٹ کا حصہ تھا۔ بھارت، پاکستان، امریکا اور اسرائیل سب ایک پیج پر تھے۔ اب 2025ء میں مئی کے وسط میں ہونے والی چار روزہ پاک، بھارت فضائی لڑائی اور اس کے فوراً بعد سیز فائر، کیا واقعی کوئی اتفاقیہ واقعہ تھا؟ یا پھر جنرل عاصم منیر کا قد کاٹھ بلند کرنے، انہیں ’’فیلڈ مارشل‘‘ کا درجہ دینے، 27 ویں ترمیم کے ذریعے طاقت کا ارتکاز ان کے ہاتھوں میں دینے اور آنے والے بڑے ایڈونچر کے لیے زمین ہموار کرنے کا مرحلہ تھا؟
یہ بڑا ایڈونچر کیا ہو سکتا ہے؟ افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف نیا آپریشن، ابراہم اکارڈز کی قبولیت، پاکستان کا اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرنا، اور ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستانی فوج کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت۔ ظاہری تصویروں، بیانات اور واویلا کے باوجود زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ بھارت ہو یا پاکستان، دونوں ممالک کی فوجی (بھارت میں سیاسی) قیادتیں ایک ہی بیرونی طاقتوں کے مفادات کی زنجیر سے جکڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں27 ویں آئینی ترمیم نے آخری رکاوٹ بھی ختم کر دی ہے۔ اب واشنگٹن کو نہ پارلیمنٹ سے سروکار ہے، نہ میڈیا سے، نہ عوام سے۔ بس ایک فون کال کافی ہے۔ اور لنچ بہت ’’پرلطف‘‘ ہو سکتا ہے۔
(خونیں لنچ کی حقیقت اور آنے والا خونریز پلان اگلی قسط میں)