پنجاب یونیورسٹی میں کالے شیشوں والی گاڑیوں پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (آن لائن) پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے کیمپس میں کالے شیشوں والی گاڑیوں کے داخلے پر مکمل پابندی عاید کر دی ہے۔ اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ نے باضابطہ سرکلر بھی جاری کر دیا ہے۔ جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ یونیورسٹی میں پہلے سے موجود اور مستقبل میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں پر لاگو ہوگا۔ کسی بھی فرد، خواہ وہ استاد، افسر، ملازم یا طالبعلم ہو، کو کالے شیشے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔انتظامیہ نے تمام شعبہ جات کے سربراہان، اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ یونیورسٹی حکام کا کہنا ہے کہ سرکلر کے بعد اگر کسی گاڑی میں کالے شیشے دیکھے گئے تو اس کے خلاف فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔واضح رہے کہ آج 8 اکتوبر کو پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو 20 برس گزر چکے ہیں، جس کی خوفناک یادیں آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پنجاب میں جنگلی حیات اور نباتات کا بڑا سروے، پرندوں کے تخمینے سیلاب سے متاثر ہونے کا امکان
لاہور:پنجاب میں حیاتیاتی تنوع کے ایک بڑے سروے کے تحت خشکی اور پانی میں رینگنے والے جانداروں کے بعد اب نباتات کا سروے تقریباً مکمل کرلیا گیا ہے، جبکہ مہاجر پرندوں کے سروے کا آغاز 21 اکتوبر سے متوقع ہے۔
تاہم ماہرینِ حیاتیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلابی صورتحال کے باعث پرندوں کے درست تخمینے لگانا ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ آبی و زمینی ماحولیاتی نظام میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے پاکستان میں جاری نیشنل سروے پروگرام کے مطابق یہ منصوبہ صوبے بھر میں جنگلی حیات، نباتات، پرندوں، ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں کے اعداد و شمار کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ریڈ ڈیٹا بک میں شامل کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
پراجیکٹ کے نیشنل مینجر عاصم جمالنے بتایا کہ پنجاب کے پانچ میں سے چار زونز میں سروے مکمل کیا جا چکا ہے۔ رینگنے والے جانوروں کا سروے مون سون کے دوران کیا گیا کیونکہ یہ وہ موسم ہے جب زیادہ تر ریپٹائلز زمین کے اندر سے باہر نکل آتے ہیں۔
ان کے مطابق، نباتات کا تقریباً 90 فیصد سروے مکمل ہوچکا ہے، جبکہ پرندوں کا سروے اکتوبر کے تیسرے عشرے میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
عاصم جمال نے خبردار کیا کہ حالیہ سیلاب سے مہاجر پرندوں کی آماجگاہیں متاثر ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں سروے کے دوران پرندوں کی تعداد یا انواع کے درست تخمینے میں مشکلات پیش آئیں گی۔
ان کے مطابق پہلا سروے ابتدائی ڈیٹا فراہم کرے گا تاہم حقیقی رحجانات جانچنے کے لیے کم از کم تین سال مسلسل سروے ناگزیر ہے تاکہ افزائش، ہجرت اور بقا کے بدلتے رجحانات واضح ہوسکیں۔
پنجاب وائلڈلائف سروے پروگرام کے ڈائریکٹر اور ایڈیشنل چیف وائلڈلائف رینجر مدثر حسن نے تصدیق کی کہ یہ منصوبہ 30 جون 2026 تک مکمل ہوگا۔
ان کے مطابق پنجاب میں پہلی بار اس نوعیت کا منظم اور جدید سائنسی آلات پر مبنی سروے کیا جا رہا ہے۔
وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ عام طور پر محدود پیمانے پر سروے کرتا رہا ہے مگر آئی یو سی این کی ریڈ بک کے لیے وسیع اور معیاری ڈیٹا ناگزیر ہے۔”
اس وقت آئی یو سی این کی ریڈ بک میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی کئی نایاب اقسام شامل ہیں، جن میں انڈس ڈولفن، مگرمچھ، انڈین پینگولین، بارہ سنگھا، پنجاب اڑیال، چنکارا، نیل گائے اور دھول (سون کتا) شامل ہیں۔
پرندوں میں ہوبارہ بسٹرڈ، سفید پشت والی گدھ، لمبی چونچ والی گدھ، سرخ سر والی گدھ اور سفید سر والی بطخ درج ہیں، جبکہ نباتات میں مرجان کی اقسام اور رینگنے والے جانداروں میں کالا تالابی کچھوا اور گھڑیال شامل ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زوالوجی کے سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ مہاجر پرندوں کا سروے اکتوبر کے بجائے نومبر میں شروع کرنا زیادہ مؤثر ہوگا کیونکہ اس وقت زیادہ تر پرندے اپنی عارضی آماجگاہوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ سیلاب نے کچھ ماحولیاتی علاقوں کو متاثر کیا ہے لیکن زیادہ تر سروے ایسے مقامات پر کیا جا رہا ہے جو براہِ راست متاثر نہیں ہوئے۔
مہاجر پرندے عام طور پر دریاؤں کی ڈاؤن اسٹریم میں بسیرا کرتے ہیں اور لینڈنگ سے قبل پانی کی سطح کا معائنہ کرتے ہیں۔
عاصم جمال کے مطابق، انہوں نے وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ کو تجویز دی ہے کہ ایک بار کے سروے پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ عملے کو جدید آلات اور ڈیٹا کلیکشن کے طریقوں میں تربیت دی جائے تاکہ مستقبل میں مقامی ٹیمیں خود یہ کام جاری رکھ سکیں۔
ان کے بقول سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات اور ڈی جی وائلڈلائف پنجاب نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے اور اس وقت عملے کی تربیت کے سیشنز جاری ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر سروے کے تین مسلسل سال کامیابی سے مکمل کر لیے گئے تو پنجاب کا ماحولیاتی ڈیٹا نہ صرف عالمی معیار کے مطابق ہوگا بلکہ یہ خطے میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی پالیسیوں کے لیے بنیادی حوالہ بھی ثابت ہوگا۔