جنوری 2023 میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن، نیپرا کا کے الیکٹرک پر بھاری جرمانہ عائد
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
ملک میں جنوری 2023 کے دوران ہونے والے بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن پر نیپرا نے کے الیکٹرک پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا۔
نیپرا کے مطابق کے الیکٹرک کی آپریشنل ذمہ داریوں میں ناکامی ثابت ہوئی جس پر کے الیکٹرک کو 2 کروڑ 50 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
نیپرا کے مطابق کے الیکٹرک کی وضاحتیں پاؤر بریک ڈاؤن کا جواز فراہم نہیں کرتیں، جنوری 2023 کے بریک ڈاؤن کی ذمہ داری صرف نیشنل گرڈ پر ڈالنا درست نہیں، کے الیکٹرک اپنے سسٹم کی کمزوریوں اور خامیوں کا ذمہ دار ہے۔
کے الیکٹرک کی جوابات غیر اطمینان بخش اور ناقابل قبول قرار دیے گئے۔ اتھارٹی نے کے الیکٹرک کو 15 روز کے اندر عائد جرمانہ جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔
نیپر کے فیصلے میں کہا گیا کہ لو سسٹم انرشیا کا حوالہ تکنیکی طور پر درست مگر ناکافی ہے، لائسنس ہولڈر کی جانب سے بلیک اسٹارٹ صلاحیت کی وضاحت غیر مؤثر ہے۔ بلیک اسٹارٹ مشق کے باوجود حقیقی بحران میں ناکامی ہوئی وار بار بار ٹرپنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حفاظتی اقدامات مؤثر نہیں تھے، بلیک اسٹارٹ پلانٹ کی تکنیکی خامیاں بدستور برقرار رہیں۔
نیپرا نے کے الیکٹرک جواب کا جائزہ لینے کے بعد سماعت کا موقع فراہم کیا۔ سماعت 14 نومبر 2024 کو ہونا تھی لیکن کے ای کی درخواست پر مؤخر کی گئی۔ اتھارٹی نے دوبارہ سماعت 20 مارچ 2025 کو نیپرا ہیڈ آفس میں کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے الیکٹرک بریک ڈاؤن
پڑھیں:
پاک افغان تجارتی بندش: پاکستان کو فائدہ، افغانستان کو بھاری نقصان
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی بندش نے جہاں پاکستان کے لیے فوائد پیدا کیے ہیں، وہیں افغانستان کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان نے اپنے راستے بند کر دیے ہیں جو کہ اسمگلنگ، منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور دہشت گردی کے بنیادی ذرائع تھے۔ اس فیصلے کا مقصد قومی سلامتی، معاشی استحکام اور ریاستی رٹ کو مضبوط بنانا تھا، اور یہ فیصلہ طویل مدت میں پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
افغانستان، جس کی معیشت اور تجارت پاکستان کی سڑکوں اور بندرگاہوں پر منحصر ہے، اس بندش سے شدید متاثر ہوا ہے۔ افغانستان کی 70 سے 80 فیصد تجارت پاکستان کے راستوں سے ہوتی تھی۔ کراچی کے راستے سامان 3 سے 4 دن میں پہنچتا تھا، جب کہ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے راستوں سے یہ عمل کئی گنا سست ہو جاتا ہے، اور سامان کو افغانستان پہنچنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اسمگلنگ کا سامان پاکستان میں آ رہا تھا، جس سے پاکستان کو سالانہ 3.4 کھرب روپے کا نقصان ہوتا تھا، اور افغان ٹرانزٹ سے تقریباً 1 کھرب روپے کا سامان واپس آ جاتا تھا، جو اضافی نقصانات کا سبب بنتا تھا۔ طورخم کی بندش کے بعد افغانستان کو ایک ماہ میں 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، اور چند ہفتوں میں یہ نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
بارڈر پر 5,000 سے زائد ٹرک پھنسے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں افغان فصلیں اور پھل ضائع ہو گئے جو پاکستان کی منڈی میں آنے والے تھے۔ ایران کے راستے تجارتی لاگت 50 سے 60 فیصد بڑھ گئی، اور ہر کنٹینر پر اضافی کرایہ 2,500 ڈالر لگا۔ افغانستان کی 50 فیصد سے زائد ادویات پاکستان کے راستے آتی تھیں، اور اب متبادل راستے سست، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت پر مزید دباؤ پڑا ہے۔
اسمگلنگ رک جانے سے 2 لاکھ سے زائد خاندان بے روزگار ہو گئے، جو اسمگلنگ، بیک فلو اور انڈر انوائسنگ کے ذریعے روزگار حاصل کرتے تھے۔ افغانستان سے تجارتی بندش کا پاکستان پر تقریباً کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ اسمگل ہو کر آنے والی اشیاء لگژری سامان تھیں، جو کہ عوامی ضرورت کی چیزیں نہیں تھیں۔ پاکستان کے پاس CPEC اور چین کے ساتھ براہِ راست زمینی راستے موجود ہیں، جو اسمگلنگ نیٹ ورک کو توڑنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یہ تجارتی بندش افغانستان کے مشرقی صوبوں (پکتیا وغیرہ) کی تجارت کو ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی طرف موڑنے میں مدد دے گی، جس سے افغانستان کی معیشت میں تنوع آئے گا اور اس کی اقتصادی شمولیت بڑھے گی۔ طویل المدتی طور پر، یعنی 5 سے 10 سال میں، پاکستان بھی اس بندش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اب افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کو تحفظ دیتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی کے سفر میں شریک ہوتے ہیں۔