پاک سعودی عرب معاہدہ: طاقت کے توازن کی نئی تعبیر
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
گزشتہ ماہ ستمبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک غیر معمولی پیش رفت نے نہ صرف خطے کے تجزیہ کاروں کو چونکا دیا بلکہ عالمی طاقتوں کے تھنک ٹینک بھی اس پر گہری نظر رکھنے لگے ہیں۔ یہ پیش رفت اتنی اہم تھی کہ اس کے بعد تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
دنیا کی بڑی انٹیلی جنس ایجنسیاں، امریکا سے بھارت تک، ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہیں کہ پاکستان کے کسی دوسرے ملک سے تعلقات میں ہونے والی پیش رفت کی قبل از وقت خبر انہیں مل جائے۔ اگر انہیں ذرا سا اشارہ بھی مل جائے تو وہ پسِ پردہ ایسی پیش رفت کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں تاکہ یا تو پیش رفت، معاہدہ لٹک جائے یا پھر مطلوبہ نتائج فراہم نہ کرسکے۔ اس طرح وہ اپنی ’’کامیابی‘‘ پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور فخر سے قہقہے لگاتے ہیں۔
مگر لگتا ہے کہ اس بار معاملہ پاکستان اور سعودی عرب کے دشمنوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ معاہدے کے بارے میں مخالف قوتوں کو اس وقت خبر ملی جب وزیرِاعظم شہباز شریف کا طیارہ سعودی فضاؤں میں داخل ہوا۔ اور تب منظر کچھ یوں تھا کہ سعودی عرب کے جنگی طیارے پاکستانی وزیراعظم کے طیارے کے گرد حصار بنائے ہوئے تھے، فضاؤں میں سلامی دی جا رہی تھی، اور زمین پر دونوں ممالک کے پرچم ساتھ لہرا رہے تھے۔ دونوں برادر ممالک کے ہاں باہمی شاندار، مضبوط تعلقات کے گیت گائے جا رہے تھے، ریاض اور اسلام آباد دونوں سبز و سفید روشنیوں میں نہائے ہوئے تھے، اور یہی لمحہ تھا جب دشمنوں کے ماتھے پر بل پڑنے لگے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دشمنوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔
بھارت کے لیے تو شاید یہ جھٹکا زیادہ شدید تھا۔ ایک جانب پاکستان فضائیہ کے ہاتھوں اس کی فضائی ناکامی، دوسری طرف امریکی حکومت کی طرف سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ’ٹرمپ ٹیکس‘، اور اب پاکستان اور سعودی عرب کا ہمہ پہلو معاہدہ، جس کی ایک ہی سطر نے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بدل ڈالا کہ جو پاکستان سے دشمنی کرے گا، اسے سعودی عرب کی دشمنی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔اور جو سعودی عرب کی طرف میلی نظر اٹھائے گا، اسے پاکستان کے شدید غیظ و غضب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
بھارت جو خود کو خطے کا چوکیدار سمجھنے کے خبط میں مبتلا تھا، اس اچانک تبدیلی کے بعد توازن کھو بیٹھا ہے۔
جس روز معاہدے کا اعلان ہوا، بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا ٹویٹ پڑھنے کے قابل تھا ، الفاظ میں سفارتی احتیاط تھی مگر لہجے میں خوف صاف جھلک رہا تھا۔
بھارتی تجزیہ کار اب تک اسی سوال پر سر کھجا رہے ہیں کہ آخر یہ سب ہوا کیسے؟
اپنی کامیابی کو دشمن کی نظر سے دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ کامیابی کس قدر غیرمعمولی ہے۔
بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ محض عسکری تعاون کا معاہدہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بڑے جیوپولیٹیکل مفادات پوشیدہ ہیں۔ معاہدے کے عملی پہلو بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، یہ طے ہے کہ سعودی پاکستانی دفاعی تعاون نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی طاقت کے توازن کو نئی سمت دے گا۔
بعض تجزیہ کاروں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد یہ معاہدہ طے پایا، مگر ایسا ہرگز نہیں۔ ایسے معاہدے چند دنوں میں نہیں لکھے جاتے۔ جیسا کہ ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا:
’یہ معاہدہ کئی برسوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی مخصوص ملک یا واقعے کے ردِعمل کے طور پر نہیں بلکہ ہمارے دو ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کا عمل ہے۔‘
بلاشبہ، اس معاہدے کے اثرات محض دفاع تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ معیشت، توانائی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری جیسے کئی شعبوں پر بھی نمایاں اثر ڈالیں گے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک اسٹریٹجک بریک تھرو ہے، ایک ایسا موقع جہاں سفارت کاری اور اعتماد نے مل کر خطے کی سیاست میں نیا باب رقم کیا ہے۔
یہ تعاون اسی جذبے سے آگے بڑھتا رہے گا، جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں وسعت اختیار کریں گے بلکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا نقشہ بھی بدلے گا۔ اور یہی وہ بات ہے جو بہت سوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔
یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عالمی طاقتوں کے تزویراتی کھیل میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں اپنی الگ الگ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک جوہری طاقت، دوسرا توانائی کا مرکز۔ جب یہ دونوں ممالک باہمی اعتماد، معاشی تعاون اور دفاعی شراکت کے رشتے کی گہرائی میں مزید اترتے ہیں تو صرف دو ممالک نہیں بلکہ پورے خطے کا سیاسی و معاشی توازن بدلنے لگتا ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے میں، جہاں مشرقِ وسطیٰ نئی صف بندیوں سے گزر رہا ہے اور جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں، وہاں پاک سعودی اشتراک ایک توازن ساز عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔
یہ معاہدہ دراصل ایک نئے سفارتی بیانیے کی بنیاد رکھتا ہے جس میں پاکستان اپنی روایتی جغرافیائی حیثیت سے آگے بڑھ کر علاقائی استحکام کے ضامن کے طور پر ابھر رہا ہے، اور سعودی عرب محض تیل کی معیشت نہیں بلکہ ایک تزویراتی شراکت دار کے روپ میں سامنے آ رہا ہے۔
جب سے یہ تاریخی معاہدہ ہوا ہے، کوئی ایک روز ایسا نہیں گزرتا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے باہم رابطے نہ ہوتے ہوں۔ وفود آ رہے ہیں، وفود جا رہے ہیں۔ ان دنوں ایک اہم ترین سعودی وفد پاکستان دورے پر ہے۔ اور اس ماہ کے اختتام پر وزیراعظم شہباز شریف ایک بار پھر سعودی عرب جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین سرگرمیاں کبھی اس قدر زیادہ نہیں ہوئیں، جتنی اب ہو رہی ہیں۔
انشااللہ اب دونوں ممالک اس موقع کو پائیدار ترقی، صنعتی شراکت اور مشترکہ دفاعی منصوبوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہوں گے، اس کے نتیجے میں یہ معاہدہ صرف آج کی خبر نہیں بلکہ آنے والی دہائیوں کی تاریخ بن جائے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم پاک سعودی تاریخی دفاعی معاہدہ عبیداللہ عابد پاکستان اور سعودی عرب کے جنوبی ایشیا میں دونوں ممالک نہیں بلکہ یہ معاہدہ ممالک کے پیش رفت رہے ہیں جا رہے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھائی چارے پر مبنی تعلقات کی باقاعدہ شکل ہے؛ وزیراعظم
ویب ڈیسک : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھائی چارے پر مبنی تعلقات کی باقاعدہ شکل ہے، پاک سعودی تعلقات کاروبار اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر مزید مضبوط بنائیں گے۔
سعودی پاکستان جوائنٹ بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کیے کئی دورے کرچکا مگر حالیہ دورہ بالکل منفرد تھا، سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے لیے بے مثال محبت دکھائی، ہم آج یہاں ایک خاندان کی طرح بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کا تعلق غیرمتزلزل اور مستقل عزم پر مبنی ہے۔
پاکستان میں8 اکتوبر کو آنیوالے تباہ کن زلزلے کو 20 برس بیت گئے، خوفناک یادیں آج بھی ذہنوں پر نقش
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ کاروباری خواب حقیقت بنانے کیلئے تعاون کریں، تجارت، سرمایہ کاری، تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں مشترکہ اقدامات آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں سعودی عرب سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ موقع میسر ہے، وقت اور حالات کسی کا انتظار نہیں کرتے ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگا، سعودی عرب بھی ہمیں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے، ولی عہد محمد بن سلمان کی متحرک اور وژنری قیادت نے سعودی معاشرہ بدل کر رکھ دیا۔
ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا کا سلسلہ جاری، 2 لاکھ 17ہزار سے زائد شہری مستفید
انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے جان قربان کرنے کو تیار ہے، مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ہمیشہ محافظ رہیں گے۔