ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
نوبیل لفط سویڈش سائنس دان الفریڈ نوبیل( Alfred Nobel)کے نام سے منسوب ہے ۔دنیا کی سب سے معزز اور متنازع ترین اعزازات میں سے ایک ”نوبیل امن انعام”ہر سال عالمی توجہ کا مرکز بنتا ہے ۔ یہ وہ انعام ہے جو صرف کسی شخص کی کامیابی کا اعتراف نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں امن، مفاہمت اور عالمی تعاون کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ نوبیل انعام پانے والے افراد نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ تاہم جب بات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہو تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ واقعی امن کے علمبردار کے طور پر اس عالمی اعزاز کے اہل قرار دیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ ماہرین کی اکثریت اس خیال کی تائید نہیں کرتی کہ ٹرمپ کے ریکارڈ یا ان کے طرزِ عمل میں وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو نوبیل کمیٹی کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔
نوبیل امن انعام کے معیار واضح ہیں۔ یہ ان افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پائیدار امن، تنازعات کے حل، انسانی حقوق کے تحفظ، یا بین الاقوامی تعاون کے فروغ میں حقیقی کردار ادا کیا ہو۔ اس حوالے سے تاریخ میں نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، مادر ٹریسا، کوفی عنان، اور حالیہ برسوں میں ابی احمد یا ملالہ یوسفزئی جیسے شخصیات کے نام اس ایوارڈ کو وقار بخشتے ہیں۔ ان تمام شخصیات میں ایک قدر مشترک ہے کہ انسانیت کے لیے قربانی، مفاہمت اور اخلاقی جرات۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی کیریئر ان اصولوں کے برعکس تضادات سے بھرا نظر آتا ہے ۔
ٹرمپ کی صدارت( 2017۔2021) کے دوران امریکہ نے جس خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کیا، اسے ماہرین نے America First یعنی سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی کہا۔ یہ ایک قومی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی تھی جس میں عالمی اداروں، معاہدوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو اکثر پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ ٹرمپ نے اقوام متحدہ، نیٹو، پیرس ماحولیاتی معاہدے ، اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں پر تنقید کرتے ہوئے امریکی انخلا یا تعاون میں کمی کا اعلان کیا۔ ان کے ان اقدامات کو بین الاقوامی تعاون کے بجائے عالمی انزوا (Isolationism) کی علامت سمجھا گیا۔ یہ طرزِ عمل نوبیل امن انعام کے بنیادی فلسفے سے میل نہیں کھاتا، جو عالمی یکجہتی اور اجتماعی امن کے فروغ پر مبنی ہے ۔ٹرمپ کے دورِ حکومت میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں کچھ پیش رفت ضرور دیکھی گئی۔ اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان ”ابراہام معاہدات”کے نتیجے میں تعلقات معمول پر آئے ، جسے ان کے حامی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ معاہدے وقتی نوعیت کے تھے ، کیونکہ ان میں فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو نظرانداز کیا گیا، جو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بنیادی شرط ہے ۔ نوبیل کمیٹی ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتی ہے کہ امن کی کوششیں کتنی جامع، پائیدار اور انسانی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں یہ پہلو کمزور دکھائی دیتا ہے ، کیونکہ ان کی ترجیحات سیاسی اور انتخابی مفادات سے جڑی ہوئی تھیں، نہ کہ عالمی امن سے ۔ مزید برآں، ٹرمپ کی داخلی پالیسی نے بھی عالمی سطح پر ان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ نسل پرستی کے واقعات، امیگریشن قوانین کی سختی، میکسیکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر، مسلم ممالک پر سفری پابندیاں، اور بلیک لائیوز میٹر تحریک کے دوران ان کا سخت رویہ اُن کے امن پسند ہونے کے تصور کو کمزور کرتا ہے ۔ نوبیل انعام دینے والی ناروے کی کمیٹی ہمیشہ اس بات کو دیکھتی ہے کہ امیدوار کے اقدامات صرف سفارتی میز تک محدود نہیں بلکہ انسانی حقوق اور اخلاقی اصولوں کے مطابق بھی ہوں۔ٹرمپ کے رویے اور بیانات اکثر اشتعال انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والے رہے ۔ انہوں نے سیاسی مخالفین، میڈیا، حتیٰ کہ اپنے اتحادی ممالک کو بھی عوامی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے عہد میں امریکہ کے اندر سیاسی و سماجی تقسیم میں اضافہ ہوا، جس کا مظاہرہ 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگریس پر حملے کے دوران ہوا۔ اس واقعے نے ٹرمپ کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا کہ آیا وہ جمہوری اقدار کے محافظ ہیں یا اقتدار کی کشمکش میں جمہوری اصولوں کو قربان کرنے والے ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کے بیشتر مبصرین نے سمجھ لیا کہ ٹرمپ کی شخصیت امن کے تصور سے ہم آہنگ نہیں۔
نوبیل امن انعام کے امیدواروں کی فہرست ہر سال سینکڑوں ناموں پر مشتمل ہوتی ہے ، جن میں سیاستدان، تنظیمیں، اور سماجی کارکن شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا نام 2020 میں چند حامیوں کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا، مگر ماہرین کے نزدیک نامزدگی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی شخص انعام کے معیار پر پورا بھی اترتا ہو۔ نوبیل کمیٹی کے اراکین نامزدگی کے بعد کئی ماہ تک تفصیلی جائزہ لیتے ہیں، امیدوار کے سابقہ اقدامات، پالیسیوں، اور ان کے عالمی اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس بار بھی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق، ایسے افراد کو فوقیت دی جائے گی جنہوں نے پائیدار امن، انسانی بحرانوں کے خاتمے ، یا ماحولیاتی تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا ہو اور ٹرمپ ان زمروں میں فطری طور پر کمزور دکھائی دیتے ہیں۔یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ نوبیل انعام محض سفارتی بیانات یا وقتی معاہدوں کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کے لیے اخلاقی تسلسل اور انسانی خدمت کا ریکارڈ درکار ہوتا ہے ۔ ٹرمپ کے دور میں اگرچہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات ایک تاریخی قدم تھا، مگر اس کے بعد امن مذاکرات کا کوئی دیرپا نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ اسی طرح ایران کے جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں امن کی بنیادوں کو کمزور کیا جائے ، وہاں انعام کی توقع رکھنا حقیقت سے فرار کے مترادف ہے ۔
غیر ملکی میڈیا اور سیاسی مبصرین کے مطابق نوبیل کمیٹی کی حالیہ سمت ان شخصیات کی طرف ہے جو ماحولیاتی تبدیلی، انسانی حقوق، اور عالمی تعاون میں عملی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ اس سال کا ایوارڈ کسی ایسے فرد یا تنظیم کو دیا جائے جو عالمی بحرانوں، مثلاً یوکرین جنگ، فلسطین انسانی المیے ، یا ماحولیاتی تباہی کے حل کے لیے فعال کردار ادا کر رہی ہو۔ ٹرمپ کی پالیسیوں میں ان میں سے کسی مسئلے کے لیے کوئی مثبت مثال نہیں ملتی، بلکہ ان کے دور میں ان بحرانوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ٹرمپ کے ناقدین کے مطابق ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی قیادت کا انداز ہے ، جو مفاہمت کے بجائے محاذ آرائی پر مبنی ہے ۔ نوبیل امن انعام کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار امن کے فروغ کا استعارہ بنے ، نہ کہ اختلافات کی علامت۔ ٹرمپ نے اپنی سیاست میں جیت یا ہار کی ذہنیت اپنائی، جب کہ امن ہمیشہ درمیانی راستے اور قربانی کے فلسفے پر قائم ہوتا ہے ۔اگرچہ ٹرمپ کے حامی اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بنیاد رکھی، مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو وہ بنیاد کھوکھلی ثابت ہوئی ہے ۔ نوبیل کمیٹی کے لیے فیصلہ ہمیشہ تاریخ کے تناظر میں ہوتا ہے ، نہ کہ سیاسی مصلحت کے لحاظ سے ۔ اس لحاظ سے ماہرین کا یہ کہنا درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبیل امن انعام حاصل کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے ۔
دنیا کو اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو طاقت کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتی ہو۔ نوبیل کمیٹی کے فیصلے کے بعد یہ پیغام مزید مضبوط ہوگا کہ امن محض نعرہ نہیں بلکہ کردار کا تقاضا ہے ۔ امریکہ سمیت تمام طاقتور ممالک کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ عالمی امن صرف اپنے مفاد کے گرد نہیں گھوم سکتا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو بھی ایسے رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو امن کی سیاست کو عملی شکل دیتے ہیں۔ یہی نوبیل امن انعام کا اصل مقصد ہے ۔انسانیت کے لیے پائیدار امن، نہ کہ اقتدار کے لیے وقتی مصلحت۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نوبیل امن انعام کے نوبیل کمیٹی کے کے مطابق ٹرمپ کے ہوتا ہے ٹرمپ کی اور ان کے لیے امن کے امن کی
پڑھیں:
دنیا میں اللہ کی حاکمیت چاہتے ہیں‘ کسی قاتل کو نوبل انعام کیلیے نامزد نہ کیا جائے‘ سراج الحق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (صباح نیوز) سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ امریکا کے باغیوں کی پوری دنیا کی قیادت ایک نئی صبح کی تلاش میں یہاں جمع ہے ہم ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل ہو، جس میں کشمیر اور فلسطین کو آزادی نصیب ہوگی اور ہم اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ کو وطن لانے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسی عدالت چاہتے ہیں جہاں عام آدمی کو انصاف ملے۔ ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جہاں غریبوں کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت ملے۔اجتماع عام کے دوسرے روز ’’جہان نو ہورہا ہے پیدا‘‘کے عنوان سے آخری سیشن میں 45ممالک سے آئے ہوئے 120مندوبین نے شرکت کی۔سیشن سے اخوان المسلمون کی نمائندے بزرگ رہنما شیخ حمام سعید،رہنما حکمران جماعت ملائشیا سے ڈاکٹر مازلی ملک، مراکش سے سربراہ تحریک التوحیدوالااحسان سید ڈاکٹر اوس رمال،برطانیہ سے نومسلم خاتون سماجی رہنما نورین بوتھ، ترکیی سے سعادت پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاتح اربکان،مرکزی رہنماحماس خلیل الحیہ،برازیل سے تھیاگوایویلا رہنما صمود فلوٹیلا،عراق سے ابواوس اخوان المسلمون کے شیخ اسماعیل،نیلسن منڈیلا کی ساتھی ڈاکٹر فرینک چکا، جنوبی افریقا سے اسلامک لبریشن فرنٹ فلپائن رہنما مورو اسماعیل ابراہیم، نائب امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش پروفیسر مجیب الرحمن، بوسنیا سے علیجاہ عزت بیگوچ پارٹی پروفیسر یحیٰ، رہنماآل پارٹیزحر یت صدر تحریک کانفرنس کے نمائندے پروفیسر غلام محمد صفی،تیونس سے رہنما تحریک النہضہ ڈاکٹر علی بن عرفہ،قائد علماء فلسطین شیخ مروان، برہان کایا بیکن،رکن ترک پارلیمنٹ نمائندہ صدر اردگان ڈاکٹرانس تکریتی، صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر حفیظ الرحمن ودیگر نے خطاب کیا۔اس موقع پر شیخ علی محی الدین قرعہ داغی نے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کو یادگاری شیلڈ پیش کی جبکہ ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر آصف لقمان قاضی نے نطامت کے فرائض انجام دیے۔سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اجتماع عام کے دوسرے روز ’’جہان نو ہورہا ہے پیدا‘‘کے عنوان سے آخری سیشن سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حافظ نعیم الرحمن کی ٹیم کو خراج تحسین اور شاباشی دیتا ہوں جنہوں نے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر علامہ اقبال کے خواب کے مطابق امت کے رہنماؤں کو جمع کیا۔اجتماع میں امریکا اور اس کے حواریوں کے باغی جمع ہیں اور امت مسلمہ کو جوڑرہے ہیں،ہم ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جس میں حاکمیت صرف اور صرف اللہ کی اور نظام اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ہو۔ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں قاتل کو نوبل پرائز کے انعام کے لیے نامزد نہ کیا جائے ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں طبقاتی نظام رائج نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور افغان کے لوگوں نے قربانیاں دے کر شہنشائیت کا دور ختم کیا۔پاکستان میں بھی وہ دن ضرور آئے گا جب جاگیرداروں، وڈیروں اور خانوں کی اجارہ داری ختم ہوگی۔اجتماع عام میں دنیا بھر میں مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں کے سربراہان نے شرکت کی جن میں صدر الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قطرشیخ علی محی الدین قرہ داغی،مرکزی رہنما، حماس خلیل الحیہ،قائد علماء فلسطین شیخ مروان،رہنما، کشمیر سے آل پارٹیز حریت صدر تحریک کانفرنس کے نمائندے پروفیسر غلام محمد صفی،اردن سے بزرگ رہنما، مصر سے نائب مرشد عام، اخوان المسلمون ڈاکٹر حلمی الجزار،ترکی سے سربراہ، سعادت پارٹی ڈاکٹر فاتح اربکان،ترکی سے پارلیمنٹرین، جماعتِ صدر اردوان برہان کایاتْرک،نائب، رفاہ پارٹی ڈاکٹر دوآن بیکن،الجزائر سے نائب صدر، حرکتہ مجتمع السلم ڈاکٹر ناصر حمدادوش،سوڈان سے سربراہ، اخوان المسلمون شیخ عادل علی اللہ،سینیگال سے نائب صدر، تحریک عباد الرحمن مبنگے تلہ،صومالیہ سے شیخ احمدرہنماشیخ محمد،بوسنیا سے نمائندہ، علی عزت بیگووچ کی جماعت پروفیسر یحییٰ،مقدونیہ سے سعید رمضانی،مونٹی نیگرو سے امام جماعت امام ڈزتیمو،فلپائن سے رہنما، مورواسلامک لبریشن فرنٹ اسماعیل ابراہیم،ملائیشیا سے ڈائریکٹر امور خارجہ، حزب اسلامی ڈاکٹر خلیل عبدالہادی،ملائیشیا سے وزیر، صوبہ کلانتان حاجمہ ممتاز،انڈونیشیا سے رہنما، جسٹس پارٹی جزولی جوینی،برطانیہ سے ڈاکٹر انس التکریتی،فلسطین سے پروفیسر ڈاکٹر سامی العریان،دانشور،سربراہ، رفاہی ادارہ منیر سعید،امریکا سے کشمیری رہنماڈاکٹر غلام نبی فائی،برطانیہ سے کشمیری رہنمامزمل ایوب ٹھاکر،چین سے ڈاکٹر وکٹر گاؤ دانشور،امریکا سے پروفیسر، جارج واشنگٹن یونیورسٹیپروفیسر جان اسپیٹو،امریکا سے سماجی کارکنشان کنگ،بوسنیا سے دانشورپروفیسر یحییٰ ملاحاصلووچ،ملائیشیا سے سربراہ، تحریک اکرام بدلی شاہ،مصر سے ڈاکٹر محی الدین الزایط،برطانیہ سے سابق صدر، یو کے اسلامک مشنڈاکٹر زاہد پرویز،امریکا سے سابق صدر، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکاڈاکٹر محمد یونس،ترکی سے اسپیکر، قومی اسمبلی نعمان قرطلمش شامل تھے۔