ذہنی مسائل میں مصنوعی ذہانت کا کردار، ماہرین نے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے کے موقع پر ذہنی صحت کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی پلیٹ فارمز نے ذہنی دباؤ کے شکار افراد کے لیے فوری رہنمائی اور جذباتی سہارا فراہم کیا ہے، مگر اس رجحان کے ساتھ متعدد خطرات بھی سامنے آئے ہیں۔
اے آئی کی سب سے بڑی خوبی یہی سمجھی جاتی ہے کہ یہ بغیر کسی تعصب کے فوری جواب دیتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اسے ایک ’’آن کال تھراپسٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک دبئی کے رہائشی نے گمنامی کی شرط پر بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ بات چیت ان کے لیے جذباتی دباؤ کے اظہار کا ایک محفوظ ذریعہ بن گئی ہے۔ تاہم، وہ خود بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا اے آئی کا یہ ساتھ ہمیشہ مفید اور صحت مند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اپنے دوست کو کیسے قتل کروں؟‘، چیٹ جی پی ٹی سے مدد مانگنے پر نوجوان گرفتار
ماہر نفسیات ڈاکٹر دکشا لانگانی کا کہنا ہے کہ اے آئی کی آسان دستیابی اور مفت خدمات نے اسے مقبول بنایا ہے، خاص طور پر ایسے معاشروں میں جہاں ذہنی صحت کے علاج کی لاگت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اے آئی کے پاس مریض کے مکمل سیاق و سباق کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے غلط تشخیص کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، اے آئی غیر لفظی اشارے جیسے جسمانی زبان کو سمجھنے سے قاصر ہے، جو کہ انسانی تھراپی کا اہم حصہ ہے۔
ذہنی صحت کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسانی تھراپی کا عمل محض بات چیت تک محدود نہیں بلکہ مریض کو خود غور و فکر اور جذباتی برداشت کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے، جو اے آئی پلیٹ فارمز فراہم نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: مالی مشکلات سے تنگ ہیں؟ جانیے چیٹ جی پی ٹی کیسے آپ کی مدد کرسکتا ہے
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ’اے آئی سائیکوسس‘ کے خطرے کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں لوگ اے آئی کو حقیقی اور باہمی تعلقات کی جگہ سمجھنے لگتے ہیں، بعض افراد اسے ’محبت‘ یا ’دیوتا‘ سمجھ بیٹھتے ہیں، جو ذہنی صحت کے لیے شدید خطرہ ہے۔
سیم آلٹمین، چیف ایگزیکٹو آف اوپن اے آئی نے بھی خبردار کیا ہے کہ صارفین کو چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ماڈلز پر مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اے آئی بعض اوقات غلط باتیں گھڑ لیتا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہونی چاہیے جس پر آپ کم سے کم بھروسہ کریں۔
اس تناظر میں ماہرین کی رائے ہے کہ اے آئی ذہنی صحت کی مدد کے لیے ایک معاون ٹول ہو سکتا ہے لیکن انسانی تھراپسٹ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ذہنی صحت کے مسائل کی پیچیدگی اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنا ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی تھیراپسٹ چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی تھیراپسٹ چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت چیٹ جی پی ٹی ذہنی صحت کے اے ا ئی کے لیے
پڑھیں:
جین زی کمزور ترین پاس ورڈز استعمال کرنے والی نسل قرار؛ ماہرین پریشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ہر شخص اپنی نجی معلومات، تصاویر، مالی لین دین اور روزمرہ رابطوں کے لیے آن لائن سسٹمز پر انحصار کرتا ہے، وہاں پاس ورڈ ایک ایسی بنیادی حفاظتی دیوار ہے جس کی مضبوطی پر ہی صارف کی پرائیویسی اور ڈیٹا کی سلامتی قائم ہوتی ہے۔
تازہ تحقیقی رپورٹ نے اس حوالے سے نوجوان نسل کے رویّے پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اگرچہ عمومی تاثر یہ ہے کہ جین زی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے، مگر رپورٹ نے بتایا کہ یہ نسل پاس ورڈ کے انتخاب میں نہایت لاپروائی کا مظاہرہ کررہی ہے، بلکہ ان کے منتخب کردہ پاس ورڈز اتنے غیر محفوظ ہیں کہ انہیں سیکنڈوں میں توڑا جاسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں کے مطابق پاس ورڈ مینیجمنٹ ٹولز تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی نے ہزاروں صارفین کے استعمال شدہ پاس ورڈز کا جائزہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان طبقے کی اکثریت اب بھی ’12345‘ یا ’123456‘ جیسے پاس ورڈز استعمال کر رہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر جب انہیں مزید ہندسوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو وہ بھی سیدھی ترتیب میں ایک سے سات یا ایک سے نو تک کے نمبروں کو ملا کر پاس ورڈ بنالیتے ہیں۔ ماہرین اسے سب سے کمزور اور خطرناک طرزِ عمل قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایسے پاسورڈز عام ہیکنگ سافٹ ویئر کے ذریعے چند لمحوں میں ٹوٹ سکتے ہیں۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ 1997 کے بعد پیدا ہونے والے افراد اپنی یادداشت پر کم بھروسا کرتے ہیں اور اس وجہ سے غیر پیچیدہ، آسان اور یاد رہ جانے والے پاسورڈز کا انتخاب کرتے ہیں جو درحقیقت انہیں ہیکرز کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سابقہ نسلیں، خصوصاً 1946 سے 1964 کے درمیان پیدا ہونے والے لوگ بھی یہی نمبرز استعمال کرتے تھے، مگر اُس دور میں ٹیکنالوجی کی رفتار، ڈیٹا کی نوعیت اور ہیکنگ کے ہتھکنڈے اتنے پیچیدہ نہیں تھے، اسی لیے ان پاس ورڈز کو اُس وقت نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آگاہی مہمات، میڈیا کمپینز اور مختلف پلیٹ فارمز پر چلائے جانے والے سیکورٹی الرٹس کے باوجود نوجوانوں نے اپنی پاس ورڈ عادات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی۔ اگرچہ کچھ صارفین نے غیر روایتی ہندسوں، علامات اور بڑے حروف کے امتزاج سے نئے پاس ورڈز تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کی تعداد اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیق میں امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ہزاروں افراد کا ڈیٹا شامل تھا جن میں زیادہ تر جین زی شامل تھے، اور ان سب کا رجحان تقریباً ایک جیسا پایا گیا۔
ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نئے دور کی نوجوان نسل پاس ورڈ کے بجائے بائیومیٹرک سیکورٹی، پاس کیز، فیس آئی ڈی، فنگر پرنٹ اور ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن جیسے جدید حفاظتی طریقے استعمال کر رہی ہے، جس سے ان کے اکاؤنٹس کے براہِ راست ہیک ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، تاہم کمزور پاس ورڈ کا استعمال اب بھی ایک سنگین کمزوری ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔