یورپ میں 10 فیصد ڈاکٹر اور نرسیں اپنی جان لینے پر مائل، وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ یورپ میں طبی عملہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے جہاں ہر 10 میں سے ایک ڈاکٹر یا نرس نے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات کی تصدیق کی ہے۔۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
یہ چشم کشا نتائج ڈبلیو ایچ او یورپ اور یورپی کمیشن کے اشتراک سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے سامنے آئے جو اکتوبر 2024 سے اپریل 2025 کے دوران 29 یورپی ممالک میں کی گئی۔
اس تحقیق میں تقریباً ایک لاکھ افراد سے رائے لی گئی جن میں ڈاکٹرز، نرسز اور مریض شامل تھے۔
’ذہنی صحت کا بحران دراصل صحت عامہ کا بحران ہے‘یورپ میں ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہینز کلوگے نے صورتحال کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طبی عملے میں ذہنی صحت کا بحران محض ایک ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر عوامی صحت کے نظام کی پائیداری کے لیے خطرہ ہے۔
مزید پڑھیے: پنجاب میں ہزاروں نرسز بھرتی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران نہ صرف مریضوں کی دیکھ بھال کے معیار کو متاثر کرے گا بلکہ مستقبل میں طبی شعبے میں اعداد و شمار کے لحاظ سے شدید انسانی وسائل کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
خودکشی کے خیالات اور ذہنی دباؤ کے عواملتحقیق کے مطابق 25 ففیصد طبی عملہ ہفتے میں 50 گھنٹے سے زائد کام کرتا ہے۔
ایک تہائی طبی کارکنوں کی ملازمت عارضی بنیادوں پر ہے جس سے روزگار کا عدم تحفظ اور ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔
ڈاکٹروں اور نرسوں میں خودکشی کے خیالات عام لوگوں کے مقابلے میں 2 گنا زیادہ پائے گئے۔
10 فیصد طبی عملے نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں انہیں موت یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات آئے۔
مزید پڑھیں: کتنے پاکستانیوں کو ایک ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرس کی سہولت میسر ہے؟
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ تقریباً ایک تہائی ڈاکٹرز اور نرسیں اپنے کام کے دوران تشدد یا بدسلوکی کا سامنا کرتی ہیں جبکہ طویل اوقاتِ کار اور دباؤ کے ماحول نے ان میں ڈپریشن اور ذہنی تھکن کو عام کر دیا ہے۔
نوکری چھوڑنے کے رجحان میں اضافہمطالعے کے مطابق یورپ میں 11 سے 34 فیصد طبی کارکنان اپنی ملازمت چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔
اس رجحان سے مریضوں کو نہ صرف طویل انتظار کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ معیاری طبی نگہداشت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ویمن نرسنگ کالج جو تعمیر ہونے کے 19 برس بعد فعال نہیں ہوسکا
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو 2030 تک یورپ کو تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار طبی کارکنوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اصلاحات کی ضرورت: سفارشات کیا ہیں؟رپورٹ میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے کئی اہم اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جن میں کام کی جگہ پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی، ورک شفٹ نظام میں اصلاحات تاکہ عملے کو مناسب آرام میسر ہو، ذہنی صحت کی سہولیات تک آسان اور معیاری رسائی اور روزگار کے استحکام کے لیے مستقل ملازمتوں کا فروغ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: ایئر انڈیا حادثہ: روزگار کی خاطر گھر سے دور جانے والی نرس بھی بدقسمت مسافروں میں شامل
ڈاکٹر ہینز کلوگے کا کہنا ہے کہ طبی عملے کی ذہنی اور جسمانی فلاح و بہبود صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک محفوظ، معیاری اور دیرپا صحت کے نظام کی بنیاد ہے۔
مثبت پہلواگرچہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں تاہم رپورٹ کے مطابق تین چوتھائی ڈاکٹرز اور دو تہائی نرسز اب بھی اپنے پیشے کو باعزت، بامقصد اور اہم سمجھتے ہیں جو امید کی ایک کرن ضرور ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر اور نرس ڈاکٹروں میں خودکشی کا رجحان نرسوں میں خودکشی کا رجحان یورپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر اور نرس ڈاکٹروں میں خودکشی کا رجحان نرسوں میں خودکشی کا رجحان یورپ ڈبلیو ایچ او کے خیالات یورپ میں اور نرس کے لیے
پڑھیں:
سی ڈی اے کی جانب سے بغیر ادائیگی لوگوں سے زمین لینے کا انکشاف
کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے بغیر ادائیگی لوگوں سے زمین لینے کا انکشاف ہوا ہے۔
قومی اسمبلی کی داخلہ کمیٹی کا اجلاس راجا خرم نواز کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیئرمین سی ڈی اے نے شرکت کی۔
اجلاس میں کمیٹی رکن آغا رفیع اللّٰہ نے چیئرمین سی ڈی اے سے ٹیلی فون نمبر مانگا تو انہوں نے صاف انکار کردیا، اس معاملے پر قادر پٹیل نے سی ڈی اے افسر اسفند یار کی سرزنش کی۔
اس موقع پر کمیٹی رکن ملک ابرار نے کہا کہ سی ڈی اے بغیر ادائیگیوں کے لوگوں سے زمین لے لیتی ہے، محکمے نے لوگوں سے پورے پورے گاؤں خالی کروائے، جو لوگ متاثرین ہیں، اُن کا معاملہ تو حل کریں۔
کمیٹی رکن انجم عقیل نے کہا کہ والدین بوڑھے اور بچے جوان ہو گئے ہیں، سی ڈی اے نے اب تک معاوضہ نہیں دیا، میرے حلقے کے کچھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 25 سال پہلے سال 2000ء میں 8 لاکھ قیمت رکھی گئی تھی، اب تک یہ رقم ادا نہیں کی گئی، پوچھتا ہوں اتنے سالوں کے بعد بھی کیا ان افراد کو 8 لاکھ ہی ملیں گے؟
انجم عقیل نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ سال بھی اس پر آواز اٹھائی تھی لیکن کوئی حل نہیں ہوا، 1800 سے زائد افراد کو آج تک رقم ادا نہیں کی جا سکی۔
اُن کا کہنا تھا کہ کابینہ کے فیصلے کے باوجود اس معاملے میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس ایشو کو آج اٹھایا ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کمیٹی کے روبرو کہا کہ شرکاء کو آدھی معلومات فراہم نہیں کرنا چاہتا ہوں، مجھے ممبر اسٹیٹ کے آنے کا انتظار کرنے دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی لیے درخواست کی ہے کہ آج کا وقت دیا جائے، جس کا حق ہے اُسے ملے گا، اس معاملے پر ہمیں وقت دیں اور ایک کمیٹی بنادیں۔
چیئرمین سی ڈی اے نے یہ بھی کہا کہ ہمارے بھی کچھ مسائل ہیں جن پر آئندہ اجلاس میں بریفنگ دیں گے، میرا کوئی ایشو نہیں سرکار کا پیسہ ہے جو سرکار کہے گی ہم کر دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمینٹ لاجز میں اگر ڈیلی ویجرز کو 37 ہزار سے کم مل رہے ہیں تو انکوائری کرلیں گے۔