سی اے ایس ایس میں پاکستان۔بھارت تعلقات پر کتاب کی تقریبِ رونمائی
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
سی اے ایس ایس میں پاکستان۔بھارت تعلقات پر کتاب کی تقریبِ رونمائی WhatsAppFacebookTwitter 0 11 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سنٹر فار ائیرواسپیس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (سی اے ایس ایس )، اسلام آباد نے 8 اکتوبر 2025 کو حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ”پاکستان۔ انڈیا ریلیشنز: نو لکچر بٹ ٹکر” پر ایک تقریب کا انعقاد کیا۔
کتاب کے مصنف، سابق سفیر، اعزاز احمد چوہدری نے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں رکاوٹوں اور ممکنہ راستوں پر روشنی ڈالی۔ تقریب میں دانشوروں اور ماہرین نے شرکت کی۔
ایک آزاد تھنک ٹینک کے طور پر، سی اے ایس ایس قومی سلامتی میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین اور پریکٹشنرز کے لیے تعلیمی تقریبات کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔* *سی اے ایس ایس کے ڈائریکٹر ائیر کموڈور رضا حیدر (ریٹائرڈ) نے سیشن کے میزبان کی حیثیت سے CASS کی نئی سیریز ‘تعمیرِ مزید مصنف کی گفتگو کو متعارف کرایا۔ اپنے ابتدائی کلمات میں انہوں نے دو اہم سوالات اٹھائے: قیادت کی کوششوں کے باوجود پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور انکا مستقبل غیر یقینی کیوں نظر آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصنف کا وسیع سفارتی تجربہ اور تحقیق ایک بصیرت انگیز بحث کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔
تقریب کے کلیدی مقرر اور کتاب کے مصنف، سفیر اعزاز احمد چوہدری (ریٹائرڈ)، نے پاکستان اور بھارت کے درمیان خراب تعلقات کی پانچ بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی: (1) تاریخی عدم اعتماد، (2) تقسیم کے بعد ابھرنے والے علاقائی تنازعات بشمول جموں و کشمیر وغیرہ، (3) پوسٹ 9/11 کے دور میں بھارت کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کے بیانیے کا استحصال اور اس کی تشہیر، اور (4) ہندو نظریے کے تحت بھارت کی بالادستی کی خواہشات۔ غیر یقینی مستقبل کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کے لیے چار ضروری اقدامات پر زور دیا: (1) اسٹریٹجک سطح پر بغیر بات چیت کے لیے دروازہ کھلا رکھنا، (2) کسی بھی مہم جوئی کے خلاف فوجی تیاری کو برقرار رکھنا، (3) روایتی سے ایک جامع سلامتی کی حکمت عملی کی طرف منتقلی، اور (4) سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کے نقطہ نظر کو فعال طور پر فروغ دینا۔
سیشن کے اختتام پر، صدر CASS ائیر مارشل جاوید احمد (ریٹائرڈ) نے روشنی ڈالی کہ زیر بحث کتاب نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 کے فوجی تصادم کے نتیجے میں اور بھی زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے بیانیے کو زیادہ موثر اور یقین کے ساتھ بیان کرنے اور اسے فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر 2019 اور مئی 2025 دونوں تنازعات میں بھارت کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومت نے آئی ایم ایف سے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ پبلش کرنے کےلئے مہلت مانگ لی عمران خان دہشتگردوں کے حامی، تاثر ہے ٹی ٹی پی تحریک انصاف کا عسکری ونگ ہے: عطا تارڑ ڈیجیٹل معیشت کا نفاذ؛ مصنوعی ذہانت ملکی ترقی کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی، وزیراعظم طیفی بٹ کی ہلاکت پر سی سی ڈی کا موقف سامنے آگیا وینزویلا کی جمہوری رہنما ماریا کورینا نے نوبیل امن انعام ٹرمپ کے نام کردیا اے پی پی کے ریٹائرڈ ملازمین اپنے جائز حق کے حصول کے لیے دربدرہیں، جاوید اختر فیض حمید پر الزامات سے متعلق انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، ترجمان پاک فوجCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سی اے ایس ایس
پڑھیں:
جی ایس پی پلس: پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات میں ارتقا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251126-03-3
بین الاقوامی سفارت کاری کے پیچیدہ اور تیزی سے بدلتے منظرنامے میں پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ برسلز میں ہونے والا پاکستان۔ یورپی یونین ساتواں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ محض معمول کی سفارتی سرگرمی نہیں تھا، بلکہ مستقبل کی دوطرفہ معاشی اور سیاسی ترجیحات کا ایسا جامع خاکہ تھا جس کے اثرات پاکستان کی تجارت، سرمایہ کاری، انسانی حقوق کی پالیسیوں اور علاقائی سفارت کاری تک پھیلیں گے۔ اس اہم اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ و نائب صدر کاجا کالاس نے کی، جبکہ پاکستانی وفد میں سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ اور دیگر سینئر سفارت کار شامل تھے۔ اجلاس میں ہونے والی پیش رفت نے گزشتہ برسوں میں قائم ہونے والی اعلیٰ سطحی مصروفیات میں نئی جان ڈال دی ہے۔ فریقین بالاتفاق اس نتیجے تک پہنچے کہ مستقبل میں پاکستان اور یورپی یونین کا رشتہ تجارت، سرمایہ کاری، برآمدی تنوع اور صنعتی ترقی کے گرد مزید مضبوط ہو گا۔
یورپی یونین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور جی ایس پی پلس کے تحت پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے ملنے والے ترجیحی تجارتی فوائد نے ملکی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل و گارمنٹس سیکٹر کو نئی زندگی بخشی ہے۔ اجلاس میں یہ واضح کیا گیا کہ جی ایس پی پلس انتظامات کو مزید وسعت، استحکام اور پائیداری دی جائے گی۔ دونوں طرف اس بات کی شدید خواہش موجود ہے کہ عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط اقتصادی روابط نہ صرف معاشی ترقی بلکہ روزگار کی تخلیق میں بھی اہم کردار ادا کریں۔
یورپی یونین نے عندیہ دیا ہے کہ جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن رواں سال کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ یہ مشن پاکستان میں انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، خواتین کے حقوق، جبری گمشدگیوں، چائلڈ لیبر و جبری مشقت، سزائے موت کے اطلاق، اور توہین ِ مذہب کے قوانین سمیت 27 بین الاقوامی کنونشنز کے تحت پاکستان کی تعمیل کا باریک بینی سے جائزہ لے گا۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ جی ایس پی پلس کا حصول محض اقتصادی معاملہ نہیں بلکہ سفارتی، قانونی اور سماجی اصلاحات سے گہرا جڑا ہوا ایک ہمہ جہتی عمل ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ان نکات پر ٹھوس پیش رفت دکھائے تاکہ عالمی منڈیوں تک رسائی برقرار رہے۔ اگر پاکستان کامیابی سے دوبارہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس حاصل کر لیتا ہے تو اسے ڈیوٹی فری یا انتہائی کم ڈیوٹی تک رسائی، یورپی منڈیوں میں مقابلہ بازی کی مضبوط پوزیشن، برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ، صنعتی و زرعی مصنوعات کے نئے شعبوں میں پیش رفت اور براہ راست یورپی سرمایہ کاری میں ممکنہ اضافہ جیسے نمایاں فوائد حاصل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سفارتی اور تجارتی حلقے اس اجلاس کو مستقبل کا ایک سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔
اجلاس کا ایک اہم پہلو عالمی حالات پر کھلی اور واضح گفتگو تھی۔ پاکستان اور یورپی یونین کے نمائندگان نے جنوبی ایشیا، افغانستان کی بدلتی صورتحال، مشرقِ وسطیٰ کے بحران، اور جغرافیائی سیاسی تناؤ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ موسمیاتی تبدیلی، سرحدی تنازعات، اقتصادی غیر یقینی صورتحال اور ابھرتے ہوئے عالمی اتحادوں کے تناظر میں دونوں فریق اس نتیجے پر پہنچے کہ عالمی چیلنجز کے حل کے لیے مشترکہ، مربوط اور ہم آہنگ پالیسی ناگزیر ہے۔
پاکستان اور یورپی یونین نے اسٹرٹیجک انگیجمنٹ پلان کے تحت سیاسی و سیکورٹی تعاون، تجارتی تعلقات، ترقیاتی پروگرام، ماحولیاتی تبدیلی، توانائی، تعلیم اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں مزید گہرے اور ہمہ جہتی تعاون کا عزم ظاہر کیا۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں فریق مستقبل میں محض رسمی سفارتی تعلقات نہیں بلکہ طویل مدتی شراکت داری کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے انتہائی مثبت ہے، مگر اس کے ساتھ کچھ ذمے داریاں بھی وابستہ ہیں۔ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات محض اقتصادی یا سیاسی نوعیت کے نہیں ہوتے؛ وہ انسانی حقوق اور قانونی اصلاحات کے حوالے سے بھی واضح معیار رکھتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ پارلیمانی اصلاحات، معاشرتی آزادیوں کے تحفظ، اقلیتوں کے حقوق، عدالتی نظام کی مضبوطی، اور انسانی حقوق کے عالمی تقاضوں پر تیز رفتار اور عملی اقدامات کرے۔ یہی اقدامات عالمی شراکت داریوں میں اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔
برسلز میں ہونے والا ساتواں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔ اس اجلاس نے نہ صرف اقتصادی تعاون کی نئی راہیں کھولی ہیں بلکہ عالمی سیاست کے بدلتے تناظر میں پاکستان کی سفارتی، تجارتی اور جغرافیائی حکمت ِ عملی کو بھی نئی سمت فراہم کی ہے۔ اگر پاکستان سنجیدگی، تسلسل اور دور اندیشی کے ساتھ ان پالیسیوں پر عمل کرے تو جی ایس پی پلس کا حصول، یورپی منڈیوں تک رسائی، روزگار کی فراہمی، برآمدات میں اضافہ اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں بہتری سب کچھ ممکن ہے۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ فیصلہ ہمارے اقدامات پر منحصر ہے۔