لیسکو نے لاکھوں روپے کی بجلی چوری پکڑ لی
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
سٹی42ؒ: لاہور کے گلبرگ علاقے میں چینی بنانے والے ایک یونٹ پر چھاپہ مارا گیا، جہاں لاکھوں روپے کی بجلی چوری پکڑی گئی۔
ذرائع کے مطابق یہ چوری ڈائریکٹ سپلائی لائن سے کی گئی تھی، اور اس سلسلے میں متعدد کیبل اور میٹر قبضے میں لیے گئے ہیں۔انسداد چوری آپریشن ایس ای ساؤتھ سرکل کے محمد حسین کی نگرانی میں کیا گیا، اور ایکسین گلبرگ محمد طاہر نے بتایا کہ وہ چوروں کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔
قبائلی عوام نےافغانستان کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کیخلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان کردیا
اس کے علاوہ ایس ڈی او سب ڈویژن کا کہنا ہے کہ چوروں کو لاکھوں روپے کا ڈی ٹیکشن بل بھی لگایا جائے گا۔
اسی دوران پیرا فورس نے اس یونٹ کو سیل کر دیا ہے اور چینی کی پیکنگ اور دیگر اجزاء کے نمونے حاصل کر کے مزید تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
ہیکرز کا بڑا حملہ، آسٹریلوی ایئرلائن کے 57 لاکھ کسٹمرز کا ڈیٹا آن لائن لیک
سڈنی: آسٹریلیا کی سب سے بڑی ایئرلائن کینٹس (Qantas) نے تصدیق کی ہے کہ رواں سال ہونے والے بڑے سائبر حملے میں چوری ہونے والا کسٹمر ڈیٹا اب آن لائن شیئر کر دیا گیا ہے۔ اس حملے میں تقریباً 57 لاکھ صارفین کی ذاتی معلومات ہیکرز کے ہاتھ لگ گئی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق یہ حملہ Salesforce نامی سافٹ ویئر کمپنی کے ذریعے کیا گیا، جس کے تحت Disney، Google، IKEA، Toyota، McDonald’s، Air France اور KLM جیسی بڑی کمپنیوں کا ڈیٹا بھی چوری ہوا تھا۔ ہیکرز ان معلومات کو تاوان کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
کینٹس کے مطابق متاثرہ ڈیٹا میں کسٹمرز کے نام، ای میل پتے، فون نمبر، تاریخِ پیدائش اور سفر کی تفصیلات شامل ہیں، تاہم کریڈٹ کارڈ، مالی یا پاسپورٹ کی معلومات محفوظ رہی ہیں۔
ایئرلائن نے کہا کہ وہ آسٹریلوی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے اور نیو ساؤتھ ویلز سپریم کورٹ سے قانونی حکم حاصل کر لیا گیا ہے تاکہ چوری شدہ ڈیٹا کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ماہرین نے اس قانونی اقدام کو ناکافی قرار دیا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ ٹروی ہنٹ نے کہا کہ “یہ محض ایک رسمی کارروائی ہے، ایسے مجرم دنیا کے کسی بھی حصے سے سرگرم رہ سکتے ہیں۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سائبر حملہ ممکنہ طور پر Scattered Lapsus$ Hunters نامی ہیکرز گروپ نے کیا، جو بڑے اداروں سے تاوان وصول کرنے کے لیے مشہور ہے۔
آسٹریلیا میں اس واقعے کے بعد ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی قوانین پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔