گرمی، برسات اور موسم سرما کی پہلی بارش
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اب کی دفعہ گرمی بھی خوب پڑی جیسا کہ ہر سال پڑتی ہے اس کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی قیامت ڈھاتی رہی۔ اس سے بڑھ کر بجلی کے بل عوام کے ہوش اُڑاتے رہے۔ جماعت اسلامی نے ان بلوں کے خلاف نہایت کامیاب احتجاجی مہم چلائی اور عوام کے لیے کسی حد تک ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ گرمی کا زور ٹوٹا تو بارشوں نے آدبوچا۔ موسم برسات ہر سال آتا ہے لیکن اس سال اس نے جو قیامت ڈھائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں خیبر پختون خوا کے پہاڑی علاقوں اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں وہ تباہی ہوئی جس کے اثرات مدتوں باقی رہیں گے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے بونیر میں تو ایسی بارش ہوئی کہ اس کی زد میں آکر بڑے برے پہاڑی تودے روئی کے گالوں کی مانند زمین پر آرہے اور ان کے نیچے آکر انسانی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں جو کسر رہ گئی تھی اسے بھارت نے سیلاب بھیج کر پورا کردیا۔ بھارت نے راوی، ستلج اور بیاس کا پانی ایک مدت سے روک رکھا ہے، ان دریائوں کی آبی گزرگاہوں پر بااثر افراد نے ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا کر اربوں کما لیے تھے۔ لیکن جب بھارت سے سیلاب کی صورت میں پانی آیا تو دریا اپنے پرانے راستے پر چل نکلا اور مکانات کو بہا کر لے گیا۔ پنجاب میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوگئیں۔ ان میں چاول، کماد اور سبزیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سندھ میں بھی بارشوں اور سیلاب سے تباہی ہوئی لیکن اس کا دائرہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مقابلے میں کم تھا۔ یہ دونوں صوبے اپنے اپنے وسائل سے متاثرین کی مدد کرتے رہے۔ اگرچہ پنجاب کی وزیراعلیٰ کا سارا زور امدادی سامان پر اپنی تصویر لگانے پر رہا لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ امداد متاثرین تک پہنچ ہی گئی جبکہ الخدمت سمیت پرائیویٹ فلاحی تنظیموں نے بھی امداد کی بہم رسانی میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھ میں بھی یہ فلاحی تنظیمیں سرگرم رہیں، البتہ سرکاری سطح پر بڑی حد تک خاموشی رہی۔ بلاول زرداری عالمی امداد کے منتظر رہے، انہوں نے وفاقی حکومت سے اپیل بھی کی کہ متاثرین سیلاب کے لیے عالمی امداد کی درخواست کی جائے لیکن وفاقی وزرا نے اس اپیل کا یہ جواب دیا کہ اب کی دفعہ ہم نے اپنے وسائل سے متاثرین کی امداد کا فیصلہ کیا ہے، ہم عالمی برادری کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ 2022ء میں عالمی امداد کی اپیل کے باوجود اس کا جواب کچھ اچھا نہ تھا۔ عالمی امداد کی اپیل بار بار دہرانے کے باوجود صرف بارہ ارب کے ڈالر کے عطیات دینے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ اعلان بھی محض اعلان تک محدود رہا کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا اور پاکستان کو سخت شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ چنانچہ اس میں عافیت نظر آئی کہ عالمی امداد کی اپیل نہ کی جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ عالمی امداد نہ ملنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کرپشن کے معاملے میں بہت بدنام ہے اور یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بااثر کرپٹ افراد عالمی امداد بھی نہیں چھوڑتے۔ بہرکیف اب کی دفعہ وفاقی حکومت نے عالمی امداد کی اپیل نہ کی اور بلاول ہاتھ ملتے رہ گئے۔ حکومت بارشوں اور سیلاب سے تمام تر تباہی کے باوجود ترقی کی نوید سنا رہی ہے جبکہ عالمی ادارے بتارہے ہیں کہ اس تباہی کے نتیجے میں غربت بڑھ گئی ہے اور معیشت تباہ ہوگئی ہے۔ اب
کس کا یقین کیجیے کس کا یقین نہ کیجیے
لائے ہیں بزم یار سے لوگ خبر الگ الگ
البتہ عوام پر جو گزر رہی ہے وہی یقین کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ عوام کی حالت بتارہی ہے کہ اس تباہی نے ان کی ’’قوتِ لایموت‘‘ بھی چھین لی ہے۔
لیجیے صاحب یہ قصہ تمام ہوا۔ موسم کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ گرمی اور برسات اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ گزر گئیں۔ اب موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ اکتوبر کا مہینہ اپنے وسط کو پہنچ رہا ہے اور اکتوبر کے وسط میں باقاعدہ بارش ہوجائے گی تو خنکی بڑھ جاتی ہے اور موسم سرما کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے، اب کی دفعہ یہ بارش اکتوبر کے شروع میں ہی ہوگئی اس لیے سردی نے دروازے پر دستک دے دی اور بغیر اجازت گھر میں گھس آئی۔ ہم نے اس کے استقبال کے لیے کمبل نکال لیا اور اسے اوڑھ کر سونے لگے، دن میں البتہ دھوپ کی تپش برقرار ہے، زیادہ دیر دھوپ میں کھڑا نہیں رہا جاتا۔ کہتے ہیں کہ دھوپ میں وٹامن ڈی ہوتا ہے اور انسانی جسم کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ تو آئیے تھوڑی دیر دھوپ میں کھڑا رہتے ہیں۔ ارے بھئی کراچی والو آپ کیوں گھبرا گئے آپ کو تو وقت کی دھوپ نے پہلے ہی کندن بنادیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عالمی امداد کی اپیل اب کی دفعہ ہے اور
پڑھیں:
سندھ حکومت کی کراچی سرکلر ریلوے اور ہائی اسپیڈ ٹرین کیلیے عالمی بینک سے تعاون کی اپیل
کراچی:سندھ حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے اور ہائی اسپیڈ ٹرین کے لیے عالمی بینک سے تعاون کی اپیل کردی۔
سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کراچی سرکلر ریلوے اور کراچی تا سکھر ہائی اسپیڈ ٹرین کو حکومت سندھ کے اہم اہداف قرار دیتے ہوئے ان منصوبوں کے لیے عالمی بینک سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
کراچی میں عالمی بینک کے وفد نے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن سے ملاقات کی، جس میں صوبے بھر میں اربن موبلٹی کی بہتری، ٹرانسپورٹ سسٹم کی مضبوطی اور مختلف ماڈلز پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے اور کراچی تا سکھر ہائی اسپیڈ ٹرین منصوبے سندھ کے لیے گیم چینجر ثابت ہوں گے اور حکومت سندھ چاہتی ہے کہ عالمی بینک ان منصوبوں میں اپنا کردار ادا کرے۔
ملاقات کے دوران صوبائی وزیر نے عالمی بینک کے تعاون سے جاری یلو لائن بی آر ٹی منصوبے پر وفد کو بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ یلو لائن کے اہم حصے تاج حیدر پل کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے جب کہ دوسرے حصے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ یلو لائن بی آر ٹی سے متعلق فیصلے عوام اور منصوبے کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جا رہے ہیں اور منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے عالمی بینک کے مزید اور بروقت تعاون کی ضرورت ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ عوام کو سستی اور تیز ترین سفری سہولیات فراہم کرنا حکومت سندھ کا واضح عزم ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حالیہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے گرین لائن بی آر ٹی سندھ حکومت کے حوالے کی گئی ہے اور حکومت سندھ کے زیر انتظام اس کی یومیہ رائڈرشپ میں 33 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں اربن موبلٹی کے لیے مزید بسوں کی ضرورت ہے اور اس شعبے میں عالمی بینک کی معاونت اہم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف یلو لائن بی آر ٹی بلکہ مستقبل کے ٹرانسپورٹ منصوبوں میں بھی عالمی بینک کا تعاون درکار ہے۔
عالمی بینک کے وفد نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں حکومت سندھ کے اقدامات کی تعریف کی اور کہا کہ ریلوے کے منصوبوں میں بھی ان کا کردار چاہتے ہیں۔ وفد نے کہا کہ کراچی خطے کا اہم شہر ہے اور اسے سینٹرل ایشیا تک رسائی کے لیے کلیدی مقام حاصل ہے۔