اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل سے شروع ہونے والا پاک افغان امن عمل ایک بار پھر صفر پر آ چکا ہے جبکہ اس دوران پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان دو بار ہونے والے سہ فریقی مذاکرات، سفارتی تعلقات کی اپ گریڈیشن اور تجارتی معاہدات تمام ایک بار پھر صفر پر آ چُکے ہیں۔

کیا 19 اپریل سے شروع ہونے والی کوششوں اور تعلقات کی بحالی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی باعث بننے والی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی فیصلہ کُن اقدام ہو سکتا ہے؟ اس تحریر میں ہم اِن ممکنات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟

19 اپریل اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔

لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نُقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔

اس سے ایک طرف پاکستان افغان قائم وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی مؤقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان جارحیت پر پاک فوج کے بھرپور جواب کی ویڈیوز وائرل، عوام کا زبردست خراج تحسین

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کرے گا۔

حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے اس فوجی تنازعے کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اُن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی بُنیادی وجہ

اپریل اور مئی میں اسحاق ڈار کے دورۂ بھارت کے بعد پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیے: ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ملٹری آپریشن نہیں کر پائے گا، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا پہلا خطاب

تاہم فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا۔ اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔

دوسرا معاملہ افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق تھا جس پر بھی پاکستان حکومت نے رعایتیں دیں۔

سفارتی تناؤ

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اِس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں صرف یہ ہے کہ دونوں طرف جنگ بندی ہے لیکن کسی بھی وقت یہ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے اور اس لئے ہم اپنے دفاعی اقدامات سے غافل نہیں رہ سکتے۔

سرحدی بندش

اس وقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں بند ہیں۔ صرف چمن پہ بابِ دوستی سرحد کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کھولا گیا ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف تجارتی مال سے لدے ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو خطرات ہیں

یہ بھی پڑھیے: سرحدی کشیدگی میں کمی کے بعد بابِ دوستی جزوی طور پر فعال، افغان مہاجرین کی واپسی دوبارہ شروع

بین الاقوامی ردعمل

روس، چین، سعودی عرب، قطر اور امریکہ نے تناؤ کم کرنے اور ڈائیلاگ کی اپیل کی۔ روس  نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ چین نے ڈائیلاگ پر زور دیا۔

مستقبل قریب میں مذاکرات کا امکان نظر نہیں آتا، طاہر خان

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان اور افغانستان کے حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ خطرے سے خالی نہیں۔ کل رات تک جو دونوں طرف سے بیانات آئے ہیں وہ حوصلہ افزاء نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغان طالبان جارحیت کیخلاف غیور بلوچ قبائل پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب ’افغان حکومت‘ کی بجائے ’طالبان رجیم‘ کہنا شروع کر دیا ہے اور حالیہ فوجی کشیدگی کے تناظر میں دفترِ خارجہ نے جو بیان جاری کیا اُس میں پاکستان کی اِس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان افغانستان کے اندر تمام فریقین پر مشتمعل ایک حکومت چاہتا ہے جو اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ دوسری طرف طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے خلاف جو دھمکی آمیز بیانات دیے ہیں وہ بھی صورتحال کو خراب کرتے ہیں اور اُس پہ مستزاد افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت میں کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ کہنا ایک افسوسناک اور تشویش ناک بات ہے۔ تو بحیثتِ مجموعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس وقت شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔

 طاہر خان نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ جلد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان بہتری آ سکتی ہے۔ کل 13 اکتوبر کو پاکستانی وفد نے وزیرِ دفاع کی سرکردگی میں کابل جانا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق طالبان نے وفد کا استقبال کرنے سے اِنکار کر دیا۔ کچھ بھی ہو مذاکرات کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں اور نہ دونوں ملکوں کے اندر طویل جنگ لڑنے کی سکت ہے لیکن فی الحال جو ماحول ہے وہ مذاکرات کے لئے سازگار دکھائی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان جھڑپیں: 200 سے زیادہ طالبان و دہشتگرد ہلاک، 23 پاکستانی جوان شہید، دہشتگردی کے درجنوں ٹھکانے تباہ

ان کے مطابق ایک راستہ ہے وہ یہ کہ ایسے رہنماء جیسا کہ مولانا فضل الرّحمٰن، آفتاب شیرپاؤ اور محمود خان اچکزئی وغیرہ، جن کو بارڈر کے دونوں طرف عزت و احترام حاصل ہے ان لوگوں پر مشتمعل ایک جرگہ بات چیت کے لیے افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہتی حکومت کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں طاہر خان نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد یہی کہا تھا کہ افغانستان میں تمام فریقین پر مبنی ایک حکومت ہونی چاہیے لیکن بعد میں پاکستان نے عوامی طور پر ایسا کہنا چھوڑ دیا تاکہ طالبان حکومت ناراض نہ ہو۔

ان کے مطابق 30 ستمبر کو پاکستان میں طالبان مخالف افغان رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا جو اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ اُس مطالبے کی طرف آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میں بھی خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو صورتحال ہے اُس سے وہاں افغانوں میں بھی ناراضی پائی جاتی ہے اور اب طالبان نے ٹیکسز بھی عائد کر دیے ہیں جو ماضی میں نہیں تھے تو افغان عوام بھی طالبان حکومت سے ناخوش ہیں۔

پاک افغان تعلقات میں بنیادی رکاوٹ ٹی ٹی پی ہے، آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان بارڈر پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔اس صورتحال کی ذمہ داری ٹی ٹی پی ہے جو افغان طالبان کے نظریاتی بھائی ہیں اور افغان طالبان اُن کو دہشت گرد کاروائیوں سے روکنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت کبھی آپ کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، حافظ نعیم الرحمان کا افغانستان کو مشورہ

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان ایک طرف ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے اِنکار کرتے ہیں دوسری طرف پاکستان سے معاشی معاونت چاہتے تاکہ ٹی ٹی پی کو دوسری جگہ منقل کیا جا سکے۔ جبکہ بین الاقوامی اداروں خاص طور پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ دیگر دہشتگرد گروہ بھی موجود ہیں۔

آصف درّرانی نے کہا کہ افغانستان کو تباہ کرنے والے لوگ اِس وقت مُلک سے باہر بیٹھے ہیں اور ایک پُر تعیّش زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان کی تباہی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں، اس کے ذمہ دار افغان خود ہیں جنہوں نے خود کو بارودی مواد بننے کے لیے استعمال ہونے دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاکستان پشتون سرحد سفارتی تعلقات کشیدگی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان پشتون سفارتی تعلقات کشیدگی پاکستان اور افغانستان کے کہ افغانستان میں دونوں ملکوں کے پاکستان افغان طالبان حکومت افغان طالبان کہ پاکستان ا پاکستان میں پاکستان نے کو پاکستان اسحاق ڈار پاک افغان کے درمیان نے کہا کہ کہ افغان کے مطابق طاہر خان ٹی ٹی پی ہیں اور نے والے شروع ہو ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ

2025 اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر دہشت گردی کے واقعات میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ گزشتہ سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کے ممکنہ بڑے حملے کو ناکام بنا دیا
اس طرح ایک بڑی تباہی ٹل گئی۔ اس واقعے میں کم از کم تین سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ کئی دہشت گرد مارے گئے۔ ایک خودکش حملہ
آور نے عمارت کے داخلی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑایا، جبکہ اس وقت سینکڑوں اہلکار ایف سی ہیڈکوارٹر کے اندر موجود تھے۔یہ حملہ اسی
نوعیت کے اس حملے سے مشابہ تھا جو رواں ماہ کے آغاز میں وانا کیڈٹ کالج پر کیا گیا تھا، جہاں دہشت گرد کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی مار
دیے گئے تھے۔ جہاں تک پشاور حملے کے ذمہ داروں کا تعلق ہے، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں افغان شہری ملوث تھے، جب کہ بعض
تجزیہ کاروں نے جماعت الاحرار جو کالعدم ٹی ٹی پی کا دھڑا ہے کی شمولیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔اگر واقعی جماعت الاحرار ملوث ہے اور
اس کے اشارے موجود ہیں تو یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس گروہ نے متعدد خونی حملے کیے ہیں، جن میں جنوری 2023 کا پشاور پولیس لائنز سانحہ بھی شامل ہے۔

صوبائی دارالحکومت کے وسط میں ایک محفوظ تنصیب کو نشانہ بنا لینا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سیکورٹی
فورسز کو خفیہ معلومات کے حصول اور انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں میں نمایاں بہتری لانا ناگزیر ہے۔ دہشت گرووں کی جانب سے
پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والایہ حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا
خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں
تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف
پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی
اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا
دیے۔یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ3 مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب ت کیسے پہنچ گئے، اگرچہ
سیکورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟

موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔پاکستان میں دہشت
گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی
ہے۔افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے
گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی
شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے
گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں
سرگرم ہیں افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔

یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے
میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی
اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد
پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں
اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی
مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں
افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری
حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط
ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے
کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں
ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس
سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔بعض حکام نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ دہشت گردوں کو اندر سے معلومات فراہم کی گئی ہوں اس پہلو
کی مکمل تفتیش ضروری ہے۔رواں سال دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے؛ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے
زیادہ متاثر رہے ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق ستمبر تک 950 سے زائد حملوں میں 2,400 سے زیادہ افراد جان سے جا چکے تھے۔ اگر اس
خطرناک رجحان کا رخ پلٹنا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر مؤثر انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔افغان طالبان
پر یہ شبہ اب تقویت پکڑ رہاہے کہ وہ بعض شدت پسند عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں، یہ معاملہ کابل سے بہتر تعلقات کے سامنے سب سے
بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے افغان حکام پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے۔ مگر ہمیں صرف دوسروں کے
قدم اٹھانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اپنی سیکورٹی صلاحیتیں اور بارڈر مینجمنٹ مضبوط کرنا ضروری ہے۔ عسکری و سول اداروں کو مل کر قبل اس کے کہ یہ مزید خون بہائے اس دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنا ہوگا۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • ’’بلڈ اینڈ بزنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے ‘‘
  • طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
  • وائٹ ہاوس پر فائرنگ، افغان طالبان رجیم پوری دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئی
  • وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کا واقعہ؛ افغان طالبان رجیم  پوری دنیا کے امن کےلیے سنگین خطرہ
  • افغانستان تباہی کے دہانے پر! UNDP کی ہولناک رپورٹ نے طالبان کی ناکامی بے نقاب کر دی
  • چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
  • مولانا عبدالخبیر آزاد سے گورنر خیبرپختونخوا کی ملاقات، علاقائی حالات اور مذہبی ہم آہنگی پر تبادلہ خیال
  • افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
  • طالبان دور میں بدترین انسانی بحران — سرد موسم نے افغان عوام کی تکلیفیں مزید بڑھا دیں