اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل سے شروع ہونے والا پاک افغان امن عمل ایک بار پھر صفر پر آ چکا ہے جبکہ اس دوران پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان دو بار ہونے والے سہ فریقی مذاکرات، سفارتی تعلقات کی اپ گریڈیشن اور تجارتی معاہدات تمام ایک بار پھر صفر پر آ چُکے ہیں۔

کیا 19 اپریل سے شروع ہونے والی کوششوں اور تعلقات کی بحالی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی باعث بننے والی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی فیصلہ کُن اقدام ہو سکتا ہے؟ اس تحریر میں ہم اِن ممکنات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟

19 اپریل اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔

لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نُقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔

اس سے ایک طرف پاکستان افغان قائم وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی مؤقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان جارحیت پر پاک فوج کے بھرپور جواب کی ویڈیوز وائرل، عوام کا زبردست خراج تحسین

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کرے گا۔

حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے اس فوجی تنازعے کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اُن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی بُنیادی وجہ

اپریل اور مئی میں اسحاق ڈار کے دورۂ بھارت کے بعد پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیے: ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ملٹری آپریشن نہیں کر پائے گا، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا پہلا خطاب

تاہم فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا۔ اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔

دوسرا معاملہ افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق تھا جس پر بھی پاکستان حکومت نے رعایتیں دیں۔

سفارتی تناؤ

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اِس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں صرف یہ ہے کہ دونوں طرف جنگ بندی ہے لیکن کسی بھی وقت یہ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے اور اس لئے ہم اپنے دفاعی اقدامات سے غافل نہیں رہ سکتے۔

سرحدی بندش

اس وقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں بند ہیں۔ صرف چمن پہ بابِ دوستی سرحد کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کھولا گیا ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف تجارتی مال سے لدے ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو خطرات ہیں

یہ بھی پڑھیے: سرحدی کشیدگی میں کمی کے بعد بابِ دوستی جزوی طور پر فعال، افغان مہاجرین کی واپسی دوبارہ شروع

بین الاقوامی ردعمل

روس، چین، سعودی عرب، قطر اور امریکہ نے تناؤ کم کرنے اور ڈائیلاگ کی اپیل کی۔ روس  نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ چین نے ڈائیلاگ پر زور دیا۔

مستقبل قریب میں مذاکرات کا امکان نظر نہیں آتا، طاہر خان

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان اور افغانستان کے حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ خطرے سے خالی نہیں۔ کل رات تک جو دونوں طرف سے بیانات آئے ہیں وہ حوصلہ افزاء نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغان طالبان جارحیت کیخلاف غیور بلوچ قبائل پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب ’افغان حکومت‘ کی بجائے ’طالبان رجیم‘ کہنا شروع کر دیا ہے اور حالیہ فوجی کشیدگی کے تناظر میں دفترِ خارجہ نے جو بیان جاری کیا اُس میں پاکستان کی اِس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان افغانستان کے اندر تمام فریقین پر مشتمعل ایک حکومت چاہتا ہے جو اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ دوسری طرف طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے خلاف جو دھمکی آمیز بیانات دیے ہیں وہ بھی صورتحال کو خراب کرتے ہیں اور اُس پہ مستزاد افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت میں کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ کہنا ایک افسوسناک اور تشویش ناک بات ہے۔ تو بحیثتِ مجموعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس وقت شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔

 طاہر خان نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ جلد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان بہتری آ سکتی ہے۔ کل 13 اکتوبر کو پاکستانی وفد نے وزیرِ دفاع کی سرکردگی میں کابل جانا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق طالبان نے وفد کا استقبال کرنے سے اِنکار کر دیا۔ کچھ بھی ہو مذاکرات کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں اور نہ دونوں ملکوں کے اندر طویل جنگ لڑنے کی سکت ہے لیکن فی الحال جو ماحول ہے وہ مذاکرات کے لئے سازگار دکھائی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان جھڑپیں: 200 سے زیادہ طالبان و دہشتگرد ہلاک، 23 پاکستانی جوان شہید، دہشتگردی کے درجنوں ٹھکانے تباہ

ان کے مطابق ایک راستہ ہے وہ یہ کہ ایسے رہنماء جیسا کہ مولانا فضل الرّحمٰن، آفتاب شیرپاؤ اور محمود خان اچکزئی وغیرہ، جن کو بارڈر کے دونوں طرف عزت و احترام حاصل ہے ان لوگوں پر مشتمعل ایک جرگہ بات چیت کے لیے افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہتی حکومت کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں طاہر خان نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد یہی کہا تھا کہ افغانستان میں تمام فریقین پر مبنی ایک حکومت ہونی چاہیے لیکن بعد میں پاکستان نے عوامی طور پر ایسا کہنا چھوڑ دیا تاکہ طالبان حکومت ناراض نہ ہو۔

ان کے مطابق 30 ستمبر کو پاکستان میں طالبان مخالف افغان رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا جو اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ اُس مطالبے کی طرف آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میں بھی خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو صورتحال ہے اُس سے وہاں افغانوں میں بھی ناراضی پائی جاتی ہے اور اب طالبان نے ٹیکسز بھی عائد کر دیے ہیں جو ماضی میں نہیں تھے تو افغان عوام بھی طالبان حکومت سے ناخوش ہیں۔

پاک افغان تعلقات میں بنیادی رکاوٹ ٹی ٹی پی ہے، آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان بارڈر پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔اس صورتحال کی ذمہ داری ٹی ٹی پی ہے جو افغان طالبان کے نظریاتی بھائی ہیں اور افغان طالبان اُن کو دہشت گرد کاروائیوں سے روکنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت کبھی آپ کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، حافظ نعیم الرحمان کا افغانستان کو مشورہ

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان ایک طرف ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے اِنکار کرتے ہیں دوسری طرف پاکستان سے معاشی معاونت چاہتے تاکہ ٹی ٹی پی کو دوسری جگہ منقل کیا جا سکے۔ جبکہ بین الاقوامی اداروں خاص طور پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ دیگر دہشتگرد گروہ بھی موجود ہیں۔

آصف درّرانی نے کہا کہ افغانستان کو تباہ کرنے والے لوگ اِس وقت مُلک سے باہر بیٹھے ہیں اور ایک پُر تعیّش زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان کی تباہی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں، اس کے ذمہ دار افغان خود ہیں جنہوں نے خود کو بارودی مواد بننے کے لیے استعمال ہونے دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاکستان پشتون سرحد سفارتی تعلقات کشیدگی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان پشتون سفارتی تعلقات کشیدگی پاکستان اور افغانستان کے کہ افغانستان میں دونوں ملکوں کے پاکستان افغان طالبان حکومت افغان طالبان کہ پاکستان ا پاکستان میں پاکستان نے کو پاکستان اسحاق ڈار پاک افغان کے درمیان نے کہا کہ کہ افغان کے مطابق طاہر خان ٹی ٹی پی ہیں اور نے والے شروع ہو ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

ایک عمومی منطق یہ تھی کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطہ میں دہشت گردی سمیت مجموعی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے سکے گی۔ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی داخلی جنگ لڑرہا ہے اس کا بھی ایک بڑا براہ راست تعلق افغانستان کی داخلی صورتحال سے تھا۔لیکن بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے بجائے نہ صرف بگاڑ پیدا ہوا بلکہ بداعتمادی کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اسی تناظر میں حالیہ پاک افغان محاذ پر جو سیاسی اور جنگی کشیدگی بڑھی ہے اس نے تعلقات کو اور زیادہ خرابی کی طرف دھکیلا ہے۔پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر موجود ان سرحدی علاقوں میں داعش اور خوارج کے ٹھکانوں پر حملے جب کہ افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا،باجوڑ ،کرم ،دیر ،چترال سمیت دیگر علاقوں میں فائرنگ کرکے ماحول میں اور زیادہ جنگی جنون پیدا کردیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کا مقصد خوارج کی ٹولیوں کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگی ماحول ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغان وزیر خارجہ دہلی کے دورے پر تھے اور پہلے ہی پاکستان کی مخالفت میں بھارت افغان گٹھ جوڑ کی باتیں ہو رہی تھیں ۔بھارت پر یہ الزام ہے کہ وہ افغانستان اور وہاں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک بڑی پراکسی جنگ کے طورپر بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

اسی طرح بھارت اور افغان وزرائے خارجہ میں جو اہم ملاقات ہوئی اور اس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس پر بھی پاکستان کے سخت تحفظات ہیں خاص طور پر دونوں ممالک میں یہ اتفاق کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے یقیناً یہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔پاکستان پہلے ہی علاقائی اور عالمی سیاست میں اس نقطہ پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ فتنہ خوارج اور فتنہ الہندوستان افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں کررہے ہیں اور اس پر افغان حکومت کا ردعمل وہ نہیں جو پاکستان چاہتا ہے۔

بنیادی نقطہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا یہ ہی ہے کہ افغان سرزمین کو مسلسل پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی استعمال کررہی ہے۔حالانکہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت نے اسی نقطہ پر پاکستان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ مستقبل میں نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بلکہ ٹی ٹی پی کے خلاف مشترکہ کارروائی ہوگی ،لیکن افغان حکومت اپنے وعدے کی پاسداری نہیںکرسکی ۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے بقول پاکستان اپنے داخلی معاملات میں دہشت گردی کا علاج خود تلاش کرے اور ان کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کے ٹھکانے موجود ہیں۔انھوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو سیز فائر کیا ہے اس کی وجہ سعودی عرب اور قطر کی درخواست تھی کہ حملے بند کیے جائیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میںموجودگی کا انکار کررہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں نہ صرف ٹی ٹی پی ملوث ہے بلکہ ان کے ٹھکانے بھی اور ان کو سہولت کاری بھی بھارت اور افغان حکومت کی جانب سے مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کی بنیاد پر پاکستان سے براہ راست مذاکرات سے کیونکر انکار کیا اور کیوں وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف عملا استعمال ہورہی ہے۔

ایسا نہیں کہ پاکستان نے افغان حکومت سے مذاکرات یا سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر ان مسائل کو اجاگر نہیں کیا مگر جب افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر حقایق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گی تو تعلقات میں بہتری کیسے پیدا ہوگی ۔

کیا سبب ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی بڑا ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں اور جو شواہد پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کو پیش کیے ان کو بھی کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ حتی کہ جو بھارت اور افعانستان کے درمیان مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس میںبھی ان نکات کو فوقیت دی گئی ہے جن میں پاکستان مخالفت شامل ہے ۔ایسے لگتا ہے افغان وزیر خارجہ کا دورہ دہلی اور پاکستان پر افغان فورسز کا حملہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک مجرمانہ اشارہ ہے جو پاکستان کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان کہاں کھڑا ہے۔بھارت اور افغانستان کا پاکستان کی مخالفت میں گٹھ جوڑ بہت سے منفی عزائم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان کا طرز عمل کیا ہوگا۔

پاکستان نے افغانستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ مل کر خطہ سمیت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے کو جاری رکھا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔پچھلے دنوں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ پس پردہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے امور پر اتفاق ہوا ہے اور معاملات کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا ۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ایک سوچ یہ بھی تھی کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے اور بات چیت کا راستہ کھولنے کے لیے چین نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر ایسے لگتا ہے کہ معاملات مذاکرات سے آگے بڑھ گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت کا بھارت پر بڑھتا ہوا انحصار ہے اور وہ بھارت کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتا ہے اور خود بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ وہ افغانستان کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے تاکہ وہ پاکستان پر نہ صرف اپنا دباؤ بڑھا سکے بلکہ افغانستان کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے ۔یہ بات دنیا کو بھی اور دیگر علاقائی ممالک کو بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کی افغانستان میں کارروائیاں اپنی ریاستی خود مختاری اور بقا کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اگر افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر دھیان دیتی اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو طاقت کے زور سے روکتی تو یقینی طور پر پاکستان کا ردعمل بھی مثبت ہوتا ۔کیونکہ افغانستان کی داخلی صورتحال اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کا براہ راست نشانہ پاکستان اور اس کی داخلی سیاست ہے تو اس پر پاکستان کا ردعمل بھی فطری ہے۔کیونکہ پاکستان کے ادارے اور عام شہری ٹی ٹی پی کے نشانے پر ہیں جو پاکستان کی داخلی سیکیورٹی سے جڑے مسائل میں سنگین نوعیت کے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

پاکستان کے پاس دو ہی راستے بچے تھے کہ وہ یا تو اس ساری صورتحال پر جو کچھ افغان حکومت اور ٹی ٹی پی کررہی ہے خاموش رہتا یا پھر بھرپور جواب دے کر اپنی داخلی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیںکرتا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان اور افعانستان کے درمیان جو نئی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ آج کی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری وعدوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔

افعان حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں نہ صرف افغانستان بلکہ خود طالبان کا بھی بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور جو کچھ پاکستان نے کیا اس کی تاریخ میں مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے حالات کا بگاڑ یا جنگ دونوں ممالک کے لیے مسائل کا حل نہیں اور اس کا حل جہاںبات چیت یا مذاکرات کے نتیجے سے ممکن ہوگا وہیں افغانستان کو پاکستان کے اہم تحفظات اور ٹی ٹی پی کے تناظر میںاپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان سرزمین پاکستان کی مخالفت اور عدم استحکام پیدا کرنے میںاستعمال ہورہی ہے۔

بھارت اور افغانستان کے تعلقات دونوں ملکوں کی بڑی ضرورت ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان تعلقات کی بنیاد پاکستان دشمنی یا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے جڑی نہیں ہونی چاہیے۔کیونکہ یہ خدشات پاکستان کی سطح پر بڑھ رہے ہیں کہ دونوںممالک پاکستان مخالف ایجنڈا رکھتے ہیں جو ہماری داخلی سلامتی کے لیے اور زیادہ خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

اس سلسلے میں چین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور جہاں آج پاکستان اور افغانستان بداعتمادی کے ساتھ کھڑے ہیں وہیں چین ان تعلقات کے بگاڑ کو بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔لیکن اس کے لیے پہلی شرط کے طورپر دونوں اطراف سے ایک سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہوگا،اشتعال انگیزیوں اور الزام تراشیوں یا طعنہ زنی سے بھی باہر نکلنا ہوگا اور جو بھی دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات ہیں ان کو مذاکرات کا حصہ بنا کر ہی امن کی طرف جایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
  • چین، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرتے رہنے کو تیار ہے،چینی وزارتِ خارجہ
  • افغانستان کیساتھ جس طرح حالات نے کروٹ لی ہے ، پاکستان میں 50 سال سے بیٹھے افغان مہاجرین کو واپس جانا ہوگا: خواجہ آصف
  • افغان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں، خواجہ آصف
  • علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار
  • افغان حکومت کے عدم تعاون کے باعث حالات یہاں تک پہنچےہیں ، خواجہ آصف
  • علی امین گنڈا پور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار
  • پاکستان کی افغانستان پر جوابی کارروائی مؤثر اور بروقت تھی، گورنر سندھ
  • افغان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچےہیں: خواجہ آصف