کراچی:

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا ہے کہ ہمیں وفاقی حکومت نے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے اور ہم ملک میں مزید مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

سیکریٹری اطلاعات پی پی پی شازیہ مری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیو وائرس ہمارے بچوں کا بہت بڑا دشمن ہے، سندھ بھر میں پولیو سے نمٹنے کے لیےعملی اقدامات کیے جا رہے ہیں، بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں پولیو کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسان مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا، زراعت پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، صدر آصف علی زرداری نے ہمیشہ کہا زراعت کو مضبوط کرنا ہے، آج اگر کسانوں پر توجہ نہ دی تو کسی حکومت کا نہیں ملک کا نقصان ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسان کومضبوط کریں گے تو ملک کی معیشت مضبوط ہوگی، یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور پی ایس ڈی پی مل کر بنانے کا وعدہ ہوا تھا۔

شازیہ مری نے کہا کہ اگر بند کمروں میں پی ایس ڈی پی بنائیں گے تو ناانصافی ہوتی ہے، ہمیں وفاقی حکومت نے تحفظات دور کرانےکی یقین دہانی کرائی ہے، ہم نہیں چاہتے ملک کے مسائل میں مزید اضافہ کریں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے وہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی حامی نہیں لیکن سیاسی جماعت ملکی مفاد کو نقصان پہنچائے تو پابندی لگنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت شرارت کرے اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچائے تو اس پر پابندی لگنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے وقت ہم سے بہت سے وعدے کیے گئے تھے لیکن وہ پورے نہیں ہوئے اس وقت یہ بھی طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی بناتے ہوئے ہمیں اعتماد میں لیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

شازیہ مری نے کہا کہ ہمیں غربت اور مہنگائی کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان شازیہ مری نے نے کہا کہ

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن

ڈی جی آئی ایس پی آر کی سخت پریس کانفرنس کے بعد ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کے امکانات عملی طور پر ختم ہوگئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن نظر آرہے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جا رہی ہے کہ اس ٹکراؤ کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی پالیسی ہے جس کے تانے بانے بانی پی ٹی آئی سے جڑتے ہیں جو مزاحمت اور ٹکراؤ چاہتے ہیں ۔

اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے مخالفین ان کی جماعت کو عملاً صوبائی حکومت کے ساتھ دہشت گردی یا دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔ان کے بقول ملکی سطح پر سے دہشت گردی کے عملاً خاتمہ کرنے میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت رکاوٹ ہے یا اسے سیاسی طور پر لگام دیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔حکومت کے بہت سے وزراء کے پی کے کی صوبائی حکومت کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں یا ان کا طرز عمل سخت اور جارحانہ ہے ۔

بعض سیاست دان، صحافی یا اینکرز بھی ہمیں یہ کہانی سنا رہے ہیں کہ صوبہ کا واحد حل گورنر راج ہے۔ان لوگوں کے بقول اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت و وزیر اعلیٰ نے خود کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست سے علیحدہ نہ کیا تو پھر گورنر راج ہی واحد آپشن ہے۔وفاقی وزیر قانون کے بقول گورنر راج کا نفاذ آئینی راستہ ہے اور اس سے یہ مراد لینا کہ یہ کوئی مارشل لا کی شکل ہے درست نہیں ۔

یہ خبریں بھی عام ہیں کہ ایک طرف وفاقی حکومت کے سامنے صوبہ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جہاں گورنر راج کا آپشن ہے تو وہیں یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے اور ان کے خلاف سخت گیر اقدامات کی بنیاد پر نئے گورنر کی تقرری بھی آپشن ہے تاکہ نئے گورنر کی مدد سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر مختلف نوعیت کے سنگین الزامات، ریاست مخالف سرگرمیوں اور ان کی نااہلی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر پی ٹی آئی کوئی نئی مہم جوئی کرتی ہے تو اس میں نئے وزیر اعلیٰ کا اہم کردار ہوگا ۔

اسی بنیاد پر وفاقی حکومت گورنر راج سمیت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف مختلف آپشن کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔اسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو بھی ممکن نہیں بنایا جارہا ۔ایسے لگتا ہے کہ معاملات مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے اپنے بیانات بھی ٹکراو کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔لیکن اس کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں ہمیں کہیں سے بھی کوئی مثبت کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا ۔

 ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے بدترین حالات سمیت افغانستان یا کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ارکان اسمبلی سمیت تمام صوبائی جماعتوں ،صوبائی گورنر اور دیگر اہم صوبائی سیاست دانوں ،قبائلی عمائدین اور میڈیا کی مدد سے امن جرگہ کیا تھا اور اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔اس امن جرگہ کا مشترکہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی حکومت کی حکمت عملی مرکز سے مختلف ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال یا ٹکراؤ کا نتیجہ صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں سامنے آنا چاہیے؟ کیا گورنر راج صوبہ میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گا؟یا فوجی آپریشن کے نتیجے میں حالات کو درست یا بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے؟ ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا سیاسی تقسیم مزید نہیں بڑھے گی؟ وفاقی حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ کوئی ایک صوبہ وفاقی حکومت یا ریاست پر اپنا ایجنڈا جبر کی بنیاد پر مسلط نہیں کرسکتا اور قومی سلامتی کے معاملات پر کمزوری دکھانا وفاق کے لیے ممکن نہیں ۔لیکن اسی حکمت عملی کے ساتھ صوبے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا بھی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے اور ایک اہم صوبہ جو براہ راست دہشت گردی کا شکار ہے اس کی حکومت کو نظر انداز کرنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ۔بالخصوص گورنر راج لگانے سے صوبے کی سیاست جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہے اس کا ردعمل سخت ہوگا جو مزید ٹکراؤ کی سیاست پیدا کرے گا۔

اس لیے اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان بڑھتا ہوا ٹکراؤ اور کشیدگی کا ماحول حالات کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کے آپشن پر سنجیدگی بھی دکھائی دیتی ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک پہلے ہی سیاسی ،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے ۔پہلے ہی اس ملک کے جمہوری،سیاسی آئینی اور قانونی سطح کے معاملات پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں اور بہت سے لوگ موجودہ صورتحال سے ناخوش بھی ہیں ۔ایسے میں ہمارے بھارت اور افغانستان سے بگڑتے تعلقات خود ہماری سیکیورٹی کے لیے نئے خطرات کو جنم دے رہے ہیں ۔ایسے میں ہماری داخلی سیاست کا ٹکراؤ ہماری تشویش میں اور زیادہ اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہیے اور یہ ذمے داری وفاقی حکومت پر ہی آتی ہے کہ وہ معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اختیار کرے ۔پہلے ہی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی سطح پر راستے محدود ہیں اور ان کی صوبائی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔

یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ مسئلہ محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتیں جے یو آئی اور اے این پی کی پالیسی وفاقی حکومت کی پالیسی سے مختلف ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت بھی وفاقی حکومت کی پالیسی سے بہت زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح جب صوبائی حکومت کے بارے میں دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر بیانیہ بنایا جائے گا تو اس پر ردعمل کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے ۔اس لیے جہاں صوبائی حکومت کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہے وہیں وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبائی حکومت کے ساتھ اتفاق کی بنیاد پر آگے بڑھے اور اس میں صوبائی حکومت کو وفاق کے ساتھ تعاون کے امکانات کو بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم
  • حکومت نیب کے ذریعے کسی سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم
  • نیب کو مکمل ادارہ جاتی آزادی حاصل ہے، سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے، وزیراعظم
  • حکومت نیب کے ذریعے سیاسی انتقام، کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم
  • وفاقی حکومت بذریعہ نیب سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی: وزیرِ اعظم
  • حکومت نیب کے ذریعے سیاسی انتقام اور کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم شہباز شریف
  • مشکل وقت میں چین جیسے دوست ساتھ ہوں تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی: عطا تارڑ
  • معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کی یقین دہانی، آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 1.29 ارب ڈالر قسط کی منظوری دیدی
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن
  • خان نہیں تو کچھ نہیں والی سوچ پر لعنت بھیجتے ہیں: وفاقی وزرا