اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں دکھائے جانے والے استاد اور طالبہ کے درمیان رومانوی تعلق کی وجہ سے لاہور کے کئی تعلیمی اداروں نے اپنے کیمپس میں ڈراموں کی شوٹنگ پر پابندی عائد کر دی ہے۔

’میں منٹو نہیں ہوں‘ اپنی کہانی اور کرداروں کی وجہ سے کافی پسند کیا جا رہا ہے، تاہم اسے شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔

ڈرامے میں ہمایوں سعید نے یونیورسٹی کے استاد جب کہ سجل علی نے یونیورسٹی کی طالبہ کا کردار ادا کیا ہے اور دونوں کو رومانوی تعلق میں دکھایا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ڈرامے کی ایک قسط میں سجل علی اپنی یونیورسٹی کی کلاس فیلو لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ خود کو اغوا کرنے کا ڈراما رچاتی ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں بازیاب کرانے کے لیے یونیورسٹی کے چانسلر اور ’منٹو‘ یعنی ہمایوں سعید آئیں۔

سجل علی کو اغوا کرنے والے طلبہ کے گروپ سے بات چیت کے لیے یونیورسٹی کے چانسلر اور ہمایوں سعید پہنچتے ہیں، جہاں طلبہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمایوں سعید اپنی طالبہ سجل علی سے عدالت میں جاکر شادی کریں، تبھی ان کا احتجاج ختم ہوگا اور اغوا شدہ سجل علی کو چھوڑا جائے گا۔

طلبہ کی جانب سے ہمایوں سعید اور سجل علی کی کورٹ میریج کے مطالبے کے منظر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور متعدد صارفین نے ڈرامے کے مذکورہ سین پر برہمی کا اظہار کیا۔

عتیقہ اوڈھو نے حال ہی میں ’کیا ڈراما ہے‘ نامی شو میں بتایا کہ ڈراما ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں استاد اور طالبہ کے درمیان رومانوی تعلق نے لاہور میں بحث کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی یونیورسٹیز نے اپنے کیمپس میں ڈراموں کی شوٹنگ ممنوع کردی ہے۔

ان کے مطابق وہ حال ہی میں لاہور سے واپس آئی ہیں اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ اس ڈرامے کی وجہ سے تعلیمی اداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سے وہ اپنے کیمپس میں ڈراموں کی شوٹنگ کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کا موقف ہے کہ ڈراما سیریل ’منٹو‘ میں غیر مناسب مواد دکھایا گیا ہے، استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق بالکل بھی مناسب نہیں اور اب سے کوئی بھی اسکول اپنے کیمپس میں شوٹنگ کی اجازت نہیں دے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ردعمل اس لیے بھی آیا کیونکہ ڈرامے میں کسی کو پڑھتے ہوئے نہیں دکھایا جا رہا اور عجیب سی سرگرمیاں چل رہی ہیں، اس لیے اس ردعمل کا آنا لازمی تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: میں منٹو نہیں ہوں اپنے کیمپس میں ہمایوں سعید کی وجہ سے سجل علی

پڑھیں:

کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری جعلی قرار دیدی

اسلام آباد (نیوزڈیسک) کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری جعلی قرار دیدی۔ انتظامیہ کراچی یونیورسٹی کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انرولمنٹ نمبر 5968/87 دراصل امتیاز احمد نامی طالب علم کو الاٹ ہوا تھا، طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ٹو کے نمبر 7124/87 کو جعل سازی سے استعمال کیا، نام اور انرولمنٹ نمبر بار بار تبدیل کیے گئے تاکہ مارک شیٹس اور ڈگری حاصل کی جا سکیں۔

رپورٹ میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہری عرفان مظہر کی درخواست پر یونیورسٹی نے دوبارہ تحقیقاتی عمل شروع کیا اور کنٹرولر امتحانات نے دوہرے انرولمنٹ نمبرز کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ڈگری اور مارک شیٹس کو غلط قرار دیا، اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے بھی تصدیق کی کہ طارق محمود 1984ء سے 1991ء تک کالج کے طالب علم نہیں رہے جب کہ ایچ ای سی نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں مؤقف اپنایا کہ ڈگری جاری کرنا یونیورسٹی کا اختیار ہے اور ایچ ای سی کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں چوں کہ کراچی یونیورسٹی اس ڈگری کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا ایچ ای سی بھی اس ڈگری کو تسلیم نہیں کرسکتی۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور ہائیکورٹ نے پتنگ بازی سے متعلق آرڈیننس پر عمل در آمد روکنے کی درخواست مسترد کردی
  • لاہور ہائیکورٹ نے پتنگ بازی کی اجازت کے خلاف درخواست مسترد کردی
  • لاہور ہائیکورٹ نے کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر کرنے کی درخواست مسترد کردی
  • خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو فون کر کے کہا تھا ووٹ دیتے ہیں حکومت بنا لیں: مصدق ملک کا دعویٰ
  •  خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی، مصدق ملک کا دعویٰ
  • کوئٹہ، دفعہ 144 کا نفاذ، اسلحہ، ڈبل سواری، مفلر پہنے پر پابندی
  • کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری جعلی قرار دیدی
  • پنجاب سمبلی میں 6 بلز منظور کرلیے گئے
  • وفاقی اردو یونیورسٹی نے نابینا سابق ملازم پر بھاری ہرجانے کا حق دعویٰ دائر کردیا
  • ایران کے بارے میں ٹرمپ کی خام خیالی