data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایل ای ڈی لائٹس نے پچھلی دہائی میں وہ انقلاب برپا کیا ہے جس نے نہ صرف روشنی کے معیار کو بہتر بنایا بلکہ بجلی کے استعمال کے انداز کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔

گھروں میں روایتی بلب اور ٹیوب لائٹس برسوں سے استعمال ہوتے رہے ہیں، مگر وہ بجلی کی اس قدر کھپت کرتے ہیں کہ مہینوں کے بل میں نمایاں اضافہ معمول بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایل ای ڈی بلب جدید تکنیک، کم حرارت پیدا کرنے والے نظام اور بجلی کی انتہائی کم کھپت کے باعث تیزی سے ہر گھر کا لازمی حصہ بنتے جارہے ہیں۔

ان ایل ای ڈی بلبز کی شہرت صرف اس وجہ سے نہیں کہ یہ زیادہ روشن ہوتے ہیں، بلکہ اصل وجہ وہ نمایاں بچت ہے جو یہ صارفین کو مہینوں اور برسوں میں فراہم کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق گھریلو بجلی کے استعمال کا تقریباً 15 فیصد حصہ صرف روشنی کے ذرائع پر خرچ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ شرح ایئر کنڈیشنر یا دیگر بھاری برقی آلات جتنی نہیں، مگر پھر بھی اتنی ہے کہ خاندانی بجٹ کو متاثر کرسکے۔ ایسے میں کون سا بلب استعمال کیا جائے، یہ فیصلہ براہِ راست بجلی کے بل کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک روایتی بلب کو سال بھر چلانے پر تقریباً 7.

23 ڈالرز یعنی 2 ہزار پاکستانی روپے سے بھی زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک ایل ای ڈی بلب صرف 1.08 ڈالرز یعنی لگ بھگ 508 روپے کے برابر بجلی خرچ کرتا ہے۔ اس طرح صرف ایک بلب کی حد تک بھی سالانہ ڈیڑھ ہزار روپے تک کی بچت ممکن ہوجاتی ہے۔

اب اگر ایک عام گھر کے استعمال پر نظر ڈالی جائے، جہاں کم از کم چار سے پانچ بلب ایک ساتھ روشن ہوتے ہیں، تو یہ بچت چھ سے دس ہزار روپے سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔ جتنے زیادہ ایل ای ڈی بلب گھر میں لگائے جائیں، بچت بھی اسی رفتار سے بڑھتی جاتی ہے۔

اس بڑی بچت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایل ای ڈی بلب روایتی بلبوں کی طرح حرارت پیدا نہیں کرتے، جس سے بجلی کم خرچ ہوتی ہے۔ ان میں موجود ری ایکٹیو ڈائیڈز برقی رو کو براہِ راست روشنی میں تبدیل کرتے ہیں، اسی لیے توانائی کا ضیاع نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں، ایل ای ڈی لائٹس روایتی بلبوں اور یہاں تک کہ انرجی سیور اور ٹیوب لائٹس کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ دیرپا ثابت ہوتی ہیں۔ ماضی میں ٹیوب لائٹس اور انرجی سیور بلب کو کم بجلی خرچ کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اب جدید تحقیق نے یہ تصور بدل دیا ہے۔

امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایل ای ڈی لائٹس ٹیوب لائٹس کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ بچت فراہم کرتی ہیں اور ان کی عمر بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف بل میں واضح کمی آتی ہے بلکہ بلب بار بار تبدیل کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایل ای ڈی بلب گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی بچت، اخراجات میں کمی، بہتر روشنی، کم حرارت، اور زیادہ عمر جیسی خصوصیات کے باعث سب سے بہترین انتخاب بن چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں شاید روایتی بلب یا ٹیوب لائٹس کا استعمال تقریباً ختم ہوجائے، کیونکہ ایل ای ڈی نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ جیب پر بھی ہلکا بوجھ ڈالتی ہیں۔ اگر گھر میں اب بھی پرانے بلب یا انرجی سیور استعمال ہو رہے ہیں، تو انہیں ایل ای ڈی سے تبدیل کرنا اب صرف ایک بہتر انتخاب نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایل ای ڈی بلب روایتی بلب ٹیوب لائٹس بجلی کے

پڑھیں:

شفافیت و اعتماد انشورنس صنعت کی ترقی کا ضامن ہے،وفاقی انشورنس محتسب

اسلام آباد(نیوزڈیسک)پاکستان کا انشورنس شعبہ ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کے فروغ اور لائف انشورنس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث اس شعبے میں توسیع ہوئی ہے، تاہم ملک میں مجموعی انشورنس رسائی اب بھی خطے کے کئی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

لاکھوں گھرانے آج بھی منظم مالی تحفظ کے بجائے غیر رسمی سہاروں پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس شعبے کی ترقی صرف نئے پروڈکٹس لانے سے نہیں بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی، شفافیت، منصفانہ طرزِ عمل اور صارفین کی آگاہی سے ممکن ہوگی۔ انشورنس بنیادی طور پر اعتماد پر مبنی معاہدہ ہے۔ عام خدمات کے برعکس، انشورنس کا حقیقی فائدہ صرف اُس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی کلیم پیدا ہوتا ہے۔

اگر صارفین کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ کیا خرید رہے ہیں یا اُن کے کلیمز کس حد تک پورے ہوں گے، تو اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ یہ بے یقینی اکثر پیچیدہ پالیسی زبان، ناکافی معلومات یا نمائندگان کی غیر واضح رہنمائی کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ شفافیت کوئی تکنیکی تقاضا نہیں بلکہ انشورنس کاروبار کی بنیاد
ہے۔ جب تک طریقہ کار واضح نہ ہوں، نہ تو مارکیٹنگ مددگار ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی مختلف النوع پروڈکٹس۔

وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ صارفین کی شکایات کے ازالے اور انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں پالیسی ہولڈرز اپنا معاملہ اس ادارے کے سامنے لاتے ہیں، جن میں زیادہ تر شکایات کلیم میں تاخیر، کٹوتیوں یا پالیسی کی غلط تشریح سے متعلق ہوتی ہیں۔ محتسب کا دفتر صارف اور انشورر کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا ہے اور بروقت ریلیف فراہم کرتا ہے۔ اکثر مسائل بدنیتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ طریقہ کار کی خامیوں، ناکافی معلومات اور پالیسی شقوں کی غیر یکساں تشریح سے پیدا ہوتے ہیں، جن کی نشاندہی ادارہ باقاعدگی سے کمپنیوں کو کرتا ہے۔

ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ بہت سے صارفین پالیسی خریدتے وقت اس کی شرائط، اخراجات، ضروری دستاویزات یا حدودِ کوریج سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے۔ نتیجتاً کلیم میں تاخیر یا انکار کی صورت میں تنازع جنم لیتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں بھی معلومات کی کمی اور ناکافی رابطہ صارفین کو مشکلات میں ڈالتا ہے۔ دستاویزات کو سادہ، جامع اور قابلِ فہم بنانا اور صارفین کے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنا، شکایات میں نمایاں کمی لا سکتا ہے۔

آئندہ اصلاحات کے سلسلے میں ڈیجیٹلائزیشن شفافیت بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔ ڈیجیٹل پالیسی اجرا، آن لائن کلیم ٹریکنگ اور خودکار نظام نہ صرف انسانی غلطیوں کو کم کرتے ہیں بلکہ ریکارڈ کی مضبوطی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بدولت وہ آبادی بھی انشورنس سہولتوں تک پہنچ سکتی ہے جو دور دراز علاقوں میں روایتی نیٹ ورک سے محروم ہیں۔

آبادی کا بڑا حصہ اب بھی نہیں جانتا کہ انشورنس کیسے کام کرتی ہے اور یہ کس طرح گھریلو مالی بوجھ سے بچا سکتی ہے۔ عوامی آگاہی مہمات، تعلیمی پروگرام اور مالی اداروں کے اشتراک سے اس سوچ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے کہ انشورنس کوئی اضافی خرچ نہیں بلکہ ایک لازمی تحفظ ہے۔ بدلتے عالمی رجحانات کے پیشِ نظر پاکستان کو سائبر انشورنس، مائیکرو انشورنس اور شریعت کے مطابق پروڈکٹس جیسے جدید حل بھی اپنانے ہوں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی نے انشورنس کے کردار کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلابوں، غیر معمولی بارشوں اور درجہ حرارت میں اضافے نے زراعت، مویشیوں، رہائش اور چھوٹے کاروباروں کو شدید متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موسم سے منسلک انڈیکس انشورنس، فصلوں اور مویشیوں کی انشورنس جیسے ماڈلز ناگزیر ہو چکے ہیں۔عوامی اور نجی شعبے کے اشتراک سے ہی یہ اسکیمیں بڑے پیمانے پر قابلِ عمل اور سستی بنائی جا سکتی ہیں۔

اعتماد کی بحالی اس شعبے کا سب سے بنیادی ہدف ہے۔ منصفانہ کلیم سیٹلمنٹ، شفاف رابطہ، اعتماد کی فضاء اور صارفین کے لیے آسان سہولیات وہ ستون ہیں جن پر اس صنعت کا مستقبل قائم ہوگا۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ صارفین کےلیے ایک قابلِ اعتماد فورم کے طور پر موجود ہے، جبکہ بیمہ کمپنیوں کے لیے بھی محتسب کا ادارہ رکاوٹ کے بجائے اصلاح اور بہتری کا موثر ذریعہ ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی اور موسمیاتی چیلنجز کے تناظر میں انشورنس ایک مضبوط حفاظتی ڈھال ثابت ہو سکتی ہے، مگر یہ تبھی ممکن ہے جب شفافیت، انصاف اور عوامی اعتماد ہر پالیسی اور ہر فیصلے کا مرکز بنے رہیں۔ عوام کسی بھی شکایت کی صورت میں وفاقی انشورنس محتسب سے ان کی ویب سائٹ www.fio.gov.pk یا پھر ہیلپ لائن 1082 پررابطہ کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب، دریافت نقوش کے تجزئیے کیلئے ڈیجیٹل منصوبہ تیار
  • اسموگ اور سردی کے موسم میں صحت کیسے برقرار رکھیں
  •  اتفاق رائے ہوگیا تو 28 ویں ترمیم بجٹ سے پہلے آسکتی ہے:رانا ثنا اللہ  
  • این اے 18 ہری پور سے ہار پی ٹی آئی کو لے کر بیٹھ سکتی ہے
  • لیپ ٹاپ بیٹریاں گھر کی بجلی کا راز بن گئیں، فرانسیسی شہری کی حیران کن ایجاد
  • نہ لوڈ شیڈنگ نہ بِل، لیپ ٹاپ بیٹریوں سے اپنے گھر کو بجلی فراہم کرنے والا شخص
  • شفافیت و اعتماد انشورنس صنعت کی ترقی کا ضامن ہے،وفاقی انشورنس محتسب
  • کان کے پردے پھٹنے کی علامات اور فوری اقدامات
  • ’سرحدیں بدل سکتی ہیں، سندھ کل بھارت کا حصہ بھی بن سکتا ہے‘، راجناتھ سنگھ کا متنازع بیان