Express News:
2025-12-08@01:21:28 GMT

زباں فہمی270 کچھ بہرائچ کے بارے میں (حصہ آخر)

اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT

بہرائچ کے بارے میں دستیاب معلومات کا ذخیرہ بہرحال دیگر علاقوں کی نسبت کم ہے مگر بہرحال اس باب میں تحقیق کا سفر اَبھی جاری ہے اور ہمیں مثبت طرزِفکر اپناکر روشن مستقبل کی توقع کرنی چاہیے۔ یہاں بطور لِسانی محقق مجھے یہ خیال دامن گِیر ہوا کہ بہرائچ میں بولی جانے والی زبانوں میں اردو اور ہندی کے زبان واَدب سے متعلق کچھ نہ کچھ کام پورے خطے میں ہوتا رہا ہے، مگر کیا اَوَدھی کے باب میں، علی الخصوص بہرائچ میں کوئی کام ہوا؟ غالباً نہیں!

ماقبل ذکر ہوا کہ سیّدسالار مسعودغازی (رحمۃ اللّہ علیہ) جیسے جری، شجیع اور عالم وصوفی نے بہرائچ میں اسلامی حکومت کی بِناء ڈالی تو اُن کے ہمراہ شاملِ جہاد اور مابعدتشریف لانے والے اولیائے کرام کا ایک سلسلہ تھا جس نے اس سرزمین کو فیض یاب کیا۔ لگے ہاتھوں اس ضمن میں ایک خلاصہ پیش کرتا چلوں جو ماسٹر محمد نذیر خاں کے ایک مضمون سے اقتباس ہے:

’’بہرائچ کی مسلم تاریخ کا آغاز حضرت سیّدسالار مسعود غازی کے ورود مسعود سے ہوتا ہے۔ سیّد صاحب موصوف صرف ایک جانباز مجاہد ہی نہ تھے بلکہ بہ حیثیت ایک روحانی پیشوا کے بھی ایک مقام بلند کے مالک تھے۔ وہ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی کے مسترشد اور خلیفہ مجاز تھے۔

سیّد صاحب کے ساتھیوں میں اکثر اولیاء اللّہ تھے جو سرزمین بہرائچ میں جام شہادت نوش فرماکر سرخرو ہوئے۔ اُن کے انفاس گرم کی تاثیر سے بہرائچ کی مشرکانہ جامد فضا میں، توحید کا تموّج اور اسلامی علوم و اخلاق کی تحریک پیدا ہوئی۔ سلسلہ سہروردیہ، فردوسیہ کے مشہور، صاحبِ تصنیف بزرگ حضرت سید افضل الدین امیرماہ کا مزار آج بھی وسط ِشہر میں عقیدت گاہِ انام بنا ہوا ہے، چشتیہ اور قادریہ خانوادے کے حضرت سید اجمل شاہ بہرائچی اور سید بڈھن شاہ بہرائچی اسی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے پردادا حضرت فیروز شہید کا مزار، دریا سرجو کے کنارے یہیں واقع ہے۔ ان کا ذکر اخبارالاخیار میں قدر ے تفصیل سے موجود ہے۔

حضرت مرزا جان جاناں شہید کے خلیفہ ارشد حضرت شاہ نعیم اللّہ بہرائچی، مصنف معمولات مظہریہ، بشارات مظہریہ بشارات مظہریہ: نسخہ برٹش میوزیم (لندن) میں محفوظ، انفاس الاکابر)، حضرت شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی کے خلیفہ برحق حضرت شاہ بشارت اللّہ بہرائچی اور حضرت شاہ احمد سعید دہلوی کے خلیفہ مجاز حضرت شاہ ابو الحسن بہرائچی کا وطن ہونے کا شرف اسی شہر کو حاصل ہے۔ یہ اور ان کے علاوہ بے شمار علماء کرام اور صوفیائے عظام کی عملی کاوشوں اور عملی جدوجہد کی بدولت بہرائچ بغدادِعلم، غرناطہ تمدن اور شیرازِادب و تہذیب بن گیا۔‘‘

رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی

مجھے  ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں   اپنا

یہ منفرد شعر میرزا مظہرجان ِ جاناں (رحمۃ اللہ علیہ) کا ہے جن کے مُرید و تلمیذ، شاہ نعیم اللّہ بہرائچی(1738ء تا 1803ء)، بہرائچ میں اوّلین مقامی شاعر قرار پائے۔ ایک تحریر اثنائے تحقیق نظر سے گزری جس میں حضرت جانِ جاناں کو میرزا رفیع سوداؔ اورمیرؔ سے بہتر شاعر قراردیا گیا تھا۔ یہ نکتہ ہنوز تحقیق طلب ہے کیونکہ شاید اُن کے کلام پر کسی جدید نقاد کی نظر نہیں پڑی۔ میری رائے میں اِس باب میں کوشش کی جاسکتی ہے۔

’’خانقاہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں میں جہاں ایک طرف متصوّفانہ تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری تھا، وہیں دوسری طرف شعر وشاعری کے بھی چرچے ہوا کرتے تھے۔ اس شغل میں قاضی ثناء اللّہ پانی پتی، شاہ نعیم اللّہ بہرائچی، شاہ غلام علی دہلوی، مولوی ثناء اللّہ سنبھلی، مولوی غلام یحیٰ بہاری، انعام اللّہ خاں یقینؔ، خواجہ احسن اللہ بیانؔ، محمد فقیہ دردمندؔ، ہیبت اللّہ خاں قلی حسرتؔ پیش و پیش تھے۔

حضرت شاہ نعیم اللّہ بہرائچی نے اپنے چار سالہ قیام دہلی کے دوران میں، اپنے پیرومرشد حضرت مرزا مظہر ؔجان جاناں سے تصوف کے رموزو نکات کے ساتھ شعر گوئی کی بھی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ آپ نے اردو میں متعدد مثنویاں کہی ہیں۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ محمد عاقل سبزپوش چشتی کے قادریہ شجرہ کو فارسی میں نظم کیا ہے۔‘‘ )آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید،ص305۔ سید ظفر احسن بہرائچی، سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ (۔

 موضع بھدوانی، قصبہ فخرپور، ضلع بہرائچ میں پیدا ہونے والے شاہ نعیم کا مزار، احاطہ مزارِ شاہ نعیم، گیند گھرمیدان، بہرائچ میں ہے۔ شاہ نعیم اللّہ بہرائچی کی تصانیف وتالیفات کی تعداد ایک بیان کے مطابق چھبیس (26) ہے جبکہ بعض راویوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، بہرحال ایک فہرستِ طویل موجود ہے جس میں سب سے مشہور دو فارسی کتب ’بِشاراتِ مظہریہ‘ اور ’معمولاتِ مظہریہ‘ ہیں، دونوں کتابوں میں انھوں نے اپنے مُرشد حضرت مظہر جانِ جاناں کے سوانح رقم کیے ہیں۔ اُن کی تیسری اہم کتاب ’رقعاتِ کرامت ساعت‘ ہے جس میں مُرشد کے مکاتیب کا انتخاب شامل ہے۔ اوّل الذکر کتاب کا ایک قلمی نسخہ لندن عجائب گھر کتب خانے میں، جبکہ دو نسخے علی گڑھ میں محفوظ ہیں اور ہنوز زیورِطباعت سے آراستہ نہیں ہوئے۔ ’معمولاتِ مظہریہ‘ کو میرزا مظہر جان ِجاناں کی زندگی سے متعلق پہلی کتاب قراردیا جاتا ہے جس کے کئی اردو تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ شاہ نعیم کی فہرستِ کتب میں عربی وفارسی زبان میں لکھی گئی کتابوں کا ذکر شامل ہے۔ اُن کی کہی ہوئی حمد کا ایک شعر ہے:

الٰہی مِری عرض کر تُو  قبول

مِرے دل میں دے دردِ عشقِ رسول

اس حمد میں نعتیہ اشعار بھی شامل ہیں جس سے اس کا شمار نعت میں بھی کیا جاسکتا ہے۔

شاہ نعیم کی ایک مناجات سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

مِرے مخلصوں کو تُو توفیق دے

کمالاتِ باطن کی تحقیق دے

دیگر کلام میں بھی یہی رنگ نمایاں ہے، گویا وہ عشق ِ مجازی کے رنگ میں طبع آزمائی کے قائل ہی نہ تھے۔

بہرائچ میں اردو زبان وادب کی تاریخ کی کوئی مربوط شکل میرے پیش نظر نہیں، البتہ یہ معلوم ہوا کہ اس شہر کے اوّلین نمایاں ناموں میں میرزا غالبؔ کے شاگرد، عین الحق کاٹھوی المتخلص بہ بے صبرؔ کاٹھوی بھی شامل ہیں جو 1846میں ضلع میرٹھ کی تحصیل باغپت کے ایک قصبہ کاٹھ میں پیدا ہوئے، ابتدائی عمر سرکاری ملازمت میں بسر کرنے کے بعد وہ بہرائچ کی مشہور ریاست، نانپارہ تشریف لے گئے اور وہاں ایک گاؤں رام پور ٹھیکے پر لے لیا۔ (ماقبل زباں فہمی کے ایک مضمون میں یہ ذکر کرچکا ہوںکہ خطہ ہند بشمول موجودہ پاکستان میں رام سے موسوم مقامات بڑی تعداد میں موجود ہیں)۔ اُن کا انتقال اسی جگہ 1925میں ہوا۔ غالبؔ کے اس شاگرد کو فارسی زبان وادب پر عبور حاصل تھا۔ اُن کا مرتبہ ’تذکرۃ الشعراء‘ اور ایک دوسری کتاب ’سرقہ شعری‘ کتب خانہ درگاہ حضرت سالارغازی میں محفوظ ہیں۔ بے صبر ؔ کاٹھوی کا ذکر نامور ادیب مالک رام کی کتاب ’تلامذہ غالب‘ میں بھی منقول ہے۔

{نانپارہ کا ذکر اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی رحمۃاللّہ علیہ کے اس مشہور شعر میں ہے:

کروں مدحِ اہل ِ دَوَل رضاؔ، پڑے اس بلا میں میری بلا

 میں گدا ہو ںاپنے کریم (ﷺ) کا ، میرا دین ’پارۂ ناں‘ نہیں!

اس شعر کا پس منظر یہ ہے کہ نانپارہ کے نواب نے حضرت نوری میاں (سیدشاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی) کے توسط سے اعلیٰ حضرت سے فرمائش کی کہ میرے بارے میں کوئی شعر کہہ دیں کہ میری شان وشوکت میں اضافہ ہو اور رہتی دنیا تک یادگار رہے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنی ایک نعت ہی میں فی البدیہ اضافہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا اور کسی بھی دنیوی امیر کی قصیدہ خوانی سے برأت کا اظہار کیا، جس سے نواب بہت شرمسار ہوا۔ اس نعت کا مطلع ہے:

وہ کمالِ حُسن ِحضور (ﷺ) ہے کہ گمانِ نقصِ جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دُور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں}

پہلی قسط میں خاکسار نے میرؔ اور مابعد کے شعراء کا ذکر کیا تھا جنھوں نے بہرائچ کو خراج تحسین پیش کیا، اب کچھ اور شعراء کا ذکر کرتا ہوں۔

مرثیے کے نامور سخنورمِیراَنیسؔ کا سلسلہ سخن بھی بہرائچ تک پہنچا اور خوب چلا۔ میرنفیس ؔ (فرزندِ اَنیسؔ) کے شاگرد مولوی ضامن علی خاں انیقؔ بہرائچی اس باب میں سَرخَیل ہوئے جن کی دو کتابیں ’مناقب چار یار‘ (اردو) اور ’ماحریفاں‘ (فارسی) شایع ہوئیں;قلمی وغیرمطبوعہ نسخے اس پر مستزاد۔ اُن کا منتخب کلام بعنوان ’گلدستۂ انیق‘ ؔ ڈاکٹر نعیم اللّہ خاں خیالیؔ نے مرتب کیا تھا جو اَنیق ؔ بہرائچی کے گھرانے میں محفوظ ہے۔ اُن کے پڑ پوتے عبدالرحمٰن خاں وصفیؔ اور صاحبزادی کی آل سے ڈاکٹر نعیم اللّہ خاں خیالیؔ نے بہرائچ کے ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

میراَنیسؔ کی طرح اُن کے معاصر میرزا دبیرؔ کا سلسلہ شعری بھی بہرائچ میں جاری ہوا۔ دبستان ِ دبیرؔ کا مرکز بنا بہرائچ کا تاریخی قصبہ جرول جہاں شیخ گوہر علی مشیرؔجرولی (کلام رضا کتب خانہ رام پور میں موجود)، سید ظفر مہدی اثیمؔ جرولی (شاگرد ِمیرزا دبیرؔ)، سیدحیدر مہدی شمیمؔ جرولی (شاگرد میرزا اوج فرزندِ دبیر) مولوی حکیم سید باقر مہدی بلیغؔ جرولی (شاگرد ِمیرزادبیرؔ و شاگردِمیرزا اوجؔ)، سید فضل مہدی نسیمؔجرولی و مولوی سید اکبر مہدی سلیمؔ جرولی (شاگرد ِمیرزا دبیرؔ) نے خوب رنگ جمایا، جبکہ دیگر ممتاز شعراء میں شیخ رحیمؔ جرولی، دلؔ جرولی، سید ریاض علی ریاضؔ جرولی، سید شاکر حسین رضوی شاکرؔ جرولی، حکیم عبد الحفیظ پیکرؔ جرولی نے شہرت پائی۔

غالبؔ کے حریف اُستاد ذوق ؔ کے تلامذہ میں داغؔ دہلوی نے سب سے زیادہ نام کمایا اور ہندوستان کے چپّے چپّے پر اُنہی کے شاگردوں کا نام نمایاں ہوتا رہا۔ اس ضمن میں بہرائچ بھی مختلف نہ رہا جہاں داغؔ کے شاگرد جگرؔ بسوانی کے طفیل دبستانِ داغؔ کی بنیاد پڑی۔ اُن کے مشہور تلامذہ میں منشی محمد یار خاں رافتؔ، شفیع اللّہ شفیعؔ بہرائچی اور تصدق حسین خاں شمسؔ لکھنوی ( 1886ء تا 14 /15دسمبر1962ء بمقام لکھنؤ) کے اسماء قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ شمسؔ لکھنوی ابتداء میں داغؔ کے حریف امیرؔ مِینائی کے شاگرد تھے، پھر اُن کی وفات کے بعد، اُن کے تلمیذ ِ خاص مولانا برکت اللّہ رضاؔ فرنگی محلی سے اصلاح لینے لگے اور رضاؔ کے انتقال کے بعد اُن کے جانشین بھی قرار پائے۔ اس ساری فضا میں اُن کا سلسلہ داغؔ میں داخل ہونا، گو تاخیر سے سہی، بہت اہم ہے۔ داغؔ اور اَمیرؔ کے حِینِ حیات ایسے معاملات کئی ایک ہوئے، مگر ایک مدتِ مدید کے بعد شاید ایسی مثالیں کم کم ہی دیکھنے کو ملی ہوں گی۔

 شمسؔ لکھنوی نے عبدالحلیم شررؔ جیسے نامی ادیب کی صحبت میں رہ کر نثرنگاری میں بھی خوب مقام بنایا۔ انھوں نے ایک مدت تک شررؔ کے رسائل ’سخن سنج‘، ’دلگداز‘ اور ’گلدستہ لطیف‘ کی ادارت کا منصب بھی سنبھالا۔ شمسؔ کا ایک اور حوالہ ہندوستانی سیاست سے تعلق بھی ہے۔ وہ 1917ء میں سراجؔ، مستطرؔ، قدیرؔ ودیگر شعراء کے ساتھ مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور سیاست میں اچھی خاصی شہرت پائی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کچھ عرصہ ریاست محمدی میں ملازمت کی اور راجہ اشفاق علی کے استاد رہے۔ مابعد شمسؔ صاحب ستائیس ( 27 ) سال تک ریاست نانپارہ، بہرائچ میںایک ملازمت سے وابستہ رہے اور یہی وہ دَور تھا جب نانپارہ کی ادبی حیثیت نمایاں ہوئی اور تلامذہ شمسؔ کا ایک سلسلہ جاری ہوگیا۔

 بہرائچ کے نامور شعراء میں بابا جمالؔ بہرائچی، شہرتؔ بہرائچی، منشی محمد یار خاں رافتؔ بہرائچی، طورؔ نانپاوری، دلؔ جرولی، عبد الرحمٰن خاں وصفیؔ بہرائچی، واصف ؔ القادری خیرآبادی ثم نانپاروی، اظہار ؔ وارثی، عبرت ؔ بہرائچی اور ایمنؔ چغتائی نانپاروی کے اسماء شامل ہیں۔

 بہرائچ کے معروف جواں سال محقق جنید احمد نور نے بتایا کہ ’’بہرائچ کے قصبہ نانپارہ اور جرول کے بیشتر شعرائے کرام کو دبستان لکھنؤ کے تمام استاذ شعراء سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ پیارے صاحب رشید لکھنوی اور شمسؔ لکھنوی کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ شیخ گوہر علی مشیر جرولی، راجہ جنگ بہادر خاں جاہ (ریاست نانپارہ)، شہنشاہِ طنزومزاح حضرت شوق بہرائچی، حکیم صفدر علی مہاجن تخلص صفا، بابا جمال، محسن زیدی، اظہار وارثی اور فرحت احساس وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو شعراء بھی بہت ہوئے ہیں جن میں قدیم شعراء میں بابو سورج نارائن سنگھ آرزو بہرائچی، بابو لاڈلی پرساد حیرت بہرائچی، پارس ناتھ مشرا بھرمر بہرائچی قابلِ ذکر ہیں‘‘۔ اس فہرست میں جمالؔ بہرائچی اس لحاظ سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ اُن کے تلامذہ کے ایک بڑے حلقے نے اُن کا نام روشن کیا اور آج بھی بہرائچ میں اُن کا نام بہت اہم اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اُن کی فنّی خدمات کے اعتراف میںاظہارؔ وارثی نے کیا خوب کہا تھا:

ایک بابا جمال کے دم سے

جانے کتنوں کو شاعری آئی

جدید اُردو شعراء میں شامل، ترقی پسند شاعر کیفیؔ اعظمی کا بچپن اور مشاعروں میں شرکت کا آغاز بہرائچ سے ہوا، جبکہ ممتاز سخنور بیکل ؔ اُتساہی کی نعت گوئی کی ابتداء بھی وہیں درگاہِ سالارپر منعقد ہونے والے مشاعرے سے ہوئی۔ پروفیسر سید مسعودحسن رضوی ادیبؔ، عصمت ؔچغتائی، عظیم بیگ چغتائی، قاضی اطہرمبارک پوری اورمصباح اللغات کے مؤلف عبدالحفیظ بلیاوی جیسی مشہور علمی وادبی شخصیات نے بھی بہرائچ میں قیام کیا اور اِس ضمن میں کچھ تحقیقی مواد بھی دستیاب ہے۔

ہرچند کہ راقم نے انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا، اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، آزاد دائرۃ المعارف ودیگر کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی سعی کی، مگر سچ یہ ہے کہ اس ضمن میں بہرائچ کے ہونہار محقق جنید احمد نور نے خاکسار کی سب سے زیادہ مدد کی۔ ان کی توجہ اور تعاون کے بغیر اس موضوع پر اس قدر لکھنا بھی محال تھا۔ بشرطِ فرصت وصحت کبھی مزید لکھوں گا تو شاید محقق موصوف کے متعلق بھی خامہ فرسائی کروں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شاہ نعیم الل ہ بہرائچی بہرائچی اور بھی بہرائچ شعراء میں بہرائچ کے میں محفوظ الل ہ خاں حضرت شاہ کے شاگرد کا سلسلہ ذکر ہیں میں بھی کے بعد کا ایک کے ایک کا ذکر

پڑھیں:

مسلح افواج کے بارے میں منفی بیانیہ قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی؛ اویس لغاری

سٹی 42: وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس قومی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ریاستی اداروں کی واضح اور دوٹوک پوزیشن لائقِ تحسین ہے۔

وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ قوم کو گمراہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں، حقیقت سامنے آ چکی ہے۔اداروں کے خلاف بیانیہ تراشنا قومی مفاد کے منافی ہے۔آزادیِ اظہار ملک کی سلامتی سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔

ریاست مخالف مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ترجمان پاک فوج کے اہم سوالات پوری قوم کی آواز ہیں۔مسلح افواج کے بارے میں منفی بیانیہ قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔وفاق اور خیبر پختونخوا میں کارکردگی سے متعلق سوالات کے جواب قوم جاننا چاہتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے والی افواج پر تنقید نامناسب ہے۔قوم کی سلامتی کسی فرد یا شخصیت سے زیادہ اہم ہے۔

گوجرانوالہ کا ترقی کی شاہراہ پر بڑا قدم؛ شہباز شریف نے بیلچہ چلادیا

اویس لغاری نے کہا 6 اور 7 مئی کی شب پاکستان کی عسکری برتری نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا ۔اس کامیابی پر چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، بھارت کے خلاف تاریخی کامیابی نے پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا۔فتنہ اور انتشار کے خلاف واضح پالیسی قابلِ تحسین ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عسکری قیادت میں پاکستان مزید مضبوط ہو گا۔ہم مستقبل کے روشن اور مستحکم پاکستان پر یقین رکھتے ہیں۔

پشین؛ عوام کو دیکھ کر میر سرفراز بگٹی اچانک گاڑی سے اتر کر لوگوں میں گھل مل گئے

متعلقہ مضامین

  • مسلح افواج کے بارے میں منفی بیانیہ قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی؛ اویس لغاری
  • فلسطینیوں کی جبری بیدخلی کسی صورت قابلِ قبول نہیں؛ مسلم ممالک یک زباں ہوگئے
  • دین اسلام حضرت ابوطالبؑ کی محنت اور ان کی اولاد کی قربانیوں کا نتیجہ ہے،علامہ ریاض نجفی
  • قابض صیہونی رژیم کی نئی شرارت کے بارے پاکستان سمیت 8 اسلامی ممالک کا انتباہ
  • جو ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے اس بارے میں حکومت ضرور سوچے گی، طلال چوہدری
  • اقرا کنول کا ڈکی بھائی کی ذہنی حالت کے بارے میں انکشاف
  • بانی پی ٹی آئی وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو بانی ایم کیو ایم کرتے تھے،طلال چوہدری