دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں خواتین کی صورتحال میں تنزلی ہوئی، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
آج 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں خواتین کی صورتحال میں تنزلی کا انکشاف ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے خواتین کے امور کے ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں آب و ہوا کی تبدیلی اور جمہوریت کے انحطاط کے باعث خواتین کے حقوق کی صورتحال کمزور ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 8 مارچ: خواتین کا عالمی دن
رپورٹ کے مطابق جمہوری اداروں کی کمزوری اور صنفی مساوات پر منفی ردعمل ایک ساتھ بڑھ رہے ہیں، جس سے خواتین کے حقوق کے اہم امور پر موجود متفقہ بیانیے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
1995 میں ہونے والی عالمی کانفرنس کی سفارشات کے نفاذ میں رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی ممالک نے اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں اس کی سفارشات پر پیشرفت ابھی تک ملے جلے نتائج کی حامل رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی تین چوتھائی پارلیمانی اراکین مرد ہیں۔ سماجی تحفظ کے فوائد حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم 2 ارب خواتین اور لڑکیاں ابھی بھی سماجی تحفظ سے محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: خواتین معاشرے کی معمار، گھروں کا ستون اور مستقبل استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
ملازمتوں میں صنفی تفاوت کی وضاحت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 25 سے 54 سال کی عمر کی صرف 63 فیصد خواتین ملازمت کر رہی ہیں، جبکہ اسی عمر میں مردوں کی ملازمت کی شرح 92 فیصد ہے۔ رپورٹ میں عالمی وبا، تنازعات، آب و ہوا کی تبدیلی اور جدید ٹیکنالوجی جیسے چیلنجز کا ذکر کیا گیا جن کے نتیجے میں صنفی مساوات کو خطرات لاحق ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ دس سالوں میں تنازعات کے دوران جنسی تشدد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا نشانہ 95 فیصد بچے اور نوجوان لڑکیاں ہیں۔ 2023 میں 6 کروڑ 12 لاکھ خواتین جنگ زدہ علاقوں میں رہ رہی ہیں، جو کہ 2010 کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خواتین کے کردار کو تسلیم کرنے کا حلف!
رپورٹ میں صنفی بنیاد پر آن لائن تشدد کی ایک نئی قسم کا ذکر بھی کیا گیا ہے، عالمی سطح پر، ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔
اقوام متحدہ نے صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کثیر الجہتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں نئی ٹیکنالوجیز تک رسائی، آب و ہوا میں عدل و انصاف، غربت پر قابو پانے کی سرمایہ کاری، عوامی معاملات میں شرکت میں اضافہ، اور صنفی تشدد کے خلاف کاروائی شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ خواتین کے رپورٹ میں خواتین کی گیا ہے کہ کہا گیا ہوا ہے یہ بھی
پڑھیں:
پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے نمایاں طور پر کم
رواں مالی سال میں پاکستان کے لیے 38 ارب ڈالر کی متوقع ترسیلات زر کی آمد کے باوجود، پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (پی آر اے سی) کی جانب سے پیر کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2013 سے 2023 کے درمیان ترسیلات زر میں سالانہ اوسط 6.1 فیصد کی کمپاؤنڈ شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مگر فی فرد ترسیلات کا حجم اب بھی دیگر ممالک سے کم ہے۔
2023 میں پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات زر 2 ہزار 529 ڈالر رہیں، جو کہ فلپائن (16 ہزار 780 ڈالر)، تھائی لینڈ (9 ہزار 709 ڈالر)، میکسیکو (5 ہزار 914 ڈالر)، چین (4 ہزار 626 ڈالر) اور بھارت (3 ہزار 906 ڈالر) کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں عدم استحکام، سیاسی غیر یقینی صورتحال اور ملکی معیشت کے اندرونی ساختی مسائل شامل ہیں۔
مثال کے طور پر، 2016 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب 5 کروڑ ڈالر تھے، جو کم ہو کر 2023 میں 11 ارب 3 کروڑ ڈالر تک آگئے، جو بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔
پی آر اے سی نے اس اتار چڑھاؤ کو ساختی چیلنجز سے منسلک کیا جن میں ٹیکسٹائل سیکٹر پر حد سے زیادہ انحصار، محدود برآمدی تنوع، بڑھتی ہوئی درآمدات، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور معمولی ترسیلات زر شامل ہیں۔
رپورٹ میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے حالیہ اقدامات کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ ان اقدامات نے ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو جزوی طور پر بڑھایا ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، جس سے صنعتی یا زرعی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔
پی آر اے سی نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہدفی اصلاحات تجویز کی ہیں، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر پیداوار کو گھریلو مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کرنا، ترسیلات زر کی منتقلی پر اخراجات میں کمی، آر ڈی اے فنڈز کی خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ شعبوں میں ترسیل اور کارپوریٹ فارن کرنسی اکاؤنٹس پر ضابطوں کو آسان بنانا شامل ہیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے بہتر انتظام کے لیے ایک منظم فلوٹ یا ’پیگ اینڈ ریویلیو‘ نظام کی سفارش کی گئی ہے، جو کرنسی کو حقیقی مؤثر شرح مبادلہ سے منسلک کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ نظام کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے روپے کی قدر کو متاثر کیا، جس کے باعث تجارتی خسارہ بڑھا، درآمدات مہنگی ہوئیں اور اقتصادی استحکام کو دھچکا پہنچا۔
نتیجتاً، رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ مستحکم اور حکمت عملی پر مبنی فریم ورک اپنانا ہوگا، تاکہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے، اقتصادی لچک پیدا کی جاسکے، اور برآمدات کی بنیاد پر پائیدار ترقی حاصل کی جاسکے۔
اگرچہ ترسیلات زر نے خود کو ایک حد تک لچکدار ذریعہ ثابت کیا ہے، تاہم رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے واحد بفر کے طور پر کافی نہیں ہیں۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے اقدامات نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے میں مدد ضرور دی ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، اور صنعتی و زرعی ترقی پر ان کا اثر انتہائی معمولی رہا ہے۔
ڈائیسپورا کیپیٹل یعنی سمندر پار پاکستانیوں کے سرمایے سے بہتر استفادے کے لیے، رپورٹ میں متعدد اقدامات کی سفارش کی گئی ہے، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر دی جانے والی پیداوار کو ملکی مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے، ترسیلات زر کی منتقلی کے اخراجات میں کمی کی جائے، آر ڈی اے میں جمع ہونے والے فنڈز کو خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ انڈسٹریز جیسے زیادہ مؤثر اور پیداواری شعبوں کی طرف منتقل کیا جائے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے حالیہ برسوں میں روپے کی قدر میں کمی کو ہوا دی۔ اس مسلسل گراوٹ کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا، درآمدی اشیا کی لاگت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور معاشی استحکام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ حکمت عملی پر مبنی، مستحکم اور منظم فریم ورک اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ کرنسی کی قدر میں غیر ضروری اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔
Post Views: 4