دریائے سندھ سے نہر نہیں نکالی جائے گی، پیپلز پارٹی رہنما
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کو نسل کے اجلاس میں سندھ حکومت کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وفاق نے 6 نئی نہروں کی تعمیر روک دی۔
اس حوالے سے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن، وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب اور فریال تالپور نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ سندھ کےعوام کو مبارک ہو، اب دریائے سندھ سے کوئی نہر نہیں نکالی جائے گی۔
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بلاول بھٹو نے واضح مؤقف اپنایا سندھ کا پانی سندھ کے عوام کا ہے، سمجھوتا ممکن نہیں
انہوں نے کہا کہ یہ کسی کی ہاریا جیت نہیں، یہ پاکستان کی جیت ہے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ نے سیاسی دانشمندی سے کیس لڑا۔ فیصلے سے ملک اور جمہوریت مضبوط ہوئی۔
فریال تالپور نے کہا کہ سندھ کے عوام نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ریاست کی رٹ یا عوام کی قربانی؟
اسلام ٹائمز: یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر انکی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر انکی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ تحریر: سید مرتضیٰ عباس
وزیرِ داخلہ سید محسن نقوی کا حالیہ بیان کہ اس سال زائرین کو سڑک کے راستے اربعین کے لیے عراق و ایران جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایک سادہ سا جملہ نہیں بلکہ کئی تلخ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی ریاست بلوچستان میں اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔؟ کیا عوام کی مذہبی آزادی، ان کے جذبات، ان کی برسوں کی محنت اور ان کے مالی وسائل اتنے بے وقعت ہوچکے ہیں کہ ایک نوٹیفکیشن سے سب کچھ روند دیا جائے۔؟ یہ فیصلہ حکومتِ پاکستان، وزارتِ خارجہ، بلوچستان حکومت اور سکیورٹی اداروں کی "وسیع مشاورت" کے بعد سامنے آیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مشاورت میں عوام، زائرین یا ان کے نمائندے کہاں تھے۔؟ کیا لاکھوں زائرین کی قربانی، جو برسوں سے زیارتِ اربعین کے لیے پیسے جمع کرتے رہے، ان ہوٹل مالکان، بس آپریٹرز اور ویزا ایجنٹس کی محنت جو مہینوں سے اس عمل میں مصروف تھے، سب رائیگاں چلا گیا۔؟
اب تک ہزاروں لوگوں نے: ایرانی اور عراقی ویزا کے لیے درخواستیں دے دی ہیں۔ ٹرانسپورٹ ایڈوانس بُک کر لی ہے۔ ہوٹلوں کی ایڈوانس ادائیگیاں کر دی ہیں۔ کارنیٹ فیسیں جمع کرا چکے ہیں۔ متعدد افراد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی زیارت کے لیے خرچ کر دی ہے۔ اب ایک اچانک اعلان سے ان تمام کوششوں اور خوابوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا۔؟ کوئی کمپنسیشن اسکیم۔؟ کوئی ہنگامی ریلیف۔؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جواب "نہیں" ہے۔ اگر یہ فیصلہ واقعی سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ہے تو یہ ریاست کی کھلی ناکامی کا اعتراف ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر یہ غیر اعلانیہ مہرِ تصدیق ہے کہ ریاست خود کہہ رہی ہے: "ہم آپ کو تحفظ نہیں دے سکتے!" اور اگر یہ محض انتظامی نااہلی ہے تو یہ ایک اور بدترین مثال ہے، اس بے حسی کی جو ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے، جہاں سوال اٹھتا ہے: ریاست عوام کے لیے ہے یا عوام ریاست کے لیے۔؟ جب ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے عوام اتنی بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے تیاری کرتے ہیں، تو ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان کی راہ ہموار کرے، ان کی مدد کرے۔؟ بجائے اس کے، ان کی امیدیں مسمار کر دی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ زائرین کو ہوائی راستے سے جانے کی اجازت دی جائے گی اور پروازوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ مگر یہ بھی زمینی حقائق سے نابلد اعلان ہے۔ نہ سب لوگ فضائی سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، نہ اتنی پروازیں ممکن ہیں کہ وہ لاکھوں زائرین کو سہولت دے سکیں۔
یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر ان کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر ان کی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف بیانات اور ٹویٹس سے چلے گی، یا اپنے شہریوں کے جذبات، عقائد اور قربانیوں کو بھی اہمیت دے گی۔ اگر ریاست خود کہے کہ "ہم نہیں کرسکتے" تو پھر عوام کس سے امید رکھیں۔؟