Express News:
2025-11-06@07:06:37 GMT

یکم مئی 1886 محنت کشوں کا عالمی دن

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

 یکم مئی یا پھر یوم مئی 1886 دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن ہے، اس روز دنیا بھر کے محنت کش شکاگو کے شہید محنت کشوں کی یاد میں اپنے اپنے ملکوں میں بڑے جوش و جذبے، انقلابی نعروں کے ساتھ جلسے، جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر 1886 کی کامیاب ہڑتال اور 8 گھنٹے اوقات کارکے حوالے سے مناتے ہیں۔

یوں تو محنت کشوں، مظلوموں، غلاموں، مجبوروں، محکوموں کی بڑی طویل اور صدیوں پر محیط جدوجہد رہی ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ترقی کرنے لگی اور محنت کش بغاوت بھی کرتے رہے۔

ان کے کوئی اوقات کار بھی نہ تھے، لیکن 18 ویں اور 19 ویں صدی میں مزدور طبقہ ابھرنا اور منظم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صنعت لگنا شروع ہوگئی تھی۔ کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے کارخانے اور انجن مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یورپ ترقی کی راہ پرگامزن تھا، پاپائیت بھی زور و شور سے جاری تھی۔

1789 میں فرانس میں ادھورا انقلاب بھی آ چکا تھا، یورپ میں بعض ترقی پسند شاعر، ادیب، دانشور، قلم کار، صحافی اور سیاسی رہنما محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اشتراکیت اور سوشل ازم کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کارل مارکس اور اینگلز کے نظریات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔

کمیونسٹ لیگ بن چکی تھی، ان کا مینوفیسٹو آگیا تھا۔ مزدور انجمن سازی کی جانب چل پڑے تھے۔ سرمایہ داری عروج پر تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب 1886 آگیا۔

عین اسی سال یکم مئی 1886 کو امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے محنت کشوں نے اعلان بغاوت کر دیا۔ یکم مئی کا تاریخی سانحہ پیش آیا جب انقلابی شعور سے لیس ایسے جوشیلے انقلابی اور جدوجہد کرنے والے سیاسی اور مزدور رہنما پیدا ہو چکے تھے، جنھوں نے شکاگو میں پہلی اور مکمل ہڑتال کرکے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا رخ، نیا موڑ اور اپنا خون دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔

یہ محنت کش (Hay) مارکیٹ چوک پر جمع تھے، ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ظالم حکمرانو! ہم بھی انسان ہیں۔ ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے، ہمارے اوقات کار مقرر کرو۔ ہمیں روزگار دو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو‘‘ وہ نعرے لگا رہے تھے۔ دنیا کے مزدورو! ایک ہو جاؤ! سرمایہ داری، مردہ باد! وہ بلا رنگ و نسل مذہب ایک تھے۔ پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا۔ 

ملوں،کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا، یہ یکم مئی 1886 تھا۔ پھر صبح کے ایک اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر یہ لکھا تھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ’’ مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہو چکی ہے، آگے بڑھو فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، اپنے اوقات کار مقررکراؤ، اپنے مطالبات منوانے کے لیے جدوجہد جاری رکھو، حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔

جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری فتح ہے۔ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک، مزدور اتحاد زندہ باد!‘‘ صحافی کی اس تحریر نے مزدوروں میں مزید جذبہ پیدا کر دیا۔ محنت کشوں نے زوردار نعرے کے ساتھ آٹھ گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ پیش کر دیا۔ ہم آٹھ گھنٹے کام کریں گے، ہم آٹھ گھنٹے آرام کریں گے، ہم آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔

 حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا۔ انھوں نے محنت کشوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نہتے،کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہو لہان کر دیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم لہو سے سرخ ہوگیا۔

ایک محنت کش کی قمیص لہو سے تر ہو گئی پھر انھوں نے لہو میں ڈوبی ہوئی سرخ قمیص کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ سرخ پرچم ہی اب ہمارا پرچم ہے۔ اس وقت سے ہی سرخ و لال پرچم دنیا بھر کے محنت کشوں کا پرچم بن گیا۔ آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور اس طرح آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے۔ 
 اس موقع پر محنت کشوں کے چار سرکردہ رہنماؤں، فشر، اینجل، پیٹرسنز اور اسپائیز سمیت 7 رہنماؤں کو پھانسی کی سزا جعلی مقدمہ چلا کر سنائی گئی۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام، اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔

بعدازاں1917 میں محنت کشوں کا انقلاب آیا اور حکومت بنائی، سرخ جھنڈے پر درانتی اور ہتھوڑے کا نشان آج بھی موجود ہے۔ چین میں انقلاب آیا۔ آج دنیا انقلابوں کی لپیٹ میں ہے۔ یورپ میں اوقات 6 گھنٹے ہوگئے ہیں۔ یورپ میں مزدوروں کو کئی ایک مراعات حاصل ہیں، لیکن ہمارے ملک پاکستان میں 1886 سے زیادہ مشکلات ہیں۔

آج پورے پاکستان میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ اوقات کار ہیں۔ حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، بیماری ہے، جہالت ہے، غربت ہے، خودکشی ہے، ٹریڈ یونین دم توڑ رہی ہیں، مزدور تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں۔
ملک ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ جاگیرداری، سرمایہ داری، بیوروکریسی کا زور و شور ہے۔ مزدور،  ہاری اورکسانوں کو انجمن سازی کا حق حاصل  ہونا چاہیے۔ آج پھر امریکی سامراج کے صدر  ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ دنیا میں نیا ٹیکس  سسٹم رائج کرکے ایک نیا ٹیرف دے کر چین، روس اور یورپ سمیت کئی غریب ترین ملکوں پر  بھی بھاری ٹیکس لگا دیا ہے، جس کی وجہ سے ایک نیا سماج بنانے میں ٹرمپ بڑی اداکاری کر رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا۔

آئیے! ہم ایک مرتبہ پھر یکم مئی 1886 شکاگو کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کریں۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

عقیدت ،ترکیہ میں ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآنی نسخہ مکمل

ترکیہ(ویب ڈیسک) کے شہر استنبول میں عراق سے تعلق رکھنے والے خطاط علی زمان نے وہ کارنامہ انجام دیدیا جس پر لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے۔55 سالہ خطاط نے اس عظیم و پاک کارنامے کو انجام دینے کے لیے عراق سے ترکیہ ہجرت کی اور جی جان سے 6 سال کے مختصر دورانیے میں اس حیران کردینے والے شاہکار کو مکمل کیا۔

علی زمان کے اس کارنامے کو ایمان، محبتِ قرآن اور اسلامی فنِ خطاطی کا ایک شاندار شاہکار قرار دیا جا رہا ہے۔ انھیں بچپن سے ہی اسلامی خطاطی کا شوق تھا۔

پیشے کے اعتبار سے انھوں نے سنار بننا پسند کیا لیکن پھر روحانی میلان ک باعث 2013 میں یہ کُلی طور پر خطاطی کے پیشے اپنایا۔

وہ 2017 میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ عراق چھوڑ کر استنبول پہنچے اور اس نیک کام کا ٓآغاز کیا جس کے لیے علی زمان گہرا سکوت، اطمینان اور یکسوئی کی ضرورت تھی۔

علی زمان کو یہ ماحول استنبول کی سلطان مسجد کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ملا اور پھر اسی کو انھوں نے اپنا مرکز بنالیا۔ وہ زیادہ تر وقت قرآن پاک کی خطاطی میں گزارتے۔

چھ سال کی انتھک اور بے لوث محنت کے بعد 4 میٹر لمبے اور ڈیڑھ میٹر چوڑے صفحات پر مشتمل قرآن پاک تحریر کرلیا۔

جس کے ہر لفظ اور ہر آیت کو علی زمان نے روایتی قلم سے خود لکھا اور اس کے لیے کسی جدید آلے یا خودکار تکنیک کا استعمال نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ پہلی ہی نظر میں قرآن پاک کے اس عظیم نسخے کا ہر صفحہ ایمان اور عشق سے مزین ہاتھوں سے لکھا محسوس ہوتا ہے۔

یہ نسخہ سابقہ ریکارڈ ہولڈر قرآن پاک سے بھی بڑا ہے، جس کی لمبائی 2.28 میٹر اور چوڑائی 1.55 میٹر تھی۔

علی زمان کا اس عظیم کام کو سرانجام دینے کا سفر اتنا آسان نہ تھا 2023 میں انھیں صحت کے شدید مسائل کا سامنا رہا اور کچھ عرصے کام روکنا بھی پڑا لیکن ہمت نہ ہاری۔

انھوں ایک انٹرویو میں کہا کہ قرآن کی خدمت کرنا میرے لیے عزت سے بڑھ کر عبادت ہے۔ یہ کام محض فن نہیں بلکہ قلبی تعلق کا اظہار ہے۔

علی زمان نے مزید بتایا کہ میں نے اس منصوبے کو بطور عبادت کے قبول کیا ہر آیت لکھتے وقت دل میں نیت کرتا کہ یہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔

یاد رہے کہ علی زمان کو شام، ملائیشیا، عراق اور ترکیہ میں خطاطی کے کئی بین الاقوامی اعزازات مل چکے ہیں۔

2017 میں انہیں ترکیہ کے انٹرنیشنل Hilye-i Serif مقابلے میں صدر رجب طیب اردوان نے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

علی زمان کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ یہ مقدس نسخہ ترکیہ ہی میں محفوظ رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اسلامی خطاطی کی عظمت، صبر اور عقیدت کی یہ علامت دیکھ سکیں۔

انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب لوگ اس قرآن کو دیکھیں، تو وہ صرف حروف نہیں بلکہ محبت، ایمان اور اخلاص کو محسوس کریں جو اس کے ہر صفحے میں سانس لے رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا بھر میں سال کا سب سے بڑا سپر مون دیکھا گیا
  • جماعت اسلامی محنت کشوں کی ترجمان، اجتماع عام میں بھرپور شرکت کرینگے، شکیل احمد شیخ
  • آج سال کا سب سے بڑا ’سپر مون‘ ہوگا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں شاندار نظارہ
  • دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کے ہدف تک محدود رکھنے میں ناکام
  • عقیدت ،ترکیہ میں ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآنی نسخہ مکمل
  • پاکستان قابل اعتماد عالمی شراکت دار کے طور پر آبھر : خواجہ آصف : بھارت سازشوں میں مصروف : عطاء تارڑ 
  • دنیا کا انوکھا علاج
  • چیٹ جی پی ٹی: جدید فیچرز کے ساتھ دنیا کا طاقتور ترین اے آئی چیٹ بوٹ
  • مالدیپ نے نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی
  • صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل