قیوم نظر: اردو کی نظر سے کرکٹ دیکھنے والا شاعر
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پاکستان میں کرکٹ کی اردو کمنٹری کی روایت کا ذکر ہو تو معروف شاعر، استاد اور حلقہ اربابِ ذوق کے بنیاد گزار قیوم نظر کا حوالہ ضرور آتا ہے۔ ممتاز ادیبوں کی بات کی جائے تو انتظار حسین سے بڑا نام کیا ہو گا جنہوں نے قیوم نظر کی کرکٹ سے دل بستگی کا تذکرہ اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ انتظار صاحب نے خاص طور پر کمنٹیٹر کی حیثیت سے کرکٹ کی اصطلاحات کو اردو کا جامہ پہنانے کے ضمن میں قیوم نظر کی بارے میں کئی بار لکھا۔
ادبی حوالوں کے علاوہ کرکٹ کے لٹریچر پر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی قیوم نظر دکھائی دیتے ہیں۔ نامور کرکٹ رائٹر عثمان سمیع الدین نے اپنی لائقِ مطالعہ کتاب
The Unquiet Ones:
A history of Pakistan cricket
میں قیوم نظر کے کمنٹری کے انداز پر روشنی ڈالی ہے۔
معروف براڈ کاسٹر اختر وقار عظیم کی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں بھی قیوم نظر کی منفرد کمنٹری کا ذکر ہے:
’تبصروں میں وہ مستعمل تکنیکی تراکیب اور الفاظ کا اردو ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے جیسے وکٹ کو کلی، باؤلر کو گیند باز، بیٹسمین کو بلے باز ، آف بریک اور لیگ بریک کو سیدھی پھرت اور الٹی پھرت وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بعض ترجمے آج بھی استعمال ہو رہے ہیں‘۔
یہ تو ہوئیں کچھ پرانی باتیں لیکن جس طرح میرؔ نے کہا تھا:
’بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات‘
چند دن پہلے ہم نے انڈیپینڈنٹ اردو پر ظفر سید کے ساتھ معروف اردو کمنٹیٹر طارق سعید کی گفتگو سنی تو اس میں بھی قیوم نظر کا ذکرِ خیر آیا اور قیوم نظر کی یادیں تازہ کرنے کی تحریک ملی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کے سائیکل سواروں کی یاد میں
اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے شخصی خاکوں میں میری دل چسپی نے بھی میرا ہاتھ تھاما جو مجھے قیوم نظر کے شاگردِ رشید اور گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو کے استاد صابر لودھی کے ان پر لکھے گئے خاکے تک لے گئی جو ان کی کتاب ’بھلایا نہ جائے گا‘ میں شامل ہے۔
قیوم نظر کے خاکے میں صابر لودھی نے کرکٹ کی اصطلاحات کے اردو ترجمے کی مثالوں کے ساتھ ساتھ ان کے بعض مزے دار جملے بھی نقل کیے ہیں:
’دوڑوں کا نصف سیکڑہ اور اب پہلا سیکڑہ مکمل ہوا۔ حنیف محمد نے داد کے ڈونگرے سمیٹے۔ ویلس میتھائیس نے زانو ٹیک کر بلا گھمایا۔ گیند گھوم کر اندر کی طرف نکلی اور کیلیاں اڑ گئی۔ گیند باز تن کے چل رہا ہے… ماجد جہانگیر نے ایسی ضرب لگائی کہ گھاس ابھی تک سلگ رہی ہے۔ گیند بلے کی جنگ جاری ہے‘۔
اس عبارت میں زانو ٹیک کر بلا گھمانے سے مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’راکھ‘ یاد آگیا جس میں امتیاز احمد کی گوڈا ٹیک شاٹ کا پرلطف بیان شامل ہے:
’ان دنوں امتیاز احمد کا گوڈا ٹیک سٹائل لاہوریوں میں بے حد مقبول تھا۔ گیند کسی قسم کا بھی ہوتا باغِ جناح میں کرکٹ شائقین ’گوڈا ٹیک‘ کے نعرے لگاتے اور امتیاز احمد ان نعروں کے سحر میں آ کر گھٹنا ٹیک کر بلا گھما دیتے۔۔۔ اگر گیند بلے کو چھو جاتا تو شان دار لیگ گلانس ہوجاتی ورنہ اکثر ایل بی ڈبلیو ہوکر موصوف ٹھنڈے ٹھنڈے پویلین میں واپس آجاتے۔ اُدھر لکشمی مینشن میں بھی یہی اسٹائل فالو کیا جاتا تھا۔ گیند اگرچہ آف پر وائڈ جا رہی ہے لیکن بیٹسمین گھٹنا ٹیک کر اُسے لیگ پر ہی کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے‘۔
قیوم نظر نے آف بریک اور لیگ بریک کو جو اردو روپ دیا تھا اس کا حوالہ آچکا۔ صابر لودھی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے استادِ محترم گگلی کو ’فریبی پھِرت‘ کہتے تھے۔ عثمان سمیع الدین کے مطابق اسے دھوکے باز گیند کا نام دیا گیا تھا۔
اسپن باؤلنگ سے وابستہ جو ہُنر اردو کا ہو کر بھی انگریزوں کی زبان پر چڑھ گیا وہ ثقلین مشتاق کا ’دوسرا‘ ہے۔ باقی آف بریک ،لیگ بریک اور گگلی کے ترجمے ہمارے یہاں چلے نہیں۔
صابر لودھی کی تحریر کا آخری حصہ قاری کو اداس کر دیتا ہے۔ قیوم نظر بڑے بیٹے کے کینسر سے انتقال کے صدمے سے باہر نہیں آئے تھے کہ انہیں ٹریفک حادثے میں دوسرے بیٹے کی موت کا صدمہ ملا۔ صابر لودھی تعزیت کرنے گئے تو غم زدہ باپ نے کرکٹ کی زبان میں کہا:
’یار زندگی کی وکٹ پر میں نے اچھی کرکٹ کھیلی، چوکے چھکے بھی لگائے۔ دوسروں کو بولڈ بھی کیا۔ داد بھی پائی لیکن آؤٹ تو بہر حال ہونا تھا‘۔
کرکٹ سے مخصوص لفظوں میں قیوم نظر کی بپتا سن کر سعادت حسن منٹو کے بھانجے اور کرکٹ کمنٹیٹر حامد جلال کے تحریر کردہ خاکے ’منٹو ماموں کی موت‘ کی طرف دھیان جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتقال سے ایک دن پہلے منٹو صاحب نے ریستوران میں دوستوں سے کہا تھا کہ حامد جلال بہاولپور سے واپس آجائے تو اس کے ساتھ وہ لاہور ٹیسٹ میں حنیف محمد کی بیٹنگ دیکھنے جائیں گے۔ بھانجے کے لاہور آنے سے پہلے منٹو دنیا سے چلے گئے جس کی اطلاع حامد جلال کو پاکستان اور انڈیا کے ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کے دوران ملی۔ وہ لکھتے ہیں:
’بہاول پور میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ کا دوسرا ٹیسٹ میچ ہورہا تھا اور ڈرنگ اسٹیڈیم میں بیٹھا طالع یار خاں کو میچ کا چشم دید حال نشر کرنے میں مدد دے رہا تھا کہ لاہورسے میرے نام ایک ٹرنک کال آئی اور مجھے بتایا گیا کہ آج صبح سعادت حسن منٹوکا انتقال ہو گیا … جب میں اپنی جگہ پر واپس پہنچ گیا تو میچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے ساتھیوں نے اشاروں سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔ میں نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا۔ امپائر نے سعادت حسن منٹو کو آخر آؤٹ دے ہی دیا۔ آج صبح ان کا انتقال ہو گیا …منٹو ماموں کو آؤٹ دینے کے لیے امپائر سے کئی بار اپیلیں کی جا چکی تھیں لیکن ہر بار اپیل مسترد کردی گئی تھی۔ اب ان کی بے صبر اور ڈانوا ڈول اننگز ختم ہو گئی تھی‘۔
مزید پڑھیے: اجیت کور: لاہور کی سڑکوں پر جن کی یادوں کا سفر جاری رہا
کرکٹ کی زبان میں قیوم نظر نے عمر بھر کا خلاصہ بیان کیا۔ حامد جلال نے منٹو کے انتقال پر اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے کرکٹ کی اصطلاحات کا سہارا لیا۔ ان دونوں نے تو قصہ غم سنانے کے لیے یہ طرز ڈھونڈی تھی اُدھر فیض احمد فیضؔ نے کرکٹ کی زبان میں انور مقصود کو اپنی داستان سنائی تھی۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرکٹ کے بول ہمارے ذہنوں میں کس قدر پیوست ہیں۔
عثمان سمیع الدین کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ 1959 میں ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کے دوران لاہور ٹیسٹ میں پہلی دفعہ قیوم نظر کے ہنر کو آزمایا گیا تھا۔ دوسری دفعہ 1973 میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو ریڈیو نے قیوم نظر کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا لیکن یہ تجربہ بھی کامیاب نہیں ہوا۔
عثمان سمیع الدین نے قیوم نظر کی کمنٹری کے بارے میں معروف پاکستانی کمنٹیٹر چشتی مجاہد کا نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس میں انہوں نے کرکٹ کی اصطلاحات کے لفظی ترجموں کو عجیب قرار دیا ہے جنہیں ان کے خیال میں کٹر اردو والوں نے بھی مضحکہ خیز ہی گردانا تھا۔
چشتی مجاہد کے اس بیان کی تصدیق انتظار حسین کی لکھت سے بھی ہوتی ہے۔ پہلے ان کی کتاب ’ملاقاتیں‘ سے رجوع کرتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا:
’دنیائے ادب میں وہ کرکٹ کے مترجم کی حیثیت سے بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے کرکٹ کی مختلف اصطلاحوں کے ایسے ایسے اردو ترجمے کیے کہ کرکٹ کھیلنے والے حیران و پریشاں ہوئے اور دنیائے ادب والے محظوظ ہوئے‘۔
ایکسپریس اخبار میں اپنے کالم ’کرکٹ، شکسپئیر اور اردو‘ میں انتظار حسین نے بتایا کہ پاکستان کرکٹ کے اولین دور میں کوئی بڑا معرکہ ہوتا تو کمنٹری سننے کی غرض سے ٹی ہاؤس کے کاؤنٹر پر ریڈیو سیٹ رکھ دیا جاتا اور جب اس پر شور اٹھتا تو ادب کی بحث پیچھے رہ جاتی اور سب کی دل چسپی اس بات میں ہوتی کہ میچ میں کیا ہوا ہے؟ ایسے میں ریڈیو کے ساتھ مستقل کان لگائے قیوم نظر میچ کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے۔ ادیبوں کو وہ اپنی مخصوص زبان میں میچ کی صورت حال سے آگاہ کرتے تھے جس پر ادیبوں کے ردعمل سے متعلق انتظار حسین لکھتے ہیں:
’ان کی تراشی ہوئیں اصطلاحیں ٹی ہاؤس میں یاروں کے لیے لطیفہ بازی کا بہانہ بن گئیں… ہم نے ریڈیو پر تو قیوم صاحب کی کمنٹری کم ہی سنی۔ سنی بھی تو اَن سنی کر دی مگر جب وہ ٹی ہاؤس میں چائے کی میز پر بیٹھ کر نخالص اردو میں کمنٹری کرتے تھے تو ہم سنی کو ان سنی نہیں کر سکتے تھے۔ توجہ سے سنتے تھے۔ بے شک ان کے جانے کے بعد ان کی گڑھی ہوئی اصطلاحوں کو مزے لے لے کر دہراتے تھے اور انہیں ہنسی میں اڑا دیتے تھے۔ قیوم صاحب تک یہ خبریں پہنچتی تھیں مگر ان کے یہاں کرکٹ اور اردو دونوں کی خدمت کا جذبہ اتنا تیز تھا کہ وہ یاروں کی دل لگی بازی ایک کان سنتے اور دوسرے کان اڑا دیتے اپنے کام میں اسی سنجیدگی سے لگے رہتے‘۔
انتظار حسین نے کالم میں یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ کرکٹ کے حوالے سے بعض ترجمے تو لڑکوں بالوں نے خود ہی کر لیے تھے جنہیں قبولِ عام بھی حاصل ہوا مثلاً ان کے خیال میں بیٹ بال، گیند بلا بن گیا اور چوکے چھکے کی اصطلاحیں بھی وضع ہو گئیں۔
انتظار حسین اور صابر لودھی نے قیوم نظر کی اختراعات پر طنز و تنقید کی طرف اشارہ کیا اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس کا قیوم نظر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
ہمارے یہاں قیوم نظر کی کمنٹری پر ہی بات ہوتی ہے لیکن کرکٹ پر ان کی تحریروں کا ذکر کبھی نہیں ہوتا جو کرکٹ کے بارے میں ان کی زبان دانی کا ٹھوس ثبوت ہیں کیوں کہ ان کی کمنٹری کا ریکارڈ تو شاید کہیں محفوظ نہیں۔
ماضی کے معروف جریدے ’لیل ونہار‘ کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے قیوم نظر کے کرکٹ سے قلمی رشتے کی خبر ہوئی۔ 1958 میں انہوں نے اس رسالے میں ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز کے پہلے اور پانچویں ٹیسٹ میچ کا احوال قلم بند کیا تھا۔ دونوں میچوں کی حیثیت تاریخی تھی۔ پہلے ٹیسٹ میں حنیف محمد نے 337 رنز کی عظیم اننگز کھیلی جو اپنی ٹیم کو ہار سے بچانے کی عظیم ترین کوشش تھی جب کہ 5ویں میں قومی ٹیم نے پہلی دفعہ ٹیسٹ کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کو چِت کیا تھا۔
عنوانات کی فہرست میں اور مضمون کی سرخی میں ’پہلا آزمائشی کرکٹ میچ‘ اور ’پانچواں آزمائشی کرکٹ میچ‘ پڑھ کر مجھے لگا کہ کسی ٹرائل میچ کی بات ہے لیکن متن سے معلوم ہوا یہ تو ٹیسٹ میچ کا قصہ ہے۔ ’لیل و نہار‘ کے کسی قاری نے خط میں طنز کیا کہ ’تعجب ہے کہ قیوم نظر نے میچ کا ترجمہ دنگل کیوں نہیں کر دیا!‘ اسی طرح ایک قاری نے وکٹ کیپر کو کلی بان لکھنے پر ردِعمل ظاہر کیا۔
ان کے اس طرز تحریر پر لوگوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ اسے تحسین و تردید دونوں میسر آئے البتہ ادارے کے اندر سے انہیں معروف اخبار نویس ظہیر بابر کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو ’لیل ونہار‘ میں ’ساتواں صفحہ‘ کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے تھے ۔اس کالم میں انہوں نے اردو میں کرکٹ کی وضع کردہ تراکیب پر چوٹ کرنے کے لیے اصطلاحوں کا اپنی طرف سے بہت بے جوڑ ترجمہ کر کے طنز کے نشتر چلائے:
’پچھلے دنوں ایک اخبار میں پڑھا کہ حنیف نے اپنی ٹانگ پر نظر ڈالی اور چار رنز بنا لیں۔ ہم حیران ہیں کہ یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کرکٹ میں ہم بھی شدبد رکھتے ہیں مگر یہ راز آج تک معلوم نہیں ہوا کہ ٹانگ پر نظر ڈالنے سے چوکا مل جاتا ہے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد معلوم ہوا کہ مترجم صاحب نے لیگ گلانس کا ترجمہ فرمایا ہے ۔ شکر کیجیے کہ اس دن لیگ بریک کا کہیں ذکر نہیں آیا ورنہ ٹانگ توڑ سے کم پر کہاں رضا مند ہوتے اور اسپنر کو تو خیر وہ نور باف کہتے کیوں کہ صحیح ترجمہ یہی ہے‘۔
ٹیسٹ میچوں کی روداد میں قیوم نظر نے کمنٹری والی لفاظی سے کام لیا ہے لیکن اس سے قطع نظر میرے خیال میں وہ بڑی رواں دواں نثر میں میچ کا احوال بیان کرنے میں کامیاب رہے جس میں ادبیت کا تڑکا بھی ہے۔
مزید پڑھیے: لاہور کا لالہ جو کرکٹ کی تاریخ میں امر ہوگیا
پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص فیلڈنگ کو انہوں نے محاورے میں اس طرح بیان کیا: ’اس حمام میں تو سبھی ننگے ہیں۔ اسی طرح علیم الدین کی انگلی کا زخم اب مندمل ہو چکا تھا۔‘ امتیاز احمد کے بارے میں لکھا :’یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ امتیاز کھیل کا آغاز کرتے ہوئے نئے گیند اور غرب الہند کے گیند کاروں کے اس طلسم کو اپنے بے اماں بلے کی مسلسل ضربوں سے توڑ دیتا جس نے پہلی مرتبہ تمام پاکستانی ٹیم کو سرنگوں کر دیا تھا اور پھر بعد میں آنے والے بلے بازوں کے لیے ایسا راستہ صاف کرتا کہ وہ بے روک ٹوک اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلے جاتے‘۔
ٹیسٹ میچوں کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے بارے میں بھی قیوم نظر کا ایک مضمون ’لیل ونہار‘ میں میری نظر سے گزرا ہے۔ وہ بھی ان کے مخصوص طرزِ بیاں کا ترجمان ہے۔
ان مضامین کی مدد سے فرہنگ قیوم نظر بحوالہ کرکٹ مرتب ہو سکتی کیوں کہ ان کی گڑھے گئے اچھوتے لفظوں کی دستاویزی شہادت کہیں اور سے میسر نہیں آئے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
اردو کمنٹری قیوم نظر کرکٹ کرکٹ کمینٹری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: قیوم نظر کرکٹ کرکٹ کمینٹری کرکٹ کی اصطلاحات عثمان سمیع الدین میں انہوں نے بھی قیوم نظر میں قیوم نظر امتیاز احمد قیوم نظر نے قیوم نظر کی قیوم نظر کے کے بارے میں صابر لودھی کی کمنٹری حامد جلال لیگ بریک ٹیسٹ میچ کی کتاب میں بھی کرکٹ کے کے ساتھ کی زبان ہے لیکن کے لیے ٹیک کر تھا کہ کی طرف میچ کا کا ذکر میچ کی
پڑھیں:
امارات کی ویمنز کرکٹ ٹیم نے ون ڈے اسٹیٹس حاصل کرلیا، امریکا باہر
متحدہ عرب امارات کی ویمنز کرکٹ ٹیم نے آئندہ 5 سالوں کے ون ڈے اسٹیٹس حاصل کرلیا جبکہ مریکا آئندہ اس حوالے سے اپنا اسٹیٹس برقرار نہیں رکھ سکا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش نے ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ 2025 کے لیے کوالیفائی کرلیا
اس بار 5 ایسوسی ایٹ ممالک 2025-2029 تک ون ڈے انٹرنیشنل سائیکل کا حصہ ہوں گے جن میں تھائی لینڈ، نیدرلینڈز، پاپوا نیو گنی، اسکاٹ لینڈ اور متحدہ عرب امارات کی ٹیمیں شامل ہیں۔
حال ہی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ان ٹیموں کے او ڈی آئی اسٹیٹس کی تصدیق کردی ہے۔ 16 خواتین ٹیموں کو 50 اوورز فارمیٹ اسٹیٹس حاصل ہے۔ ان ٹیموں میں سے تھائی لینڈ اور اسکاٹ لینڈ نے پاکستان میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ 2026 کوالیفائرز میں شرکت کے بعد ون ڈے اسٹیٹس حاصل کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی ویمنز کرکٹ ٹیم نے خواتین کی ٹی 20 رینکنگ میں 16 ویں نمبر پر آنے کے بعد سالانہ رینکنگ اپ ڈیٹ میں امریکا کی ویمنز ٹیم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
مزید پڑھیے: ورلڈ کپ کوالیفائر: پاکستان ویمنز کی مسلسل تیسری کامیابی، تباہ کن بولنگ کرکے ویسٹ انڈیز کو 65 رنز سے ہرادیا
آئندہ 5 سالوں کےلیے اب متحدہ عرب امارات کی ویمنز کرکٹ ٹیم کو ون فارمیٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی ہے جس کی تصدیق ہوگئی ہے۔
قواعد کے مطابق ون ڈے اسٹیٹس والی ٹیموں کو 3 سے 4 سال کے عرصے میں اپنی رینکنگ حاصل کرنے یا برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 8 ون ڈے میچز کھیلنے ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اماراتی خواتین کرکٹ ٹیم ون ڈے اسٹیٹس یو اے ای ویمنز کرکٹ ٹیم