اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کردی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 05 مئی ۔2025 )اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 100 بیسز پوائنٹس یا ایک فیصد کمی کرنے کا اعلان کردیا ہے ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک فیصد کمی کے بعد شرح سود 12 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگئی ہے. شرح سود میں ممکنہ رد و بدل کے حوالے سے کاروباری برادری، سرمایہ کار اور ماہرین معیشت بے چینی سے منتظر تھے قبل ازیں ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا تھا کہ شرح سود میں ایک سے دو فیصد کمی کا امکان ہے جس کا مقصد کاروباری لاگت کو کم کرکے صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا اور معاشی پہیہ دوبارہ متحرک کرنا تھا .
(جاری ہے)
وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے وائس چیئرمین نے مطالبہ کیا تھا کہ شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے معروف صنعت کار ذکی اعجاز نے کہا تھا کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے کم از کم 500 بیسس پوائنٹس (پانچ فیصد) کی کمی ناگزیر ہے کیونکہ موجودہ بلند شرح سود کے باعث صنعتی قرض گیری تقریباً بند ہو چکی ہے. دوسری جانب معاشی و مالیاتی تجزیہ کار عتیق الرحمان نے موجودہ مشکل حالات میں شرح سود میں ”اسٹیٹس کو“ یعنی استحکام کو ترجیح دی ان کے مطابق خصوصاً فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیے خام مال کی درآمد اسی وقت ممکن ہے جب فنڈنگ کی لاگت کم ہو تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو بندرگاہوں، فش ہاربرز، پروسیسنگ یونٹس اور زرعی و مویشی فارمنگ میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس کے لیے مالیاتی استحکام بنیادی شرط ہے. عتیق الرحمان کا کہنا تھا کہ بزرگ شہری، فلاحی ادارے اور پنشنرز جن کی آمدنی طویل المدتی سیونگز سے جڑی ہے ان کے لیے بھی شرح سود کا موجودہ لیول برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کی یومیہ ضروریات پوری ہو سکیں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان پر سخت مالیاتی پالیسی برقرار رکھنے پر زور دے چکا ہے جبکہ ممکنہ غیر ملکی مالیاتی آمد بھی تاحال موصول نہیں ہوئی. ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں کسی بھی تبدیلی کا براہِ راست اثر نہ صرف مارکیٹ کے اعتماد پر پڑے گا بلکہ مہنگائی، کرنسی کی قدر، برآمدات اور قرض گیری پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوں گے اس تناظر میں اسٹیٹ بینک کا کل کا فیصلہ ملکی معیشت کی سمت کے تعین میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فیصد کمی تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
مالیاتی بحران سے پناہ گزینوں کے لیے خطرات میں اضافہ، یو این ایچ سی آر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 مئی 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے خبردار کیا ہے کہ امدادی وسائل کے بگڑتے بحران نے ایسے مہاجرین کے لیے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے جو جنگ یا مظالم کے باعث اپنے آبائی ممالک کو واپس نہیں جا سکتے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ امدادی وسائل ختم ہو رہے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لاکھوں لوگوں کو ضروری مدد کی فراہمی خطرے سے دوچار ہے۔
Tweet URLپناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے دو تہائی ممالک پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے جنہیں ان لوگوں کو تعلیم، صحت کی سہولیات اور پناہ کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے ہنگامی بنیاد پر امدادی وسائل کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
جنگوں، تشدد، موسمیاتی بحران اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنے ممالک اور علاقے چھوڑنے والے لوگوں کے لیے عالمی یکجہتی کمزور پڑ رہی ہے جس کے منفی نتائج سبھی کو متاثر کریں گے۔
پناہ گزینوں سے یکجہتی'یو این ایچ سی آر' میں شعبہ بین الاقوامی تحفظ کی ڈائریکٹر الزبتھ ٹان نے کہا ہے کہ پناہ کے خواہاں لوگوں کو اپنے ہمسایہ ممالک میں درکار تحفظ کی صورتحال خطرے میں ہے۔
عالمی یکجہتی اور بوجھ بانٹے بغیر ان لوگوں کے لیے مسائل بڑھتے جائیں گے۔افریقی ملک چاڈ اور کیمرون میں وسطی جمہوریہ افریقہ کے 12 ہزار پناہ گزینوں نے اپنے ملک واپس جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن نقل و حمل کے ذرائع اور اپنے معاشروں میں دوباری یکجائی کی سہولت دستیاب نہ ہونےکے باعث ان کے لیے واپسی ممکن نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تاعمر پناہ گزین نہیں رہنا چاہتا اور جو لوگ واپسی کے خواہش مند ہیں انہیں اس میں سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔
زندگی بچانے کی خدماتانہوں نے یاد دلایا ہے کہ بہتر موقع کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن سے برعکس پناہ گزینوں کو اپنے آبائی ممالک میں تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ تکالیف کے عالم میں سرحد پار آتے ہیں اور عموماً تشدد یا مظالم سہہ چکے ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں خصوصی مدد ددرکار ہوتی ہے جس میں ذہنی صحت کی نگہداشت بھی شامل ہے۔
الزبتھ ٹان کا کہنا ہے کہ اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے پناہ گزین بچوں کے لیے خطرات کہیں زیادہ ہوتے ہیں جنہیں مسلح گروہوں میں بھرتی کیےجانے، استحصال اور سمگلنگ کا خدشہ رہتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسے بچوں کو تحفظ کی فراہمی ان کے لیے کوئی تعیش نہیں ہوتی بلکہ اس سے ان کی زندگی بچانے میں مدد ملتی ہے۔