واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 مئی2025ء)پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ماحول میں ایک بین الاقوامی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ اگر جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ چھڑ گئی، تو نہ صرف دونوں ممالک کو ناقابلِ تصور تباہی کا سامنا ہو گا بلکہ پوری دنیا کو شدید ماحولیاتی، زرعی اور غذائی بحران کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق یہ تحقیق امریکہ کے ناسا گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ فار اسپیس اسٹڈیز کے سائنس دان یوناس یاگرمایر کی قیادت میں کی گئی ہے اور اسے امریکی سائنسی جریدے PNAS نے 2 اکتوبر 2019 کو شائع کیا۔تحقیق کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری حملوں کا تبادلہ ہوتا ہے، تو تقریبا 16 سے 36 ٹیراگرام (ملین ٹن) سیاہ کاربن فضا کی بالائی سطح یعنی اسٹریٹوسفئیر (stratosphere) میں داخل ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

یہ کاربن ذرات سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں ایک نئی موسمی آفت جنم لے سکتی ہے جسے ایٹمی سردی (nuclear winter) کہا جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق جوہری جنگ کے صرف ابتدائی سالوں میں مکئی، گندم، چاول اور سویا بین جیسی اہم اجناس کی عالمی پیداوار میں اوسطا 11 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے، جبکہ کچھ ممالک میں یہ کمی 20 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔

سب سے زیادہ متاثر امریکہ، یورپ، روس، اور چین جیسے خطے ہوں گے جنہیں دنیا کے غذائی مراکز کہا جاتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ یہ جنگ بظاہر صرف جنوبی ایشیا تک محدود ہو گی، مگر اس کے اثرات پوری دنیا خصوصا ترقی پذیر ممالک پر کہیں زیادہ گہرے ہوں گے۔ وہ ممالک جو پہلے ہی خوراک کی قلت اور درآمدات پر انحصار کر رہے ہیں، اس بحران کے آگے مکمل طور پر بے بس ہو جائیں گے۔

تحقیق کا انتباہ یہ بھی ہے کہ اگر مستقبل میں زیادہ طاقتور جوہری ہتھیار استعمال کیے گئے تو یہ سیاہ کاربن فضا میں دس سال تک موجود رہ سکتا ہے، جس سے زمین کی فضا اور زراعت مسلسل متاثر ہو گی۔پاکستان اور بھارت 1947 سے اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں اور دونوں کے پاس 150 سے زائد جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے درمیان سب سے حساس مسئلہ کشمیر کا متنازع علاقہ ہے، جو بار بار دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر لے آتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں بھی کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بھارت نے اپریل کے حملے میں پاکستان پر الزام لگایا، جبکہ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اسٹمسن سینٹر واشنگٹن کے ساتھ ایشیا پروگرام کے نائب ڈائریکٹر فرینک او ڈونل کہتے ہیں کہ کشمیر کا تنازعی جوہری خطرے کو بڑھاتا ہے اور یہ خطہ دنیا کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔ ماہرین نے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری سفارتی اقدامات کے ذریعے جوہری اسلحے کے خاتمے اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

پاکستان اور انڈیا کی جوہری طاقت کا موازنہ

جنوبی ایشیاء ایک بار پھر شدید کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ واقعات اور بھارت کی طرف سے لگائے گئے الزامات نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے، میڈیا میں جنگی بیانیہ، اور سیاسی سطح پر تنا نے عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہیں اور کسی بھی معمولی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں صورتحال غیر معمولی رخ اختیار کر سکتی ہے۔پاکستان اور بھارت کی جوہری صلاحیت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ سویڈن کے معروف تحقیقی ادارے SIPRI (Stockholm International Peace Research Institute) کے مطابق، 2024ء تک بھارت کے پاس تقریباً 172 جوہری وار ہیڈز جبکہ پاکستان کے پاس 170 کے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ گو کہ یہ تعداد بہت زیادہ نہیں سمجھی جاتی لیکن جنوبی ایشیاء جیسے گنجان آباد خطے میں یہ تباہی کے لیے کافی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کے مقابلے میں زیادہ منظم، تیز ردعمل کا حامل اور حکمت عملی کے لحاظ سے بہتر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان “No First Use” کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے، یعنی پاکستان نے کبھی کسی جنگ میں پہل نہیں کی۔ بھارت کی جانب سے 2019ء میں فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں پاکستان نے نہایت ضبط، ہوشمندی اور عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا تھا بلکہ پائلٹ ابھی نندن کو چائے پلا کر محفوظ طریقے سے واپس بھی کر دیا تھا۔ یہ پاکستان کی ہی ہوش مندی تھی کہ اس کے بعد کوئی بڑا جنگی تنازعہ پیدا نہیں ہوا تھا۔
جوہری ہتھیار صرف اس وقت موثر ہوتے ہیں جب ان کی ترسیل کے لئے قابلِ اعتماد نظام بھی موجود ہو۔ پاکستان نے اس حوالے سے قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان کے پاس بیلسٹک اور کروز میزائلز کی ایک مکمل رینج موجود ہے، جن میں شاہین-1، شاہین-2، شاہین-3، غوری، غزنوی، عبداللہ، نصر، بابر اور رعد شامل ہیں۔ ان میں سے شاہین-3 کی رینج تقریباً 2,750 کلومیٹر ہے، جو بھارت کے مشرقی علاقوں تک مار کر سکتا ہے۔ رعد میزائل کروز ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جو طیارے سے لانچ کیا جاتا ہے اور دشمن کے ریڈار سسٹم سے بچتے ہوئے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری طرف بھارت نے بھی اگنی سیریز کے میزائلز میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ اگنی-5 ایک لانگ رینج میزائل ہے اور بھارت اب اگنی-6 پر کام کر رہا ہے، جس کی رینج 6,000 کلومیٹر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کا میزائل سسٹم چین تک بھی پہنچ سکتا ہے۔اگر روایتی افواج کی بات کی جائے تو بھارت کو تعداد میں برتری حاصل ہے۔ Global Firepower 2024 کے مطابق،بھارت کے پاس تقریبا ً14لاکھ فعال فوجی ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 6 سے 7لاکھ کے قریب۔بھارت کے پاس 4,700 ٹینک، 2,200طیارے اور 295نیوی یونٹس ہیں۔پاکستان کے پاس 3,700 ٹینک، 1,400 طیارے اور 114نیوی یونٹس موجود ہیں۔لیکن جنگیں صرف تعداد سے نہیں جیتی جاتیں۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جس کامیابی سے جنگ لڑی ہے اس نے اس کی افواج کو میدانِ جنگ میں زیادہ تجربہ کار اور موثر بنا دیا ہے۔
پاکستان نے جے ایف-17تھنڈر جیسے جدید لڑاکا طیارے چین کے اشتراک سے تیار کئے ہیں جو بھارت کے مگ-29 اور تیجس کا موثر جواب ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے چین، ترکی اور دیگر اتحادی ممالک سے دفاعی تعاون بڑھایا ہے۔ایٹمی جنگ کی صورت میں نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں لیکن تحقیقی ادارے اور ماحولیاتی تنظیمیں خبردار کر چکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود پیمانے پر بھی جوہری جنگ ہوتی ہے تو صرف ابتدائی حملے میں 50 سے 100لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ تابکاری کے اثرات نسلوں تک محسوس کئے جائیں گے۔ کھانے پینے کی قلت، بیماریاں اور مہاجرین کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ فضا میں گرد و غبار اور ایٹمی دھماکوں سے سورج کی روشنی متاثر ہوگی اور دنیا بھر کا درجہ حرارت کئی ڈگری کم ہو سکتا ہے۔ فصلیں اگنا بند ہو جائیں گی اور دنیا کو غذائی بحران کا سامنا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی معیشت کو بھی بڑا دھچکا لگے گا۔ جنوبی ایشیا ء ایک بڑی افرادی قوت اور ابھرتی ہوئی منڈیوں کا خطہ ہے۔ جنگ کی صورت میں نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کی مارکیٹس میں عدم استحکام پیدا ہو گا، سرمایہ کاری رک جائے گی، تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور عالمی تجارتی سپلائی چین متاثر ہوگی۔ایسی صورت حال میں عالمی برادری کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ، امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بااثر ممالک کو فوری طور پر ثالثی کا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ کشمیر جیسے بنیادی مسئلے کو حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ممکن نہیں۔بھارت عددی اعتبار سے یقینا ایک بڑی فوجی طاقت ہیجس کی فوجی نفری، دفاعی بجٹ اور اسلحہ جات کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے لیکن جب بات ایٹمی صلاحیت کی ہو تو دونوں ممالک تقریبا ًبرابری کی سطح پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ دونوں کے پاس قابلِ استعمال ایٹمی وار ہیڈز کی تعداد 140 سے 170 کے درمیان بتائی جاتی ہے اور دونوں نے مختلف میزائل سسٹمز کے ذریعے اپنی ڈیٹرنس صلاحیت کو مضبوط بنایا ہے۔ ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا تصور بھی تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ ایسے میں گنتی فوجیوں یا ٹینکوں کی نہیں بلکہ جوابی ایٹمی صلاحیت (second strike capability) کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلہ تقریبا برابر ہے، اور یہی توازنِ خوف دونوں کو کھلی جنگ سے باز رکھنے کا باعث بنتا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں لیکن اصل طاقت جنگ میں نہیں بلکہ امن قائم رکھنے میں ہے۔ کسی بھی جنگ میں صرف تباہی ہے خصوصا ایٹمی جنگ تو انسانیت کے لیے مکمل ہلاکت ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارت کو بھی سنجیدہ طرزِ عمل اپنانا ہوگا۔ اگر جنوبی ایشیا کو ایٹمی قبرستان بننے سے بچانا ہے تو ہمیں جنگ نہیں امن کی طرف بڑھنا ہوگا۔ بات چیت، مسئلہ کشمیر کا حل، اور باہمی احترام ہی اس خطے کا مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی گرین لینڈ کو نئی دھمکی سے تیسری عالمی جنگ کا خدشہ
  • بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزامات سے غیر مستحکم خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہاہے،او آئی سی
  • ٹرمپ کی گرین لینڈ کو نئی دھمکی سے تیسری عالمی جنگ کا خدشہ بڑھ گیا
  • پاکستان نیوکلئیر ہتھیار بھی استعمال کرے گا، سینئیر ڈپلومیٹ کی وارننگ
  •  فائر فائٹرز کا عالمی دن آج ،مختلف اداروں کے زیراہتمام پروگرامز، کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد 
  • پاکستان اور انڈیا کی جوہری طاقت کا موازنہ
  • پاکستان سمیت دنیا میں فائر فائٹرز کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • بھارت کی جانب سے ابھی خطرہ کم نہیں ہوا: وزیر دفاع
  • پاکستان پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش نہ کرتا تو عالمی بیانات جارحانہ ہوسکتے تھے:خواجہ آصف