ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کا تصور
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
جب ہم انسانی شخصیت کی بات کرتے ہیں تو اس میں جسمانی، ذہنی، اور روحانی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا، خاص طور پر میٹاورس، نے اس تصور کو ایک نئی جہت دی ہے۔
اب شناخت صرف جسم یا زمین سے بندھی نہیں رہی، بلکہ ایک ورچوئل وجود بھی تشکیل پاچکا ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر شخصیت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا انسان صرف وہی ہے جو جسمانی دنیا میں نظر آتا ہے، یا وہ بھی ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں تشکیل پاتا ہے؟
میٹاورس ایک ورچوئل، مشترکہ، اور اکثر متعامل (interactive) دنیا ہے جو انٹرنیٹ، ورچوئل رئیلٹی، اور آگمینٹڈ رئیلٹی پر مبنی ہے۔ یہاں افراد اپنا ایک ڈیجیٹل اوتار بنا کر مختلف سرگرمیوں میں شامل ہو سکتے ہیں، چاہے وہ تعلیم ہو، کاروبار، تفریح یا سماجی تعلقات۔
یہ دنیا جسمانی حدود سے آزاد ہے۔ ایک شخص جو حقیقت میں محدود وسائل یا جسمانی معذوری کا شکار ہو، وہ میٹاورس میں ایک طاقتور، آزاد، اور بامقصد شخصیت اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کے ساتھ کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں، خاص طور پر شناخت (Identity) اور خودی (Selfhood) کے حوالے سے۔
شناخت ایک شخص کی وہ پہچان ہے جو اس کے طرزِ زندگی، سوچ، زبان، لباس، تعلقات اور اقدار سے تشکیل پاتی ہے۔ لیکن میٹاورس میں شناخت کا مفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب ایک فرد اپنے لیے کوئی بھی چہرہ، جنس، یا کردار اختیار کرسکتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو اپنی مرضی سے تشکیل دے سکتا ہے، جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شناخت حقیقی ہے؟
ورچوئل دنیا میں پرفارمیٹیو شناخت (performative identity) ابھر کر سامنے آتی ہے، جہاں فرد بار بار نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سیال (fluid) شخصیت وجود میں آتی ہے جو روایتی سماجی شناخت سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ تغیر شخصیت کو مضبوط بناتا ہے یا بکھیر دیتا ہے؟ اگر ہر لمحہ شناخت بدل رہی ہو، تو کیا ایک مستقل ’’میں‘‘ باقی رہتی ہے؟
خودی ایک گہرا اور فلسفیانہ تصور ہے جو انسان کے اندرونی شعور، مقصدِ حیات، اور اخلاقی ارتقا سے جڑا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کو انسانی روح کی وہ آگہی قرار دیا جو فرد کو تقدیر بدلنے کی قوت عطا کرتی ہے۔
اقبال کے نزدیک خودی کی تکمیل قربانی، عشق، اور عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ فرار یا مصنوعی آزادی سے۔ مگر میٹاورس کی دنیا میں فرد اپنے لیے ایک ایسا ماسک پہن لیتا ہے جو شاید وقتی طور پر آزادی کا احساس دے، لیکن طویل عرصے میں وہ اسے اپنی اصل سے جدا کر دیتا ہے۔
یہاں اقبال کی یہ بات بہت اہم ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟
یورپ میں خودی کا تصور فلسفہ، ادب اور نفسیات کے مختلف مکاتبِ فکر میں ایک بنیادی موضوع رہا ہے۔ رینے ڈیکارٹ (René Descartes) کا مشہور جملہ "I think, therefore I am" خودی کی شعوری بنیاد پر زور دیتا ہے۔ یعنی انسان کا شعور اس کی شناخت کا بنیادی ثبوت ہے۔ اسی طرح جان لاک نے خودی کو یادداشت اور مسلسل شعور سے جوڑا، جس کے مطابق انسان کی ذات اس کی ماضی کی یادوں اور ذاتی تجربات کا مجموعہ ہے۔ ان نظریات میں خودی کا تعلق فرد کی ذہنی حالت اور اس کی فکری آزادی سے ہے، جو ایک باخبر اور ذمے دار شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔
بعد ازاں، جرمن فلسفی فریڈرک نطشے (Nietzsche) نے خودی کو ایک تخلیقی اور انقلابی قوت کے طور پر پیش کیا۔ اس کے نزدیک انسان کو اپنی ’’اصل خودی‘‘ کو پہچاننے اور سماجی و اخلاقی روایات سے بلند ہو کر اپنی تقدیر خود بنانے کی جرات کرنی چاہیے۔ وہ خودی کو Übermensch یعنی ’’بالاتر انسان‘‘ کی طرف سفر قرار دیتا ہے۔ اسی تصور کا عکس فرانز کافکا کے افسانوں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں انسان اپنی ذات کی تلاش میں دنیا کے بے رحم نظام سے برسرپیکار ہے۔ یوں یورپ میں خودی صرف ایک ذاتی شعور ہی نہیں بلکہ ایک سماجی اور وجودی جدوجہد بھی ہے۔
ورچوئل دنیا میں خودی کی تعمیر ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ایک طرف تو یہ دنیا فرد کو خود کو نئے زاویوں سے سمجھنے کا موقع دیتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر انسان ورچوئل شناخت میں گم ہو جائے تو اصل خودی دھندلا جاتی ہے۔
ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کے درمیان ایک واضح کشمکش نظر آتی ہے۔ جہاں شناخت کو بدلنا آسان ہے، وہیں خودی کی تعمیر مسلسل غور، فکر، اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ورچوئل دنیا میں انسان کو شناخت کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہی اختیار بسا اوقات شخصیت کی جڑوں کو ہلا دیتا ہے۔ جب ایک فرد مختلف روپ دھارتا ہے، کبھی گیمز میں جنگجو، کبھی کاروباری سیمینارز میں ایک پروفیشنل، کبھی سوشل میڈیا پر جمالیاتی اوتار تو اس کی اصل شخصیت مختلف رخوں میں تقسیم ہونے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں فرد اپنی شناخت کے پیچھے چھپتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ خود کو دریافت کرے۔ شناخت کا یہ لچکدار پن وقتی طور پر آزادی دیتا ہے، مگر ایک مستقل ’’میں‘‘ کی تلاش کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
اس کے برعکس، خودی کی تعمیر ایک داخلی سفر ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بجائے باطنی ارتقاء کا تقاضا کرتی ہے۔ خودی نہ تو کسی ایپ سے بنتی ہے اور نہ کسی فلٹر سے چمکتی ہے؛ یہ عمل، احساس، اور فہم سے نمو پاتی ہے۔ میٹاورس میں جب شناخت لمحہ بہ لمحہ بدلے، تو خودی کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ فرد اپنی داخلی حقیقت سے جُڑے۔ اگر انسان صرف خارجی دنیا کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھالتا رہے تو وہ اپنی روحانی مرکزیت سے دور ہو جاتا ہے، اور شخصیت ایک بکھرے ہوئے وجود کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
میٹاورس میں شناخت اکثر باہر سے آنے والے اثرات (trends, filters, avatars) پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ خودی اندر سے ابھرنے والا شعور ہے۔ اگر فرد اپنی شناخت کو بیرونی دنیا کے سانچے میں ڈھالتا رہے اور اندر کی خودی کو نظرانداز کرے، تو وہ شخصیت جو تعمیر ہونی چاہیے تھی، وہ بکھرنے لگتی ہے۔
نئی نسل کے لیے ایک نکتۂ فکر
آج کے نوجوان جب میٹاورس میں اپنی ورچوئل موجودگی بناتے ہیں، تو ان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں:
1.
2. یا وہ ورچوئل دنیا کو اپنی خودی کی تلاش اور شعور کی گہرائی تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں
یہاں تعلیمی اداروں، والدین، اور سماجی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل شعور (Digital Literacy) سے آراستہ کریں، تاکہ وہ ورچوئل دنیا کے اثرات کو سمجھ کر ایک متوازن شخصیت تشکیل دے سکیں۔
میٹاورس ایک انقلاب ہے، لیکن ہر انقلاب کے ساتھ ذمے داری بھی جڑی ہوتی ہے۔ انسان جب نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی شخصیت بھی نئے چیلنجز سے دوچار ہوتی ہے۔ شناخت کو تشکیل دینا اگرچہ آسان ہوا ہے، مگر خودی کی تلاش اب پہلے سے زیادہ ضروری اور مشکل ہو گئی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میٹاورس میں صرف نقاب پہنیں گے، یا اپنی خودی کا چہرہ بھی پہچانیں گے؟
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ورچوئل دنیا میں خودی کی تعمیر اختیار کر شخصیت کی شناخت کا شناخت کو ہوتی ہے دیتا ہے خودی کو میں ایک خودی کا کی تلاش دنیا کے
پڑھیں:
انسان کے روپ میں وحشی درندہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250921-03-3
شجاع صغیر
اے ابن آدم آج سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک معصوم لڑکی زینب کے ساتھ زیادتی ہوئی پھر اس پھول کا قتل کردیا جاتا ہے، اس وقت بھی میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’قصور کی بے قصور زینب‘‘۔ اس وقت بھی میں نے حکمرانوں سے اپیل کی تھی کہ اس فعل کے مرتکب کو سرے عام پھانسی دی جائے تا کہ وہ ایک نشان عبرت بن جائے مگر ایسا نہیں ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اچانک اخبار کی ایک خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ قیوم آباد کے علاقے میں بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا۔ درندہ صفت ملزم کے موبائل فون اور یو ایس بی ڈرائیو سے معصوم بچیوں کی 200 سے زائد ویڈیوز ملی ہیں۔ ڈیفنس تھانے کی حدود قیوم آباد سی ایریا گلی نمبر 18 میں شربت کی ریڑھی لگانے والا بھیڑیا صفت ملزم عوام کے ہتھے چڑھ گیا۔ ملزم شیر احمد کو علاقہ مکینوں نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ڈیفنس پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس کے مطابق ملزم سے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزم شبیر احمد کئی کم عمر بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے اور وہ زیادتی کرتے ہوئے معصوم بچیوں کی ویڈیوز بھی بناتا تھا۔ ایس ایس پی سائوتھ نے بتایا کہ دوران تفتیش ملزم کے موبائل فون اور یو ایس بی سے 200 سے زائد معصوم بچیوں کی ویڈیوز ملی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور وہ سال 2016ء میں کراچی آیا اور قیوم آباد میں کرائے کے کمرے میں رہتا ہے۔ ملزم نے 7 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی بچیاں اس علاقے کی ہیں اور کئی بچیوں کو وہ متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے۔ ملزم پیسوں اور چیز کا لالچ دے کر بچیوں کو اپنے کمرے میں لے جاتا تھا، کئی بچیاں پیسوں کی لالچ میں اس کے پاس آتی تھیں اور پھر وہ انہیں مزید پیسوں کا لالچ دے کر ان کی بہنوں اور کزنز کو بھی بلاتا تھا۔ ملزم نے دو بہنوں سمیت کئی کم عمر بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ کئی ویڈیوز میں ملزم خود بھی نظر آرہا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ اس کا ایک دوست آصف جس کا انتقال ہوچکا ہے اس نے ملزم کو اس لت میں لگایا۔ پولیس نے دو بہنوں سمیت 5 بچیوں کے ساتھ زیادتی کے چار مقدمات اب تک درج کرلیے ہیں، بچیوں کی عمریں 7 سے 13 برس ہے۔ متاثرہ بچیوں کا میڈیکل چیک اپ بھی کروایا جارہا ہے۔ موبائل اور یو ایس بی سے ملنے والی ویڈیوز کے ذریعے دیگر بچیوں کے حوالے سے معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ملزم کی یو ایس بی ایک بچی کے ہاتھ لگی جسے وہ مقامی موبائل کی دکان پر فروخت کے لیے آئی جس کے بعد یہ درندہ صفت ملزم بے نقاب ہوگیا۔ ملزم کے قبضے سے بچیوں کے اسکول کے کپڑے اور اسکول کارڈ بھی برآمد ہوئے۔ ملزم شیر تنولی 2016 میں کراچی آیا۔ ملزم کی ہوس کا نشانہ بننے والی سب سے کم عمر بچی 7 سال کی ہے جبکہ بقول ملزم کے اس نے 8 سال سے لے کر 14 سال تک کی لڑکیوں کو پامال کیا۔ گرفتاری تک 100 سے زائد بچیوں کے ساتھ زیادتی کی، ملزم شبیر تنولی نے حوانیت، درندگی اور سفاکیت کی تمام حدوں کو پار کردیا۔ ویڈیوز کے حوالے سے ملزم نے بتایا کہ یہ ویڈیوز اس نے کبھی کسی کو نہیں دیں بلکہ وہ اپنی تسکین کے لیے یہ ویڈیوز بناتا تھا۔ ملزم ساتویں پاس ہے، 2016ء سے 2025ء تک 100 سے زیادہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور ان کی زندگی تباہ کرنے والا یہ وحشی درندہ کہتا ہے کہ اس کو اپنے اس فعل پر شرم نہیں آتی تھی۔ مجھے جو سزا ملے گی قبول کروں گا۔
اے ابن آدم خدا کے واسطے اپنی بچیوں کی تربیت کریں یہ ان کی مائوں کا کام ہے کہ انہیں اکیلے نہ نکلنے دیں، ہمارے معاشرے میں یہ لعنت بڑھتی جارہی ہے، کچھ والدین تو عزت کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی شکایت تک نہیں کرتے۔ میری اسکول کے استادوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی بچیوں کی تربیت کریں اگر کسی بچی کے ساتھ ایسا کوئی شرمناک واقعہ ہو تو وہ اس کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے، میں پھر سچ لکھوں گا تو حکمرانوں کو اور انصاف فراہم کرنے والوں کو برا لگ جاتا ہے، ہماری عدالتیں اگر بروقت اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ سنادیں اور سزا کم سے کم پھانسی ہو تو پھر جا کر اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو آزاد عدلیہ بھی نہیں پسند۔ اپنی مرضی کے جج لے کر آتے ہیں، من پسند فیصلے کرواتے ہیں۔ آخر کب تک یہ نظام چلے گا؟ اس فرسودہ اور جاگیردارانہ نظام کو بدلنا ہوگا نہیں تو آنے والی نسلیں بھی تباہ و برباد ہوجائیں گی۔ میری آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ ملزم شبیر تنولی کا کیس کھلی عدالت میں چلایا جائے اور ایسے وحشی درندے نما انسان کو سرے عام پھانسی دی جائے۔