Express News:
2025-08-09@05:57:42 GMT

ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کا تصور

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

جب ہم انسانی شخصیت کی بات کرتے ہیں تو اس میں جسمانی، ذہنی، اور روحانی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا، خاص طور پر میٹاورس، نے اس تصور کو ایک نئی جہت دی ہے۔

اب شناخت صرف جسم یا زمین سے بندھی نہیں رہی، بلکہ ایک ورچوئل وجود بھی تشکیل پاچکا ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر شخصیت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا انسان صرف وہی ہے جو جسمانی دنیا میں نظر آتا ہے، یا وہ بھی ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں تشکیل پاتا ہے؟

میٹاورس ایک ورچوئل، مشترکہ، اور اکثر متعامل (interactive) دنیا ہے جو انٹرنیٹ، ورچوئل رئیلٹی، اور آگمینٹڈ رئیلٹی پر مبنی ہے۔ یہاں افراد اپنا ایک ڈیجیٹل اوتار بنا کر مختلف سرگرمیوں میں شامل ہو سکتے ہیں، چاہے وہ تعلیم ہو، کاروبار، تفریح یا سماجی تعلقات۔

یہ دنیا جسمانی حدود سے آزاد ہے۔ ایک شخص جو حقیقت میں محدود وسائل یا جسمانی معذوری کا شکار ہو، وہ میٹاورس میں ایک طاقتور، آزاد، اور بامقصد شخصیت اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کے ساتھ کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں، خاص طور پر شناخت (Identity) اور خودی (Selfhood) کے حوالے سے۔

شناخت ایک شخص کی وہ پہچان ہے جو اس کے طرزِ زندگی، سوچ، زبان، لباس، تعلقات اور اقدار سے تشکیل پاتی ہے۔ لیکن میٹاورس میں شناخت کا مفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب ایک فرد اپنے لیے کوئی بھی چہرہ، جنس، یا کردار اختیار کرسکتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو اپنی مرضی سے تشکیل دے سکتا ہے، جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شناخت حقیقی ہے؟

ورچوئل دنیا میں پرفارمیٹیو شناخت (performative identity) ابھر کر سامنے آتی ہے، جہاں فرد بار بار نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سیال (fluid) شخصیت وجود میں آتی ہے جو روایتی سماجی شناخت سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ تغیر شخصیت کو مضبوط بناتا ہے یا بکھیر دیتا ہے؟ اگر ہر لمحہ شناخت بدل رہی ہو، تو کیا ایک مستقل ’’میں‘‘ باقی رہتی ہے؟

خودی ایک گہرا اور فلسفیانہ تصور ہے جو انسان کے اندرونی شعور، مقصدِ حیات، اور اخلاقی ارتقا سے جڑا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کو انسانی روح کی وہ آگہی قرار دیا جو فرد کو تقدیر بدلنے کی قوت عطا کرتی ہے۔

اقبال کے نزدیک خودی کی تکمیل قربانی، عشق، اور عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ فرار یا مصنوعی آزادی سے۔ مگر میٹاورس کی دنیا میں فرد اپنے لیے ایک ایسا ماسک پہن لیتا ہے جو شاید وقتی طور پر آزادی کا احساس دے، لیکن طویل عرصے میں وہ اسے اپنی اصل سے جدا کر دیتا ہے۔

یہاں اقبال کی یہ بات بہت اہم ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟

یورپ میں خودی کا تصور فلسفہ، ادب اور نفسیات کے مختلف مکاتبِ فکر میں ایک بنیادی موضوع رہا ہے۔ رینے ڈیکارٹ (René Descartes) کا مشہور جملہ "I think, therefore I am" خودی کی شعوری بنیاد پر زور دیتا ہے۔ یعنی انسان کا شعور اس کی شناخت کا بنیادی ثبوت ہے۔ اسی طرح جان لاک نے خودی کو یادداشت اور مسلسل شعور سے جوڑا، جس کے مطابق انسان کی ذات اس کی ماضی کی یادوں اور ذاتی تجربات کا مجموعہ ہے۔ ان نظریات میں خودی کا تعلق فرد کی ذہنی حالت اور اس کی فکری آزادی سے ہے، جو ایک باخبر اور ذمے دار شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔

بعد ازاں، جرمن فلسفی فریڈرک نطشے (Nietzsche) نے خودی کو ایک تخلیقی اور انقلابی قوت کے طور پر پیش کیا۔ اس کے نزدیک انسان کو اپنی ’’اصل خودی‘‘ کو پہچاننے اور سماجی و اخلاقی روایات سے بلند ہو کر اپنی تقدیر خود بنانے کی جرات کرنی چاہیے۔ وہ خودی کو Übermensch یعنی ’’بالاتر انسان‘‘ کی طرف سفر قرار دیتا ہے۔ اسی تصور کا عکس فرانز کافکا کے افسانوں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں انسان اپنی ذات کی تلاش میں دنیا کے بے رحم نظام سے برسرپیکار ہے۔ یوں یورپ میں خودی صرف ایک ذاتی شعور ہی نہیں بلکہ ایک سماجی اور وجودی جدوجہد بھی ہے۔

ورچوئل دنیا میں خودی کی تعمیر ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ایک طرف تو یہ دنیا فرد کو خود کو نئے زاویوں سے سمجھنے کا موقع دیتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر انسان ورچوئل شناخت میں گم ہو جائے تو اصل خودی دھندلا جاتی ہے۔

ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کے درمیان ایک واضح کشمکش نظر آتی ہے۔ جہاں شناخت کو بدلنا آسان ہے، وہیں خودی کی تعمیر مسلسل غور، فکر، اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ورچوئل دنیا میں انسان کو شناخت کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہی اختیار بسا اوقات شخصیت کی جڑوں کو ہلا دیتا ہے۔ جب ایک فرد مختلف روپ دھارتا ہے، کبھی گیمز میں جنگجو، کبھی کاروباری سیمینارز میں ایک پروفیشنل، کبھی سوشل میڈیا پر جمالیاتی اوتار تو اس کی اصل شخصیت مختلف رخوں میں تقسیم ہونے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں فرد اپنی شناخت کے پیچھے چھپتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ خود کو دریافت کرے۔ شناخت کا یہ لچکدار پن وقتی طور پر آزادی دیتا ہے، مگر ایک مستقل ’’میں‘‘ کی تلاش کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

اس کے برعکس، خودی کی تعمیر ایک داخلی سفر ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بجائے باطنی ارتقاء کا تقاضا کرتی ہے۔ خودی نہ تو کسی ایپ سے بنتی ہے اور نہ کسی فلٹر سے چمکتی ہے؛ یہ عمل، احساس، اور فہم سے نمو پاتی ہے۔ میٹاورس میں جب شناخت لمحہ بہ لمحہ بدلے، تو خودی کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ فرد اپنی داخلی حقیقت سے جُڑے۔ اگر انسان صرف خارجی دنیا کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھالتا رہے تو وہ اپنی روحانی مرکزیت سے دور ہو جاتا ہے، اور شخصیت ایک بکھرے ہوئے وجود کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

میٹاورس میں شناخت اکثر باہر سے آنے والے اثرات (trends, filters, avatars) پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ خودی اندر سے ابھرنے والا شعور ہے۔ اگر فرد اپنی شناخت کو بیرونی دنیا کے سانچے میں ڈھالتا رہے اور اندر کی خودی کو نظرانداز کرے، تو وہ شخصیت جو تعمیر ہونی چاہیے تھی، وہ بکھرنے لگتی ہے۔


نئی نسل کے لیے ایک نکتۂ فکر

آج کے نوجوان جب میٹاورس میں اپنی ورچوئل موجودگی بناتے ہیں، تو ان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں:

1.

وہ اپنی شناخت کو صرف ایک تفریح یا Escape کے طور پر استعمال کریں
2. یا وہ ورچوئل دنیا کو اپنی خودی کی تلاش اور شعور کی گہرائی تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں

یہاں تعلیمی اداروں، والدین، اور سماجی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل شعور (Digital Literacy) سے آراستہ کریں، تاکہ وہ ورچوئل دنیا کے اثرات کو سمجھ کر ایک متوازن شخصیت تشکیل دے سکیں۔

میٹاورس ایک انقلاب ہے، لیکن ہر انقلاب کے ساتھ ذمے داری بھی جڑی ہوتی ہے۔ انسان جب نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی شخصیت بھی نئے چیلنجز سے دوچار ہوتی ہے۔ شناخت کو تشکیل دینا اگرچہ آسان ہوا ہے، مگر خودی کی تلاش اب پہلے سے زیادہ ضروری اور مشکل ہو گئی ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میٹاورس میں صرف نقاب پہنیں گے، یا اپنی خودی کا چہرہ بھی پہچانیں گے؟
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ورچوئل دنیا میں خودی کی تعمیر اختیار کر شخصیت کی شناخت کا شناخت کو ہوتی ہے دیتا ہے خودی کو میں ایک خودی کا کی تلاش دنیا کے

پڑھیں:

غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر کے اتھارٹی تھرڈ پارٹی کے حوالے کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں بھوک کی پالیسی سے بارہ ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا حالیہ بیان کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور پھر اس پرکنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کیا جائے گا، محض ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ ایک ایسے گہرے منصوبے کی جھلک ہے جس کا مقصد نہ صرف فلسطینی سرزمین پر مستقل قبضہ کرنا ہے بلکہ فلسطینی عوام کو ان کی شناخت، خود مختاری اور آزادی سے مکمل طور پر محروم کر دینا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی انسانی بحران کی بد ترین شکل اختیارکرچکا ہے۔

لاکھوں فلسطینی بے گھر، بھوکے، پیاسے اور بمباری کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، بچے ماں باپ سے محروم ہو رہے ہیں، اور ایک پورا معاشرہ ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے۔ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ’’ غزہ پر مکمل قبضے‘‘ کا عندیہ دینا دراصل عالمی برادری کو کھلا چیلنج دینا ہے۔ نیتن یاہو کی اس سوچ کے پیچھے وہی پرانا استعماری ذہن کارفرما ہے جو طاقت کے زور پر قوموں کو دبانے کا عادی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ ’’ تیسرا فریق‘‘ کون ہے جسے غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا؟ کیا یہ امریکا ہوگا؟ یا کوئی علاقائی طاقت؟ یا کوئی بین الاقوامی تنظیم جسے محض دکھاوے کے لیے لایا جائے گا تاکہ اسرائیل کی غیر قانونی حکمرانی کو جواز فراہم کیا جا سکے؟ جو بھی فریق ہو، اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر غزہ پرکسی بھی قسم کا کنٹرول ایک اور قبضہ ہو گا،ایک اور ناانصافی ہو گی، اور ایک نیا باب ظلم کا کھولا جائے گا۔

 یہاں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ متنازعہ بات بھی یاد آتی ہے جس میں انھوں نے غزہ کو ایک ’’ تفریحی مقام‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان سے نہ صرف ان کی فلسطینیوں کے مصائب سے بے حسی ظاہر ہوئی، بلکہ یہ بھی عیاں ہوا کہ ان کی نظر میں غزہ ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک معاشی منصوبہ ہے۔

ایسی سوچ محض سیاسی لاعلمی نہیں بلکہ ظالمانہ استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے، اگر اسرائیل کے زیرِ اثر غزہ کو کسی ایسے ’’ ترقیاتی منصوبے‘‘ میں بدلا گیا جس کا فائدہ صرف قبضہ گیر طاقتوں کو پہنچے، تو یہ ایک نئی طرزکی نوآبادیات ہو گی جس کا مقصد زمین ہتھیانا اور لوگوں کو بے دخل کرنا ہوگا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مدت میں عالمی سطح پر جو معاشی پالیسیاں اختیارکیں، ان کا واحد مقصد امریکا کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے ۔

چین، بھارت، ترکی اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں پر بے جا ٹیرف لگا کر وہ دنیا کو معاشی غلامی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عالمی تجارتی نظام میں ان کی یکطرفہ پالیسیاں بے یقینی، عدم اعتماد اور معاشی عدم توازن کا سبب بن رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے منفی اثرات دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر نمایاں ہیں۔ ایسے میں اگر ٹرمپ یا ان کی طرز کی قیادت کو غزہ جیسے حساس خطے میں کوئی کردار ملتا ہے، تو یہ امن کی نہیں، بلکہ ایک اور بحران کی بنیاد ہو گی۔

غزہ کی موجودہ صورتحال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قسم کا انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے، پینے کا صاف پانی ناپید ہے، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان میں ادویات نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ریڈ کراس اور بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی تو لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کی بمباری جاری ہے، اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، اس کے سامنے انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ فلسطینی عوام کا مسئلہ صرف زمین یا اقتدار کا نہیں، بلکہ ان کا مقدمہ انسانیت، آزادی اور بقاء کا ہے۔ ان پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کی خاموشی اس جرم میں شریک بن چکی ہے۔ جب پوری دنیا مظلوم کی حمایت سے گریزکرے، ظالم کو اسلحہ دے، اور صرف مذمت پر اکتفا کرے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے اور امن مزید دور ہو جاتا ہے۔

اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، طاقت کے بل پر قبضہ اور فلسطینیوں کو مسلسل دیوار سے لگانا۔ اس کے پیچھے نہ صرف عسکری قوت ہے بلکہ معاشی، سفارتی اور میڈیا کا ایک منظم نیٹ ورک بھی ہے۔ مغربی میڈیا عام طور پر اسرائیلی بیانیے کو زیادہ جگہ دیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کی آواز یا تو دبا دی جاتی ہے یا مشکوک بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں حقائق عوام تک پہنچنے سے رہ جاتے ہیں، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

اسرائیل اور امریکا کی یہ مشترکہ حکمت عملی اگر اسی طرح چلتی رہی تو مشرق وسطیٰ ایک ایسے دائمی تنازعے کی لپیٹ میں آ جائے گا جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ پہلے ہی یمن، شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک بدامنی کا شکار ہیں، اگر غزہ میں ظلم کا یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ آگ پورے خطے کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی بے بسی اور مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس المیے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔

او آئی سی جیسا ادارہ محض اجلاسوں اور بیانات کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران معاشی مفادات یا سفارتی تعلقات کے تحت اس قدر محتاط ہو چکے ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے دو ٹوک موقف اختیارکرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کب تک دنیا فلسطین پر ہونے والے مظالم کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ کب تک عالمی برادری صرف تماشائی بنی رہے گی؟

جو ممالک خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے علمبردار کہتے ہیں، ان کے لیے غزہ ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر وہ واقعی اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو انھیں فلسطینیوں کے حق میں واضح، عملی اور جرات مندانہ موقف اختیار کرنا ہو گا۔ محض امداد یا مذمتی بیانات سے نہ مظلوم کو ریلیف ملتا ہے اور نہ ہی ظالم کے ہاتھ رکتے ہیں۔یہ مسئلہ محض جغرافیہ یا اقتدار کا نہیں بلکہ انسانی وقار، حقِ زندگی اور انصاف کے بین الاقوامی اصولوں کا امتحان ہے۔

فلسطینی بچوں کی معصومیت، فلسطینی ماؤں کے آنسو، اور فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں یہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ انسان ہونے کے حق کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر عزت و وقار سے جینا چاہے تو ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جھکاتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ محض زمین کا سوال نہیں۔ وہ زمین جس پر ان کے آباؤ اجداد نے صدیوں تک زندگی گزاری، عبادت کی، محنت کی، اور نسلیں پروان چڑھائیں، وہ زمین ان کی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔

لیکن آج انھیں اس زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی بستیاں مسمار کی جا رہی ہیں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اُن کی تاریخ کو مٹانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ کسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا، تو دنیا کی طاقتور اقوام چیخ اٹھتیں، مگر فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بیشتر عالمی طاقتیں یا تو خاموش ہیں یا خاموش رہنے پر مجبور کی جا چکی ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔

یہ نہ کسی قوم کی اجارہ داری ہے اور نہ کسی طاقتور ملک کی عنایت۔ فلسطینی قوم نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جائیں گی۔ انھوں نے گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر، ٹینکوں کے سامنے پتھر لے کر کھڑے ہو کر، اور بچوں کی لاشوں کو دفنا کر بھی ہار نہیں مانی۔ ان کے دل میں آج بھی آزادی کی تڑپ زندہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید وہ خود آزاد نہ ہوں، لیکن ان کی آیندہ نسلیں ایک دن ضرور آزاد فضا میں سانس لیں گی۔ یہی امید انھیں زندہ رکھتی ہے، یہی ایمان انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت دیتا ہے۔

دنیا ابھی مکمل طور پر بے ضمیر نہیں ہوئی۔ آج بھی لاکھوں لوگ، خصوصاً نوجوان نسل، سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ تصاویر، وڈیوز اور بیانات جو کبھی دنیا سے چھپائے جاتے تھے، آج سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن اسے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

صرف جذباتی نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں فلسطینی عوام کی حقیقی مدد کرنی ہوگی، چاہے وہ مالی ہو، تعلیمی ہو، یا سفارتی۔وقت آ گیا ہے کہ دنیا دوغلی پالیسیوں سے باز آ کر کھل کر ظالم اور مظلوم کے بیچ فرق واضح کرے۔ فلسطینیوں کی زمین، ان کی شناخت اور ان کا وجود کوئی تجارتی منصوبہ یا سفارتی سودے بازی کا حصہ نہیں۔ یہ ایک قوم کا بنیادی حق ہے جسے کوئی طاقت چھیننے کی کوشش کرے گی تو وہ خود تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • اقوال زریں!
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
  • مثالی سول سرونٹ اور انسان دوست رہنماء کو خراجِ تحسین
  • چین کا پہلا مون لینڈر ٹیسٹ کامیاب، انسان بردار مشن کی راہ ہموار
  • گاؤں یو چھون کی بیس سالہ تبدیلیاں: “دو پہاڑوں” کے تصور کی چینی دانش مندی اور عالمی اہمیت
  • چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع
  • مسالے دار کھانوں کے حیرت انگیز فوائد
  • ولایت فقیہ کا سادہ مفہوم
  • سلامتی کونسل فلسطینیوں کی ناقابل تصور تکالیف ختم کرانے کیلئے اقدامات کرے.پاکستان کا مطالبہ