Daily Ausaf:
2025-07-03@10:47:14 GMT

وہ چپ کیوں ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT

وہ کہاں ہے ؟ جہاں بھی ہے چپ ہے۔اس نے اپنے ہونٹ مصلحت کے دھاگے سے سی لئے ہیں ۔اس کے ملک پر سے کتنا بڑا حادثہ گزر گیا ،وہ چپ رہا ۔جغرافیائی سرحدوں پر قیامت ٹوٹ پڑی وہ چپ رہا ۔ہمارے فوجی نوجوان شہید ہوئے، کئی عورتیں، مرد اور بچے جنگ کا لقمہ بنے ۔ہمارے دشمن نے ہم پر شب خون مارا وہ چپ رہا ، ہمارے امن و سکون کو تہ و بالاکیا گیا وہ چپ رہا ۔اس نے ہمارے مرنے والوں کا پرسہ بھی نہیں دیا ۔ایسی بھی کیا مصلحت کہ وہ ملک جس کا وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہا اس کی سالمیت خطرات کی سان پر چڑھی رہی ،ساری دنیا،چیخ چیخ کر پکارتی رہی کہ دو نیوکلیئر قوتیں آپس میں نبرد آزما ہیں کوئی بٹن نہ دبادے! زمیں کا سیارہ مٹ کے رہ جائے گا، کائنات کی رونق سمٹ کر رہ جائے گی ۔سب نے چیخ و پکار کی مگر وہ نہ جانے کس کنج تنہائی میں چپ کی بکل مارے محو استراحت رہا ۔
سرائیکی وسیب کے مہاندرے شاعر اقبال سوکڑی نے کہا تھا۔
چپ چپ یارو !
کوئی گالھ کرو
ایں چپ چپ دا پرچاونڑ کیا ؟
کیا آکھسی لاش حیاتی دی
ساڈا آونڑ کیا
ناں آونڑ کیا ؟
اساں خالی جھولی فطرت دی
اساں کھوٹے سکے قدرت دے
ساڈی اکھ دا ترکہ
خواب پرائے
ایں ترکے دا کم لاونڑ کیا
اساں کیں کیں نال ناں پیار کیتا
ہے کون جو ساڈا دشمن نئیں
(چپ چپ یارو ،کوئی بات کرویہ مسلسل خاموشی کس بات کا پرسہ ہے ؟
زندگی کی لاش کیا کہے گی ؟
ہمیں آنا تھا
یا نہیں آنا تھا ؟
ہم فطرت کی خالی جھولی ہیں
ہم قدرت کے کھوٹے سکے ہیں
ہماری آنکھ کا ورثہ
پرائے خواب ہیں
یہ ورثہ کس کام کا؟
ہم نے کس کس سے محبت نہیں کی کون ہے جو ہمارا دشمن نہیں ؟)
یہی گہرا درد اور یہی سوال اس شخص کی خاموشی میں پنہاں ہے ،جو ہماری ملکی سالمیت کے خلاف برپا ہونے والے سانحے پر ٹس سے مس نہیں ہوا ۔
مذکورہ سرائیکی نظم میں ایسے چپ سادھ لینے والے صاحب اختیار لوگوں کی خاموشی پر فکری اور جذباتی احتجاج ہے ۔
یہ نظم ہم تیسری دنیا کے پسماندہ باشندوں کا المیہ ہے جو ہماری ہر حالت کے ذمہ دار ہیں ۔جو ہمارے اندر اور باہر کی ٹوٹ پھوٹ پر کسی تاثر کا اظہار نہیں کرتے ،ہماری ہر محرومی ،ہر دکھ کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ان بھیانک چپ اوڑھ لینے والے لوگوں نے ہماری معیشت، ہماری معاشرت اور ہماری شناخت کو نقصان سے دو چار کیا ہے ، انہوں نے ہمارے لئے وجودی بحران پیدا کئے ہیں ۔ اپنے مفادات کی خاطر ،اپنے بےجا اختیارات کی خاطر خطے کے امن و امان کو جنگ کے خطرات کی بھینٹ چڑھایا۔
جس طرح شاعر کے لئے اپنے دوستوں کی خاموشی ایک سوال ہے اسی طرح ہم سب کے لئے یہ سکوت اپنے اندر بھید لئے ہوئے ہے ۔ہمیں ناامیدی کے اندھیرے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔ نظم میں جس طرح شاعر مردہ دل معاشرے پر نوحہ کناں ہے عین اسی طرح پوری قوم خاموش آدمی کی بے معنی خاموشی پر حیران ہے۔
یوں شاعر نے اپنے آنے نہ آنے پر وجود کی بےمعنویت پر سوال اٹھایا ہے جو ایک وجودی سوال(existential question)ہے۔شاعر کو اپنی آنکھوں کے خوابوں پر شک گزرتا ہے ویسے چپ رہ جانے والے پر ہم سب کو شک ہے کہ وہ ہمارے خوابوں کا سودا کرنے کے درپے تو نہیں ؟ ہم انہی وسوسوں اور مخمصوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں اس نے اپنی ولی عہدی کا تاج جس کے سر سجایا ہے اس نے بھی خاموشی کی دبیز چادر اوڑھ رکھی ہے ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟

دمہ (Asthma) ایک دائمی بیماری ہے یعنی یہ عام طور پر مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی بلکہ طویل مدتی انتظام کے ذریعے اسے قابو میں رکھا جاتا ہے ۔
دمہ ختم نہ ہونے کی کئی سائنسی اور طبی وجوہات ہیں:

1 ۔سانس کی نالیوں کا مستقل حساس ہونا
دمہ میں پھیپھڑوں کی نالیاں ہمیشہ حساس رہتی ہیں۔ یہ حساسیت کئی سالوں تک رہتی ہے اور کسی محرک (مثلاً دھول، دھواں، سردی) کی صورت میں فوراً سوجن اور سکڑاؤ پیدا کرتی ہیں۔

2 ۔جینیاتی اثر
دمہ اکثر موروثی بیماری ہوتی ہے ۔ اگر خاندان میں کسی کو دمہ ہے تو دوسروں کو بھی اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اور جینیاتی بیماریاں اکثر دائمی ہوتی ہیں اور مکمل "ختم” نہیں ہوتیں، صرف قابو میں رکھی جاتی ہیں۔

3 ۔ماحولیاتی عوامل
دھواں، پولن، ٹھنڈی ہوا، پالتو جانوروں کے بال، کیمیکل، اسموگ، جراثیم یا مٹی کے ذرات، یہ سب دمے کے حملے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ عوامل ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، اس لیے دمہ دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے ۔

4 ۔مدافعتی نظام کی تبدیلی (Immune Dysregulation)
دمہ اصل میں مدافعتی نظام کے انتہائی ردعمل والی بیماری ہے ۔ جسم بعض اوقات ایسے محرکات پر بھی ردِعمل دیتا ہے جو عام لوگوں پر اثر نہیں ڈالتے ۔

5 ۔دوائیوں کا عارضی اثر
دمہ کی ادویات (مثلاً انہیلر یا Corticosteroids) علامات کو عارضی طور پر کنٹرول کرتی ہیں، لیکن جڑ سے ختم نہیں کرتیں۔ جیسے ہی دوا بند کی جائے گی، علامات واپس آجاتی ہیں۔

6 ۔جسمانی ساخت میں تبدیلی
اگر دمہ بہت عرصے تک رہے تو پھیپھڑوں کی نالیوں میں مستقل تبدیلی آ سکتی ہے جسے واپس نارمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

متعلقہ مضامین

  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ دنیا میں امن کیلئے لڑ رہا ہے، سرنڈر کرنا ہماری ڈکشنری میں نہیں: بلاول
  • ہم بانیٔ پی ٹی آئی کی جنگ لڑیں گے، جیت ہمارا مقدر ہو گی: سلمان اکرم راجہ
  • خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو)
  • ہماری مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، مودی کا تکبر خاک میں مل گیاہے. خواجہ آصف
  • کاجول نے اجے دیوگن اور شاہ رخ خان کے تعلقات پر خاموشی توڑ دی
  • وہ مشاغل جو کہیں پیچھے رہ گئے ۔۔۔
  • ہماری لڑائی آئینی ضمانتوں کی بحالی کیلئے ہے، آغا سید روح اللہ
  • ہمارے ملک کا ماحول مریض بنانےکی مشین بن گیا ہے، وفاقی وزیر صحت
  • دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟