روس اور چین کا چاند پر نیوکلئیر پلانٹ بنانے کیلئے اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
روسکوسموس کے مطابق یہ قمری تحقیقاتی اسٹیشن چاند کے جنوبی قطب پر تعمیر کیا جائے گا اور اس میں اب تک 17 ممالک شراکت دار بن چکے ہیں جن میں مصر، پاکستان، وینزویلا، تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دو ایشائی عالمی طاقتوں روس اور چین نے چاند پر مشترکہ نیوکلئیر پاور پلانٹ بنانے اور اسے چلانے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ پلانٹ 2036 تک مکمل ہونے کی توقع ہے اور یہ بیجنگ اور ماسکو کی قیادت میں قائم کیے جانے والے مستقل قمری بیس انٹرنیشنل لونر ریسرچ اسٹیشن (ILRS) کو توانائی فراہم کرے گا۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند دن قبل ناسا نے اپنے مجوزہ 2026 کے بجٹ کا اعلان کیا جس میں گیٹ وے مشن کے نام سے چاند کے گرد ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا منصوبہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس چین اور روس کا مشترکہ خلائی منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
روس کے خلائی ادارے روسکوسموس کے سربراہ یوری بوریسوف کے مطابق چاند پر یہ ری ایکٹر مکمل طور پر خودکار طریقے سے نصب کیا جا سکے گا اور انسانی عمل دخل کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ پلانٹ کی تعمیر کے لیے درکار ٹیکنالوجی تقریباً تیار ہے۔ روسکوسموس کے مطابق یہ اسٹیشن بنیادی خلائی تحقیق کرے گا اور طویل غیر انسانی مشنز کی ٹیکنالوجی کو آزمایا جائے گا جو مستقبل میں انسانی مشنز کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ قمری تحقیقاتی اسٹیشن چاند کے جنوبی قطب پر تعمیر کیا جائے گا اور اس میں اب تک 17 ممالک شراکت دار بن چکے ہیں جن میں مصر، پاکستان، وینزویلا، تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
اس منصوبے کی ابتدائی تعمیر چین کے مشن چانگ ای-8 کے ساتھ 2028 میں ہوگی جو کہ چاند پر چینی خلابازوں کی پہلی لینڈنگ کی کوشش ہوگی۔ 2021 میں سامنے آنے والے منصوبے کے مطابق 2030 سے 2035 کے درمیان پانچ راکٹ لانچز کے ذریعے بیس کے مختلف حصے چاند تک پہنچائے جائیں گے۔ چینی خلائی حکام کا کہنا ہے کہ مکمل اسٹیشن مستقبل میں مریخ مشنز کے لیے بھی معاون ہو سکتا ہے اور اسے شمسی اور نیوکلئیر توانائی سے چلایا جائے گا۔ اس میں چاند اور زمین کے درمیان تیز رفتار مواصلاتی نظام، خودکار گاڑیاں اور انسانی روورز بھی شامل ہوں گے۔
یہ معاہدہ عالمی خلائی قیادت میں تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ چین جس نے 2013 میں اپنا پہلا روور چاند پر اتارا تھا اب تک چاند اور مریخ دونوں پر کافی تحقیق کر چکا ہے۔ دوسری جانب ناسا کا آرٹیمس پروگرام جسے خلائی تحقیق میں اگلا بڑا قدم قرار دیا گیا تھا بار بار تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ آرٹیمس III جو امریکی خلابازوں کی چاند پر 50 سال بعد پہلی لینڈنگ ہوگی اب کم از کم 2027 سے پہلے متوقع نہیں۔ جبکہ امریکہ کی گیٹ وے لونر اسٹیشن کی منسوخی کی تجویز طویل المدتی امریکی قمری منصوبوں پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے مطابق جائے گا چاند پر گا اور اور اس
پڑھیں:
کوٹری،صنعتی فیکٹریاں کو ٹریٹمنٹ پلانٹ فعال کرنیکی ہدایت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) کوٹری صنعتی فضلے کی بغیر ٹریٹ کیے کے بی فیڈر نہر میں اخراج پر ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ ریجن کی کارروائی محکمہ ماحولیات کے ایڈوائزر ٹو سی ایم دوست محمد راہموں اور ڈی جی سیپا کا نوٹس ادارہ تحفظ ماحولیات حیدر آباد انچارج عمران علی عباسی کی جانب سے اپنی ٹیم کے ہمراہ ایفلینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ کیا، پلانٹ کے غیر فعال اور کے بی فیڈر نہر میں گنداپانی اخراج ہونے والے پانی کے سیمپل لیتے ہوئے ان کو ٹیسٹ کے لئے لیب بھیج دیئے گئے کوٹری انڈسٹری اینڈ ٹریڈ ایسو سی ایشن کے صنعت کاروں سے ملاقات بھی کی ادارہ تحفظ ماحولیات کے عمران علی عباسی نے بغیر ٹریٹ کئے پانی کے اخراج پر باز پرس کی صنعت کار خلیل بلوچ،میاں توقیر طارق،ملک اقبال سمیت دیگر کا کہنا تھا کہ پلانٹ محکمہ سائٹ اور کاٹی ففٹی ففٹی کے اخراجات پر چلا رہی تھی مگر محکمہ سائٹ کی جانب سے پلانٹ کی مد میں طے شدہ رقم نہیں دیئے جانے پر کاٹی کے 6کروڑ روپے محکمہ سائٹ پر بقایا ہو گئے جس پر ہم نے پلانٹ محکمہ سائٹ کو واپس کر دیا ہے ماحولیات حیدرآباد ریجنل انچارج عمران علی عباسی نے تمام صنعتی زون کی فیکٹریوں کو پابند کرتے ہوئے فیکٹریوں میں نصب ٹریٹمنٹ پلانٹ کو فعال کرنے اور صنعتی فضلہ ٹریٹ کر کے اخراج کرنے پر پابند کر دیا ٹریٹمنٹ پلانٹ گزشتہ دو ماہ سے غیر فعال ہونے پر فیکٹریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں نصب پلانٹ کو فعال کریں تا کہ صنعتی فضلہ ٹریٹ کر کے نہر میں اخراج کیا جائے کے بی فیڈر کا پانی کینجھر جھیل میں نکاس کیا جاتا ہے جہاں سے کراچی کے مکینوں کو سپلائی کیا جاتا ہے بغیر ٹریٹ کئے پانی اخراج کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی جس کے لئے ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں جو فیکٹریوں کو چیک کریں گی۔