پاکستان متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے کمرشل بینکوں سے بیرونی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے 35 کروڑ ڈالر تک کے قرضے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بینکنگ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ان بینکوں سے پاکستان کے قرضے دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں، اور قرضے کی حتمی منظوری بہت جلد متوقع ہے۔موجودہ مالی سال کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں حکومت کو غیر ملکی قرض دہندگان (جن میں زیادہ تر اماراتی بینک شامل ہیں) سے تقریباً 50 کروڑ 40 لاکھ ڈالر موصول ہوئے، جو پچھلے سال پاکستان کی مالی اعانت سے دور رہنے والے تجارتی بینکوں کی جانب سے معمولی بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔حکومت نے اس مالی سال کے لیے غیر ملکی بینکوں سے 3.

8 ارب ڈالر کی مالی اعانت کا ہدف مقرر کیا ہے، تاہم پہلے 9 ماہ میں اصل وصولی سست رہی ہے۔حکومت نے مالی سال 2025 کے لیے ایک ارب ڈالر کے بین الاقوامی بانڈز کے اجرا کا بھی ہدف رکھا ہے، اس کے علاوہ، دو طرفہ شراکت داروں (چین اور سعودی عرب) سے 9 ارب ڈالر کی آمد کا تخمینہ لگایا گیا ہے، ان تخمینوں میں سعودی عرب سے 5 ارب ڈالر کا ٹائم ڈپازٹ اور چین سے 4 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ شامل ہے، یہ تخمینے پاکستان کے لیے بیرونی مالیاتی خسارہ پورا کرنے میں اہم ہیں، جو کہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہیں۔وزارت خزانہ نے پیر کو بتایا کہ اس نے پاکستان کے ترقیاتی اور مالیاتی اہداف کے لیے تعاون کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے 3 بینکوں شارجہ اسلامک بینک، ابوظبی اسلامک بینک اور عجمان بینک کے ساتھ ورچوئل ملاقاتیں کی ہیں، ان مذاکرات کی قیادت وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کی اور انہوں نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی ٹیم سے بھی بات چیت کی۔وزیر خزانہ نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور دبئی اسلامک بینک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے شارجہ اسلامک بینک اور عجمان بینک کے ساتھ ممکنہ شراکت داروں کے طور پر ان ملاقاتوں کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا، 35 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ضمانت ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) فراہم کرے گا، وزیر خزانہ نے وزارت خزانہ کی حمایت اور تعاون کے لیے اے ڈی بی کی تعریف بھی کی۔انہوں نے یو اے ای کے بینکوں کی انتظامیہ کو پاکستان کی میکرو اکنامک استحکام کی جانب مسلسل پیش رفت سے آگاہ کیا اور کہا کہ ملک نے کافی ترقی کی ہے اور مالی سال 2025 کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ اور پرائمری سرپلس کے ساتھ ساتھ تقریباً 14 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر حاصل کرنے کے راستے پر ہے، جو 3 مہینے کی درآمدات کے لیے کافی ہیں، انہوں نے کہا کہ مہنگائی 0.3 فیصد تک کم ہو گئی ہے اور پالیسی ریٹ بھی نمایاں طور پر کم ہوا ہے، جو مثبت معاشی منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔وزیر خزانہ نے غیر ملکی بینکوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ ساختی اصلاحات ہی اس بحالی کی بنیاد ہیں اور کہا کہ حکومت طویل مدتی اصلاحات کے لیے پرعزم ہے جن میں سرکاری اداروں کی بحالی، فعال نجکاری پروگرام اور وفاقی حکومت کا مناسب حجم شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پرانے عروج و زوال کے چکر سے خود کو آزاد کر لیا ہے، یہ مشکل لیکن ضروری اصلاحات موجودہ استحکام کی حمایت کرتی ہیں اور ہم اسی راستے پر موجود ہیں۔آمدنی کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان جون تک جی ڈی پی سے ٹیکس کے تناسب کو 10.6 فیصد تک پہنچانے کے قریب ہے اور اگلے مالی سال کے لیے اس کا ہدف 11 فیصد ہے، حکومت وفاقی بورڈ آف ریونیو کی اصلاحات اور مکمل ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دے رہی ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کی جا سکے اور ٹیکس کی ادائیگی میں بہتری آئے۔انہوں نے مزید کہا کہ جاری پیش رفت کو آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ کی سہولت کے تحت دوسری قسط کی منظوری اور نئے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فنڈ کے تحت 1.3 ارب ڈالر کی منظوری کا تعاون حاصل ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت تمام مقداری اہداف پورے کر لیے ہیں اور کلیدی ساختی سنگ میل بھی حاصل کیے ہیں، جن میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ شامل ہے، جو ملک کی مالیاتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حالیہ کریڈٹ ریٹنگ میں فچ کی جانب سے بہتری مارکیٹ کے اعتماد کی عکاس ہے۔مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے محمد اورنگزیب نے پاکستان کے پیداواری اور برآمدی نمو والے ماڈل کی طرف منتقلی کا وعدہ کیا اور آئی ٹی سیکٹر میں مضبوط ترقی کی نشاندہی کی، جہاں مارچ میں برآمدات 3.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں بھی رفتار برقرار ہے۔انہوں نے کہا کہ ریکو ڈک منصوبے نے پاکستان کی کان کنی کی صلاحیت میں دلچسپی کو بڑھایا ہے اور حکومت تانبے کے ذخائر کو برآمدات اور توانائی کے منتقلی کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اسلامک بینک پاکستان کے پاکستان کی نے پاکستان بینکوں سے نے کہا کہ مالی سال ارب ڈالر انہوں نے کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-2

 

پاکستان کے لیے یہ خبر کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 23 آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے مطابق ان بلاکس کا مجموعی رقبہ 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ پیش رفت انرجی سیکورٹی اور مقامی وسائل کی ترقی میں ایک بڑی کامیابی ہے، جو پاکستان کی توانائی خودکفالت کے سفر میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی بڑی اور تجربہ کار کمپنیاں شامل ہیں، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، پرائم انرجی، اور فاطمہ پٹرولیم، جنہوں نے مقامی سطح پر اپنی تکنیکی صلاحیت اور مالی ساکھ کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ترکیہ پٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی اور اورینٹ پٹرولیم جیسے بین الاقوامی اداروں کی شمولیت اس منصوبے کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ یہ اشتراک پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر میں غیر ملکی اعتماد کی بحالی اور اس کے پوٹینشل کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کی جانب سے حالیہ بیسن اسٹڈی میں پاکستان کے سمندر میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا گیا ہے، جو اگر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات خود پوری کر سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر ہی حکومت نے ’’آف شور راؤنڈ 2025‘‘ کا آغاز کیا، جو شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے اشارے بھی اس پیش رفت کی بنیاد بنے۔ 2024 میں ڈان نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے ایک دوست ملک کے تعاون سے تین سالہ سمندری سروے مکمل کیا ہے، جس سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے مقام اور حجم کی نشاندہی ہوئی۔ اسی طرح 2025 میں نیوی کے ریئر ایڈمرل (ر) فواد امین بیگ نے چین کی مدد سے سمندر کی تہہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی تصدیق کی، جس سے پاکستان کے سمندری وسائل کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ یہ تمام شواہد اور اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس توانائی کے میدان میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بدقسمتی سے ماضی میں کئی بار ایسے مواقع سیاسی عدم استحکام، پالیسی کے فقدان، اور تکنیکی کمزوریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • یو اے ای میں پرچم کی توہین پر سخت سزا اور جرمانے کا اعلان
  • بھارتی ویمنز ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا، جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو کتنی انعامی رقم ملی؟
  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • پاکستان کو ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کی منظوری متوقع
  • ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط؛  آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آئندہ ماہ ہوگا
  • مہمند ڈیم منصوبے: پاکستان اور کویت کے درمیان 2.5 کروڑ ڈالر کے قرض معاہدے پر دستخط
  • کراچی میں حوالہ ہنڈی کیخلاف کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ڈالر برآمد