اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر  سے ملنا کافی ہے۔

نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کی سماعت ہے، جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں بنچ سماعت کررہا ہے،دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں،تسلیم شدہ حقائق پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں،دونوں کے درمیان ایک ساتھ رہنے کا رشتہ تھا جو یورپ میں ہوتا ہے یہاں نہیں،لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے،اس قسم کا رشتہ مذہب اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے،نور مقدم خود اس گھر میں آئی تھی کیا اس سے اغوا کی سزا کم نہیں ہوتی؟سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر  سے ملنا کافی ہے،جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ کیا نور مقدم کا موبائل فون ریکور کیاگیا؟شاہ خاور نے کہاکہ کال ریکارڈ موجود ہے لیکن موبائل فون تحویل میں نہیں لیاگیا۔

بلاول بھٹو زرداری کی نااہلی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

ڈنمارک سپریم کورٹ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی جج، مسٹر جسٹس محمد احسن کی کہانی تو آدھے ادھورے کالم میں سمیٹی جاسکتی تھی کہ وہ بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ڈنمارک سپریم کورٹ کی داستان، کوشش کے باوجود ، دو کالموں کے کوزے میں بند نہیں کی جاسکتی۔ میں ججوں کے انتخاب اور عدالت کے طریقِ سماعت کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ آج چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر کے دلچسپ نظام کی بات کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تعینات ہو نے والا ہر جج ستّر سال کی عمر تک اپنے منصب پر برقرار رہتا ہے۔ چیف جسٹس کو وہاں صدر (President) کہا جاتا ہے۔ صدرِ سپریم کورٹ یعنی چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر میں حکومت، کسی اعلی عہدیدار، ادارے، حتٰی کہ بادشاہ کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 1861؁ میں ایک روایت قائم ہوئی جسے 1915؁ میں ایک واضح اور متعین شکل دے دی گئی۔ چیف جسٹس کے ستّر سال کی عمر تک پہنچنے، یعنی اُس کی ریٹائرمنٹ سے تین چار ماہ قبل اٹھارہ رُکنی سپریم کورٹ کے سترہ جج صاحبان میں نئے چیف جسٹس کے انتخاب پر مشاورت شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طورپر تین چار سینئر جج صاحبان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہر جج اپنی رائے مرتب کرتا ہے۔ فیصلہ اتفاق رائے سے نہ ہو تو کثرت رائے سے ہوجاتا ہے۔ سو جج صاحبان خود اپنا چیف جسٹس چُن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا سب سے سینئر ہونا ضروری نہیں۔ اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس خدمات سرانجام دینے کے لئے معقول وقت پڑا ہو۔ چُنے گئے چیف جسٹس کا نام رسمی طورپر وزارتِ انصاف کو بھجوا دیاجاتا ہے جو ’دربارِ شاہی‘ کو ارسال کردیتی ہے اور شاہ اس کی تقرری کا فرمان جاری کردیتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ ازخود، عوامی آگاہی کے لئے، اُسی دن نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کردیتی ہے، جس دِن یہ نام وزارتِ انصاف کو بھیجا جاتا ہے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی بھی سطح پر جج صاحبان کے فیصلے سے انحراف کیاگیا ہو۔ ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ اختلاف کرنے والے جج صاحبان اپنے سامنے والی شاہرہ پر کوئی دھوبی گھاٹ بنائیں، اپنی داغدار عبائیں دھوئیں اور سوکھنے کے لئے سپریم کورٹ کی دیواروں پر ٹانگ دیں۔ مجھے کسی ایسے وقوعے کا سراغ بھی نہیں ملا کہ آئینی وقانونی نکات کی تشریح وتوضیح کے بجائے وہ ایک دوسرے کے چہرے مسخ کرنے کے لئے، کسی ذاتی زخم یا پرخاش کی بنا پر، لُغتِ کوچہ وبازار سے ’دشنام تلاشی‘ کریں اور باہمی خط وکتابت کا سلسلہ شروع کردیں۔ ایسا ہوا ہوتا تو 1661؁ سے آج تک 364 سالوں میں ’’مکتوباتِ منصفانِ ڈنمارک‘‘ کی کئی ضخیم جلدیں منظر عام پر آ چکی ہوتیں۔ ’ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کی رپورٹ کے مطابق، سکنڈے نیویا کے چار ممالک ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے حوالے سے پہلا اسلامی ملک ’’متحدہ عرب امارات‘‘ ہے، جو 39 ویں نمبر پہ آتا ہے۔ پاکستان، انتہائی فعال، متحرک اور آتش مزاج عدلیہ رکھنے کے باوجود 129 ویں نمبر پر ہے۔ مجھے تو یہ ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کی سازش لگتی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قازقستان، انڈونیشیا، تیونس، ازبکستان، الجیریا، مراکش، لبنان، ترکی، نائیجیریا، بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک کا گراف ہم سے بہتر ہو۔ ممکن ہو تو خطوط نویسی پر کامل دسترس رکھنے والے کسی جج کو ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کے نام بھی ایک بارُود پاش مکتوب لکھنا چاہیے۔ نہایت ہی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ڈنمارک کے جج صاحبان میں سے کسی نے ’رفاۂِ عامہ‘ کے حوالے سے عدل وانصاف کی ایسی درخشاں مثال قائم نہیں کی کہ کئی کئی منزلہ رہائشی ٹاور زمیں بوس کرا دیے ہوں، پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ڈیمز تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھالیا ہو، ایک پروان چڑھتے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہو، شہر میں ٹرام چلانے کے لئے ہلکان ہو رہا ہو یا کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائیٹی کے معاملات میں رخنہ اندازی کی ہو۔ ڈنمارک عدالت کی کمزوری اور بے چارگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی وزیراعظم کو پھانسی چڑھانا یا منصب سے ہٹانا تو بہت دور کی بات ہے، اُسے عدالت میں طلب تک نہیں کرسکی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ قانون کی کیسی حکمرانی ہے جس نے ڈنمارک کو سب سے اونچی مسند پر بٹھا دیا ہے؟ میرے ایک سوال پر جسٹس محمد احسن نے بتایا کہ وہ آخری بار 2015؁ میں اپنے والد کی میّت لے کر پاکستان آئے تھے۔ رحمت خان نے اپنے خاندان کی فصل کو ڈنمارک کی کھیتی میں پروان چڑھتے دیکھا لیکن زندگی کے آخری لمحات میں وصیّت کی کہ مجھے کوپن ہیگن میں نہیں، میرے گائوں دھنّی میں دفن کرنا۔ جسٹس صاحب کو اپنے وطن آئے اب دس برس ہونے کو ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سپریم کورٹ اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دے۔ اُن کی عزت افزائی کے لئے تقریبات کا اہتمام کرے۔ انہیں سمجھائے کہ حقیقی اور بے لاگ انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ اُنہیں بتائے کہ دورِ حاضر کے روشن خیال اور تَر دماغ جج صاحبان فیصلے ہی نہیں، خطوط بھی لکھتے ہیں تاکہ ججوں کا باہمی دوستانہ رشتہ مضبوط رہے۔ یہ بھی گوش گزار کیاجائے کہ سائیکلوں یا بسوں پہ عدالت جانا، عدالتی عظمت ووقار کی توہین ہے۔ دبے لفظوں میں یہ بھی بتادینا چاہیے کہ تنخواہ سے پچاس فی صد ٹیکس کٹوا دینا کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اگر چیف جسٹس کی صرف پنشن ہی 23 لاکھ 90 ہزار روپے ہے تو آپ لوگوں کو بھی اپنی معیشت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بھی کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ڈنمارک کی سپریم کورٹ کا سارا عملہ صرف 60 افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں تو اتنے اہلکار ایک جج کو میّسر ہیں۔ کسی اپیل کا فیصلہ صرف سات دنوں میں کردینا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ اس سے زیرِالتوا مقدمات کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے باہر سائلوں کی میلوں لمبی قطاریں نہ لگی ہوں اور عدالت کے تہہ خانے ہزاروں زیرالتوا مقدمات کی فائلوں سے نہ بھرے ہوں تو عدالت کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ اور یہ تو انتہائی معیوب حرکت ہے کہ جج کے پاس کوئی ذاتی حاجب یا نائب قاصد تک نہ ہو اور وہ اپنے لئے چائے بھی خود بنا کر لائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ڈنمارک کی عدالت ’’ریاست‘‘ کے دوسرے دو ستونوں، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنا کھلا دشمن خیال کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں نیزے کی نوک پر رکھے اور اُن کے اقدامات کو گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہ دیا کرے۔ مناسب ہوگا کہ معزز مہمان کے لئے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں عالی مرتبت ریٹائرڈ جج صاحبان، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن کو خاص طورپر مدعو کیاجائے تاکہ وہ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے موضوع پر دانش وحکمت کے موتی بکھیریں۔ ان ساری تقریبات میں اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ جسٹس محمد احسن کو بولنے کا موقع نہ دیاجائے۔ مبادا وہ کوئی ایسا وائرس نہ چھوڑ جائیں جو ہماری صاف شفاف عدالتی فضا میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے اور ہماری عدلیہ بھی ڈنمارک کی عدلیہ جیسی ہوجائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم محض’ ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کا زینہ چڑھنے کے شوق میں ڈنمارک کی 364 سالہ روایات کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی اٹھہتر سالہ درخشاں روایات کو بھی خاک میں ملا دیں۔

٭٭٭٭٭

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • جسٹس طارق جہانگیری کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ حصول کی درخواست دائر
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
  • سپریم کورٹ: تہرے قتل کے مجرم اورنگزیب کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم سجاد کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ، قتل کے مجرم ناظم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ