اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر  سے ملنا کافی ہے۔

نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کی سماعت ہے، جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں بنچ سماعت کررہا ہے،دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں،تسلیم شدہ حقائق پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں،دونوں کے درمیان ایک ساتھ رہنے کا رشتہ تھا جو یورپ میں ہوتا ہے یہاں نہیں،لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے،اس قسم کا رشتہ مذہب اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے،نور مقدم خود اس گھر میں آئی تھی کیا اس سے اغوا کی سزا کم نہیں ہوتی؟سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر  سے ملنا کافی ہے،جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ کیا نور مقدم کا موبائل فون ریکور کیاگیا؟شاہ خاور نے کہاکہ کال ریکارڈ موجود ہے لیکن موبائل فون تحویل میں نہیں لیاگیا۔

بلاول بھٹو زرداری کی نااہلی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

‘ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی’، سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل دیے۔

جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق ٹرانسفر شدہ ججز کی سنیارٹی کس نے طے کرنی تھی؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ سنیارٹی کا تعین اس وقف کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کرنا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس معاملے پر ایگزیکٹو کا ساتھ دیا۔

یہ بھی پڑھیے: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ متفق ہوں یا اختلاف کریں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیپارٹمنٹل ریپریزنٹیشن پر فیصلہ دیا تھا۔

حامد خان نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت ٹرانسفر شدہ ججز کو آفس سنبھالنے سے قبل حلف لینا تھا، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ججز کے ٹرانسفرز کی کچھ شرائط ہیں، چیف جسٹس پاکستان کے پاس اس حوالے سے لامحدود اختیارات نہیں، پریکٹس پروسیجر ایکٹ لاگو ہونے کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات تین رکنی ججز کمیٹی کو تحلیل ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو ٹرانسفر کے معاملے پر رائے دینے سے قبل دو سینیئر ججز سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، ہائیکورٹس سے ججز کے ٹرانسفر پر بہت سارے نکات پر غور ہونا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلہ میں غیر معمولی جلد بازی دکھائی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ انڈیا میں ججز کے ٹرانسفر میں جج کی رضا مندی نہیں لی جاتی، چیف جسٹس سے مشاورت کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جج پر ٹرانسفر پر رضامندی آئینی تقاضا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کا یونیفائیڈ کیڈر ہے، پاکستان میں ہائیکورٹس ججز کی سنیارٹی کا یونیفائیڈ کیڈر نہیں ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کی سنیارٹی لسٹ ایک ہی ہے، ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم درخواست دائر

حامد خان کا کہنا تھا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ نے سنیارٹی کا اصول طے کیا تھا، اس وقت جوڈیشل کمیشن نہیں تھا، ججز کی تقرری چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس ہائیکورٹس ایکزیکٹیو کے ساتھ مل کرتے تھے، ایگزیکٹو اس دوران ججز تعیناتی کے معاملے میں من مانی کرنے لگی۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس میں جسٹس اجمل میاں نے طے کیا کہ چیف جسٹس کے ساتھ بامعنی مشاورت ہونی چاہیے، موجودہ کیس میں بامعنی مشاورت نہیں کی گئی، ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بامعنی مشاورت ہی نہیں کی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے جواب دیا کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں مشاورت نہیں بلکہ رضا مندی لینے کی بات کی گئی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ اصل مقصد جسٹس سرفراز ڈوگر کو لانا تھا، باقی دو ججز کا ٹرانسفر تو محض دکھاوے کے لیے کیا گیا، آرٹیکل 200 کا استعمال اختیارات کے غلط استعمال کے لئے کیا گیا۔

اس موقع پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کی معیاد کا نوٹیفکیشن میں ذکر نہیں ہے، ججز کو ٹرانسفر کر کے پہلے سے موجود ہائیکورٹ میں ججز  کے مابین تفریق پیدا نہیں کی جا سکتی، ججز کے مابین الگ الگ برتاؤ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ: نئے ججز کا اضافہ، سنیارٹی لسٹ جاری

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں آرٹیکل 25 کو سامنے رکھا جائے، اگر ججز کا ٹرانسفر 2 سال کے لیے ہوتا تو کیا آپ اس پر مطمئن ہوتے، اصل سوال سینیارٹی کا ہے۔

کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • 9 مئی ایف آئی آرز کا معاملہ، سپریم کورٹ نے فواد چودھری کا کیس دوبارہ ہائیکورٹ بھجوا دیا
  • سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا، مجرم ظاہر جعفر کے خلاف قتل کی دفعات برقرار، مالی اور چوکیدار رہا
  • سزائے موت برقرار: سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر فیصلہ سنا دیا
  • نور مقدم کیس: مجرم ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
  • مقتولہ نور مقدم، مجرم کے درمیان ساتھ رہنے کا رشتہ تھا جو یورپ میں ہوتا ہے، یہاں نہیں، جج سپریم کورٹ
  • ‘ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی’، سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت
  • نور مقدم کیس، مجرم کی میڈیکل ہسٹری پیش، سپریم کورٹ کا آج ہی فیصلہ سنانے کا عندیہ
  • نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا آج ہی فریقین کو سن کر فیصلہ سنانے کا عندیہ
  • سپریم کورٹ ؛نورمقدم کیس کی سماعت میں دوپہر ایک بجے تک وقفہ ،عدالت کا آج ہی فریقین کو سن کر فیصلہ کرنے کا عندیہ