بری خبر ، بیرون ملک نوکریاں ملنا بند ہو گئیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
بھارت کے گڑگاؤں کے معروف کاروباری شخصیت راجیش ساونی نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھنے والے بھارتی طلباء اور ان کے والدین کو ایک سخت وارننگ دی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے ملازمت کے مواقع تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور ان ممالک کے امیگریشن قوانین اب پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہو چکے ہیں۔
راجیش ساونی جو جی ایس ایف ایکسیلیریٹر کے بانی اور سی ای او ہیں، خود ہارورڈ بزنس اسکول اور لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا: امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ ہنی مون ختم ہو چکا ہے، والدین کو مہنگی تعلیم پر کروڑوں خرچ کرنے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیے۔“
انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے طلباء، خاص کر آئی آئی ٹی سے فارغ التحصیل طلباء کے بارے میں کہا کہ پہلے ان کے لیے ایک ”آسان ہیک“ تھا امریکہ جا کر ماسٹرز کرنا اور فوری طور پر 2 لاکھ ڈالر کی نوکری حاصل کرنا لیکن اب یہ طریقہ کار مزید کارگر نہیں رہا۔
ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گیا اور صارفین کی بڑی تعداد نے اس پر تبصرے کیے۔ ایک صارف نے لکھا: ”سچ ہے! میں 2017 میں وہاں تھا، لوگ تعلیم کے پہلے کوارٹر میں ہی ڈیدھ لاکھ ڈالر کی آفر حاصل کر رہے تھے۔ اب وہی شخص گوگل میں ہے اور خوفزدہ ہے کہ کہیں نوکری نہ چلی جائے!“
ایک اور صارف نے اُمید افزا رویہ اپناتے ہوئے کہا: ”میں ان انجینئرز کے لیے زیادہ پر امید ہوں جو واپس بھارت آئیں گے اور اربوں ڈالر کی اسٹارٹ اپ کمپنیاں بنائیں گے۔ سوچیں ان تمام YC اسٹارٹ اپس کا جو بھارتی ہیں اور بھارت سے دنیا کے لیے بنا رہے ہیں یہ واقعی لیجنڈری ہو گا!“
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
سوما، ہوما اورشوما (پہلا حصہ)
اس دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو غلط ہے لیکن وہ اس تسلسل سے دہرایا گیا ہے ، دہرایا جارہا ہے کہ اسے صحیح سمجھ لیا گیا ہے، خاص طورپر وہ چیزیں جو دانا دانشوروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں کیوں کہ ہردانا دانشور کی بیماری صرف یہ نہیں ہوتی کہ وہ خود کو دانا دانشور (غلط) سمجھ لیتا ہے بلکہ اپنے ساتھ اوربھی بہت کچھ غلط کردیتا ہے کیوں کہ دانا دانشوروں کی جدی پشتی اورمجموعی بیماری یہ بھی ہے کہ دوردور کی کوڑیاں لاکر زمین وآسمان کے قلابے ملا کر خود کو ممتاز منفرد اوربلند وبالا بنا لیا جائے ۔
ایسی ہی ایک چیز ’’سوما‘‘یا ’’ہوما‘‘ بھی ہے جس کا ہندیوں اورایرانیوں کے مذہبی نوشتوں میں بہت زیادہ ذکرکیاگیا ہے ۔ان نوشتوں کے مطابق سوما یا ہوما یا ہوم سوم ایک بوٹی تھی جس کا’’رس‘‘ دیوتاؤں کو بہت مرغوب تھا،ہندی نوشتوں میں تو باقاعدہ ایک پورا وید ’’ سام وید‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں اس سوم رس کی فضیلت فوائد اوررسومات کاذکر ہے۔
ایرانی نوشتوں میں اوویستا کے مشہورباب وند ندد یا ودیودات میں زردشت اور آہورمزدا کاایک مکالمہ درج ہے کہ زردشت نے آہورمزدا سے پوچھا کہ مجھ سے پہلے بھی کوئی اورمقرب بندہ گزرا ہے تو آہورمزدا نے کہا، ہاں تجھ سے پہلے میرا ایک مقرب بندہ ’’یما‘‘ (جمشید) گزرا ہے اس کے باپ ’’وی ولگانا‘‘ نے ہوما کا رس ایجاد کیا تھا یا نکالا تھا، اس کے بدلے میں اسے میں نے ’’یما‘‘جیسا ہونہار بیٹا عطاکیاتھا۔یہ یما یا یم بعد میں جم اورجمشید کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔
ایرانیوں اورہندیوں میں ہجے کا یہ فرق ہے جو لفظ ہندی یا سنسکرت میں (س) سے لکھا اوربولا جاتا ہے وہ فارسی میں (ہ) سے ہوجاتا ہے جیسے ، سند وہند۔ دیس اوردیہیہ ، ماس وماہ ، سیت ، ہیت ، دس، دہ ، کس ،کوہ ، چنانچہ سوما اورہوما میں بھی یہ فرق ہے۔ ایک عجیب اورناقابل یقین بات ہے کہ اس ہوما یا سوما کاذکر اذکار افسانے کہانیاں فوائد رسومات سب کچھ تو موجود ہیں لیکن اس کی پہچان یا شناخت کھوگئی ہے ۔چنانچہ ہندیوں ایرانیوں (زرتشتی) ساتھ ہی مشترقین اورخاص طورپر ’’پشتو‘‘ میں اس پر لمبے مضامین اورمقالے لکھے جاتے رہے ہیں کہ سوما یا ہوما کاپودا یا بوٹی کیا تھا یا کیا ہے، کسی نے کچھ کہا ہے کسی نے کچھ۔ سب سے پہلے ’’دیانند سرسوتی‘‘ نے رگ وید کی تفسیر میں لکھا ہے ۔
سوما ایک ایسا پودا جو چاند کی پہلی رات کو اگتا ہے پھر ہررات اس میں ایک ایک پتا نکلتاہے، چودہ دن میں چودہ پتے نکل آتے ہیں ۔پھر پندرہویں رات سے اس کاایک ایک پتا گرنے یاجھڑنے لگتا ہے اور چاند کے ساتھ یہ پودا بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ پورن ماشی یعنی چودہویں رات کو کنواری لڑکیاں چاندی کی درانتی سے اس کی کٹائی کرتی ہیں پھر ایسی رتھوں یا گاڑیوں میں اسے لایاجاتا ہے جنھیں دنبے کھینچتے ہیں پھر اسے ایک خاص چپٹے پتھر پر جسے ’’گراؤن ‘‘ کہا جاتا ہے کوٹا پیسا جاتا ہے ،رس نکال کر اس میں دودھ اورشہد ملایاجاتا ہے، پہلے آگ میں ڈال کر دیوتاؤں کو پیش کیاجاتا ہے پھر لوگ پیتے ہیں یہ رس درازی عمر دائمی شباب اورطاقت کے لیے اکسیر ہے ۔
اب عقیدتوں میں عقل اورحقیقتوں کو نظر انداز کیاجاتا ہے ورنہ دنیا کی تاریخ میں نہ کبھی ایسا پودا تھا نہ ہوا ہے نہ ممکن ہے جوخود بخود چاند کے ساتھ اگتا ہے اورختم ہوتا ہے، نہ اس کے بیج کاذکر ہے نہ یہ کہ کاشت کیاجاتا ہے یاخود روہے البتہ ایرانی نوشتے اوویستا میں لکھا ہے کہ اس کابیج ایک الوہی پرندہ جنت سے لایا تھا اوراس نے وہ بیج پہاڑوں پر بکھیرا تھا ۔
ہمارے پشتو والے بھی کسی سے کم نہیں چنانچہ چالیس پچاس سال پہلے اس پودے سوما یاہوما پر بہت سارے لوگوں نے بے شمار گھوڑے دوڑائے تھے جو مولانا عبدالقادر کے وقت کے سہ ماہی مجلے میں چھپے تھے ،ایک صاحب نے زوردار دلائل سے ثابت کیاتھا کہ یہ سوما دراصل ’’سوات‘‘ کی ایک گھاس ’’بررہ‘‘ ہے، دوسرے نے خیبر میں اگنے والی ایک ’’اومہ‘‘ کی نشاندہی کی تھی ،باٹنی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر قزلباش نے اسے ’’ایفیڈرا‘‘ خاندان کاایک پودا بتایاتھا ۔ ان دنوں پشاورمیں ہالینڈ کاایک مشنری تھا ’’انولڈسن‘‘ انھوں نے یہاںبہت وقت گزارا تھا اورپشتو بولنا لکھنا اور پڑھنا سیکھا تھا ، انھوں نے ایک چھوٹا کتابچہ لکھا تھا جو پشتو انگریزی دونوں زبانوں میں چھپا تھا ، کتابچے کا عنوان ہی ایک مشہورپشتو ٹپے پر مبنی تھا
سپوگمی کڑنگ وھہ راخیجہ
یارمے دہ گلو لو کوی گتے ریبنہ
ترجمہ:اے چاند چمک کرنکل آ
میرامحبوب پھولوں کی کٹائی میں انگلیاں کاٹ رہا ہے
اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس میں سوما کی کٹائی کی طرف اشارہ ہے جو چاند رات کو ہوتی تھی۔ لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہیں تھی کہ اس میں تو پھولوں کی کٹائی کہاگیا جب کہ سوما میں پھول تو ہوتے ہی نہیںتھے ، پتے ہی پتے ہوتے تھے اوربقول دیانند سرسوتی سوما کی کٹائی کنواری لڑکیاں کرتی تھیں، مرد نہیں اورٹپے میں کوئی لڑکی چاند سے نکلنے کی درخواست کررہی ہے کہ اس کامحبوب انگلیاں زخمی نہ کرے ۔
دراصل اس قصے میں رومانویت اس لیے بھردی گئی ہے کہ سام یاسوم ہندی دھرم کے مطابق ’’چاند دیوتا‘‘ ہے اوراسی کے نام پر اس کا نام سوم یاسام ہے ۔
(جاری ہے)