اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا،عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی،سپریم کورٹ نے بنچ کی تشکیل پر اعتراضات کی درخواستیں مسترد کردیں۔

نجی ٹی وی چینل جیونیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی،12جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان کے سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات پر دلائل مکمل  ہو گئے۔

 محافظ ہی لٹیرے بن گئے ؟کراچی میں وردی پوش اہلکاروں کا چھاپہ، شہری کے گھر سے کروڑوں روپے کی ڈکیتی

 وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ آرٹیکل 191اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے بنچ پر 1980کے رولز اپلائی نہیں ہوتے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980کے کون سے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے،مخدوم علی خان نے کہاکہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980کے رولز مطابقت نہیں رکھتے،نئی آئینی ترمیم میں آئینی بنچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے،1980کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بنچ کیا کرتا تھا، اب 26ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بنچ کرے گا، اس بنچ میں ججز کی تعداد سے متعلق اعتراض کیا، میری نظرمیں یہ 11نہیں 13رکنی بنچ ہے،اس 13رکنی بنچ میں سے 7ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی،اس کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق درخواست دائر کی گئی ،اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں،دوسری درخواست تھی 26ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس  کو ملتوی کیا  جائے،کون سا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کااختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں،درخواست منظور اور سماعت ملتوی ہو تو پھر یہ آئینی بنچ کوئی درخواست نہیں سن سکے گا، پھر یہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کے فیصلے تک کوئی درخواست نہیں سن سکے گا، کل کو دیگر کیسز کی ددرخواست گزار بھی اسی خواہش کااظہار کریں گے۔

شادی کا جنون چنیوٹ کے بزرگ کو کچے کے علاقے میں لے گیا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں سپریم کورٹ

پڑھیں:

فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار صرف غلطیوں کی درستی کیلیے ہے، جسٹس محمد علی مظہر

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے قرار دیا کہ کسی عدالتی فیصلے پر نظرثانی ایک اہم قدم ہے اور یہ اقدام اسی وقت اٹھانا چاہیے جب ریکارڈ پر کسی واضح غلطی، لاپرواہی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے سنگین ناانصافی سامنے آئی ہو۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ایک درخواست کی سماعت کے بعد 7 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ میں کہا کہ اگر فیصلے میں غلطی اتنی نمایاں اور اہم ہو کہ اسے فیصلہ دینے سے پہلے دیکھا جاتا تو نتیجہ مختلف ہوتا تو ایسی صورت میں ہی نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: آئینی بینچ کے رولز نہ بننے پر ججز کمیٹی بظاہر تقسیم کا شکار

آئین سپریم کورٹ کے اپنے سابقہ فیصلوں کا جائزہ لینے پر کوئی پابندی نہیں لگاتا بشرطیکہ شہریوں کے بنیادی حقوق یا عوامی مفاد کے پیش نظر نظرثانی درخواست ضروری ہو، عدالت بغیر کسی رسمی درخواست کے اپنے فیصلے کا ازخود جائزہ لینے کی مجاز ہے۔

یہ اختیار فریقین کے لیے مقدمہ دوبارہ کھولنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ واضح اور نتیجہ خیز غلطیوں کو درست کرنے کے لیے ہے۔

قبل ازیں جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججوں کے بینچ نے نظرثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے غیر ضروری درخواستوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں سنی اتحاد کونسل کے بینچ پر تینوں اعتراضات مسترد کردیے
  • مخصوص نشستوں سے متعلق کیس: سپریم کورٹ نے بینچ سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات مسترد کردیے
  • مخصوص نشستوں کا کیس: سنی اتحاد کونسل کا اعتراض مسترد، 11 رکنی آئینی بنچ برقرار
  • سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کو براہ راست نشر کرنے کی اجازت دیدی
  • مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا حکم، سپریم کورٹ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات مسترد کردیے
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی
  • سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث
  • مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کو براہ راست نشر کرنے کی استدعا
  • فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار صرف غلطیوں کی درستی کیلیے ہے، جسٹس محمد علی مظہر