مچھروں کو ملیریا سے بچانے کے لیے دوا ڈھونڈ لی گئی، آپ بھی چکرا گئے نا!
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
امریکی محققین کا کہنا ہے کہ مچھروں کو ملیریا کی دوائیں دی جانی چاہییں تاکہ ان کا انفیکشن دور ہوجائے اور وہ مزید بیماری نہ پھیلائیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ملیریا کے اضافہ کا سبب بن گئی
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملیریا کے باعث دنیا میں سال بھر میں تقریباً 6 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن میں زیادہ تر بچے ہوتے ہیں۔ جب مادہ مچھر انسانوں کا کون پیتی ہے تو اس کے ذریعے انسانی جسم میں ملیریا کے پیراسائٹس داخل ہوجاتے ہیں اور انہیں عارضے میں مبتلا کردیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا فی الوقت جو کوششیں ہوتی ہیں ان کا مقصد مچھروں کا ملیریا کا علاج کرنے کے بجائے انہیں کیڑے مار دوا سے مارنا ہوتا ہے۔ لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے 2 دوائیاں ڈھونڈی ہیں جو مچھر کی ٹانگوں کے ذریعے جذب ہوکر اس کو ملیریا سے کامیابی سے نجات دلا سکتی ہیں۔ اس ڈرگ کاک ٹیل سے بیڈ نیٹ کی کوٹنگ کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
بیڈ نیٹ (مچھر دانی) کے نیچے سونا ملیریا سے بچاؤ کا ایک کامیاب ترین طریقہ رہا ہے کیونکہ ملیریا پھیلانے والے مچھر رات کو شکار کرتے ہیں۔
ملیریا کے زیادہ خطرے والے علاقوں میں رہنے والے بچوں کی حفاظت کے لیے ویکسین کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
مزید پڑھیے: ملیریا سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ علامات اور علاج کیا ہے؟
نیٹ ایک رکاوٹ بھی ہے اور اس پر کیڑے مار ادویات بھی ہوتی ہیں جو ان پر بیٹھنے والے مچھروں کو مار دیتی ہیں۔ لیکن مچھر بہت سے ممالک میں کیڑے مار دوا کے خلاف مزاحمت حاصل کرچکے ہیں اس لیے کیمیکل اب کیڑوں کو اتنے مؤثر طریقے سے نہیں مارتے جتنے وہ پہلے مار دیا کرتے تھے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محقق ڈاکٹر الیگزینڈرا پروبسٹ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے مچھر میں موجود پیراسائٹس کو براہ راست مارنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہم صرف مچھر کو مار رہے تھے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اب یہ طریقہ کار زیادہ کارگر نہیں رہا۔
ان محققین نے ملیریا کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا یہ پتا لگایا جاسکے کہ وہ مچھروں کو متاثر کیسے کر رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے ممکنہ دوائیوں کی ایک بڑی لائبریری لے کر اسے 22 تک شارٹ لسٹ کر دیا ہے۔ ان کا تجربہ اس وقت کیا گیا جب مادہ مچھروں کو ملیریا سے آلودہ خون کی خوراک دی گئی۔
سائنسدانوں نے 2 انتہائی مؤثر دوائیں بیان کی ہیں جنہوں نے 100 فیصد طور پر ملیریا کے پیراسائٹس کو مار ڈالا۔
دوائیوں کا بیڈ نیٹ سے ملتے جلتے مٹیریل پر بھی تجربہ کیا گیا۔
ڈاکٹر پروبسٹ نے کہا کہ جب مچھر دانی پر وہ مچھر بیٹھتا ہے تو اس کے ملیریا والے پیراسائٹس مر جاتے ہیں جس سے وہ مچھر ملیریا انسانوں میں منتقل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ واقعی ایک دلچسپ طریقہ ہے کیونکہ یہ مچھروں کو ٹارگٹ کرنے کا بالکل نیا طریقہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ملیریا کے پیراسائٹس کے ان ادویات کے خلاف مزاحم ہوجانے کا امکان کم ہے کیونکہ یہ ہر مچھر میں 5 سے بھی کم ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان ادویات کا اثر جالی (مچھر دانی) پر ایک سال تک رہتا ہے جو ممکنہ طور پر اسے کیڑے مار دوا کا ایک سستا اور دیرپا متبادل بنا دیتا ہے۔
یہ طریقہ لیبارٹری میں ثابت ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی ایتھوپیا میں پہلے سے ہی کر لی گئی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا اینٹی ملیریا بیڈ نیٹ (جالیاں) حقیقی دنیا میں کارآمد ہیں یا نہیں۔
تمام مطالعات مکمل ہونے میں کم از کم 6 سال لگیں گے اس دوران یہ جان لیا جائے گا کہ یہ طریقہ کس قدر کارگر رہتا ہے۔
لیکن خیال یہ ہے کہ بیڈ نیٹ کا علاج ملیریا کی دوائیوں اور کیڑے مار دوائیوں سے کیا جائے تاکہ اگر ایک طریقہ کارگر نہ ہو تو دوسرا کام کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مچھروں کا علاج مچھروں کے لیے دوا مچھروں میں ملیریا کا علاج ملیریا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مچھروں کا علاج مچھروں کے لیے دوا مچھروں میں ملیریا کا علاج ملیریا ملیریا کے ملیریا سے کو ملیریا مچھروں کو کا علاج بیڈ نیٹ کے لیے
پڑھیں:
اسمارٹ فون کی اسٹوریج بچانے کا خفیہ فیچر، جس سے اکثر صارفین ناواقف ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسمارٹ فونز میں روزانہ استعمال ہونے والی ایپس کے ساتھ کئی ایسی ایپس بھی انسٹال ہوتی ہیں جنہیں مہینوں تک کوئی نہیں کھولتا، مگر وہ اسٹوریج کا بڑا حصہ گھیر لیتی ہیں۔
اکثر صارفین انہیں ڈیلیٹ نہیں کرتے کیونکہ کبھی کبھار ان کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جبکہ مسلسل انسٹال اور اَن انسٹال کرنا بھی جھنجھٹ سمجھا جاتا ہے۔
اسی مسئلے کا حل اینڈرائیڈ فونز میں ایک ایسے پوشیدہ فیچر کی صورت میں موجود ہے جس کا بیشتر صارفین کو علم ہی نہیں۔ یہ ہے “ایپ آرکائیو” فیچر، جو ایپس کے غیر ضروری حصے جیسے عارضی فائلز، پرمیشنز اور سافٹ ویئر ڈیٹا کو فون سے ہٹا دیتا ہے، مگر ایپ کو مکمل طور پر حذف نہیں کرتا۔ اس طرح ایپ وقتی طور پر غائب ہو جاتی ہے لیکن فون کی اسٹوریج میں خاطر خواہ جگہ خالی ہو جاتی ہے۔
ایپ آرکائیو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو چند سیکنڈز میں اسی ایپ کو دوبارہ اس کی اصل حالت میں ری اسٹور کیا جا سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ پہلے انسٹال تھی۔ یوں صارفین کو فون فیکٹری ری سیٹ کرنے یا بھاری ایپس کو بار بار انسٹال کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی۔
اینڈرائیڈ فونز میں ایپس کو آرکائیو کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا خودکار طریقہ ہے جو گوگل پلے اسٹور کے ذریعے کام کرتا ہے۔ اس کے لیے صارف پلے اسٹور میں جا کر اوپر موجود پروفائل آئیکون پر کلک کرے، سیٹنگز کھولے، ’جنرل‘ ٹیب میں جا کر “Automatically archive apps” کا آپشن فعال کرے۔ یہ فیچر خود بخود ایسی ایپس کو آرکائیو کر دیتا ہے جو طویل عرصے سے استعمال نہ ہوئی ہوں اور جب فون کی اسٹوریج کم ہونے لگے تو جگہ خالی کر دیتا ہے۔
دوسرا طریقہ دستی ہے جس میں صارف سیٹنگز میں جا کر اپنی پسند کی ایپ منتخب کر کے اسے آرکائیو کر سکتا ہے، تاہم یہ فیچر ہر فون میں دستیاب نہیں ہوتا۔ اگر کسی ایپ کو دوبارہ بحال کرنا ہو تو سیٹنگز میں “Archived apps” میں جا کر ری اسٹور بٹن دبائیں۔ ایپ فوراً دوبارہ انسٹال ہو جائے گی۔
یہ فیچر ان صارفین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو فون کی رفتار کم ہونے یا اسٹوریج بھرنے سے پریشان رہتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے فون کو ہلکا، تیز اور صاف رکھا جا سکتا ہے — بغیر کسی ایپ کو ہمیشہ کے لیے حذف کیے۔